"SSC" (space) message & send to 7575

شکیل عادل زادہ اور سب رنگ کا دوسرا جنم…(1)

''سب رنگ کہانیاں‘‘ شکیل عادل زادہ کے ''سب رنگ‘‘ کا دوسرا جنم ہے۔ وہی سب رنگ جس کے احیا کا انتظار ایک مدت سے تھا۔ اُن سب لوگوں کوجن کا بچپن اور جوانی سب رنگ کے ہجرووصال کی لذتوں میں گزری۔ جب ان دنوں کی مہک اور مٹھاس کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں سب رنگ کی یاد بھی آتی ہے جو اس عہدِ خوش رنگ کا ایک حصہ تھا‘ جہاں ہر چیز حسین تھی اور سچی بات تو یہ ہے کہ سب رنگ ایک رسالہ نہ تھا ایک جذبہ تھا، ایک عشق تھا، ایک عہد تھا، ایک تہذیب تھی، ایک جنون تھا، ایک نشہ تھا جس کا ایک بار اس سے سامنا ہوا وہ نقدِ دل ہار بیٹھا۔ دراصل سب رنگ ایک شخص کی آشفتہ سری اور جنوں کیشی کا شاخسانہ تھا جسے دنیا شکیل عادل زادہ کے نام سے جانتی ہے‘ جس نے ثابت کیا کہ عشق، محنتِ پیہم اور جدتِ فکر سے آپ اپنا راستہ خود تراش سکتے ہیں۔ جب شکیل عادل زادہ عالمی ڈائجسٹ سے علیحدہ ہوئے تو اُردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ کا دور دورہ تھا۔ ایسے میں ایک شخص جس کے پاس سرمایہ نہ ہو ایک نیا ڈائجسٹ شروع کرنے کا کیسے سوچ سکتا ہے لیکن وہ عام شخص نہ تھا۔ اس کا سرمایہ اس کی ان تھک محنت، اس کی تخلیقی اپج، اس کا اعلیٰ ادبی ذوق‘ مطالعہ اور پڑھنے والوں کی نفسیات سے آگاہی تھی۔ پھر دیکھنے والوں نے ایک انوکھا منظر دیکھا۔ سب رنگ دنوں مہینوں میں زقندیں بھرتا ہم عصر ڈائجسٹوں سے آگے، بہت آگے نکل گیا اور سب کو ایک عالمِ حیرت میں چھوڑ گیا۔ یہی حیرت شکیل عادل زادہ کی شخصیت کا مرکزی جوہر ہے۔ یہی اس کے خواب کی تعبیر ہے۔ ہرلحظہ ایک تازہ منظر کی تلاش، ہر آن ایک نئی تخلیق کی آرزو۔ میری تعلیم اور تحقیق کا میدان لسانیات ہے۔ میں زبان کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں۔ مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ زبان کے معجزے کیا ہوتے ہیں اور لفظوں کا جادو کیسے سر چڑھ کر بولتا ہے۔ فکر اور فن کے ٹکسال میں کیسے الفاظ کی صورت گری ہوتی ہے۔ کیسے ایک لکھاری جوہری کی طرح لفظوں کے ہیرے موتی بناتا، سنوارتا، نکھارتا اور اجالتا ہے۔ اُردو ادب میں اس فن کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو شکیل عادل زادہ کی تحریریں دیکھیں۔ نئی نویلی ڈکشن، انوکھی تراکیب اور اچھوتا اظہار، ایسا کہ آپ کی روح کے تار جھنک جائیں۔
یہ وہ جادو تھا جو سب رنگ کے صفحات میں اوّل تا آخر پھیلا ہوا تھا۔ سب رنگ کے سرِورق سے لے کر بیک ٹائٹل پر سب رنگ کے تعارف میں لکھے ہوئے الفاظ تک۔ ذاتی صفحے سے لے کر ہر کہانی تک میں شکیل عادل زادہ کی رس بھری شخصیت کی چھاپ ہوتی۔ کہتے ہیں ہرلفظ کا ایک رنگ، ایک خوشبو، ایک ذائقہ ہوتا ہے‘ اور پھر جملوں میں لفظوں کے دروبست سے جڑا ایک طلسم ہوتا ہے۔ شکیل عادل زادہ نے ایک عالم کو زبان کے اس ذائقے سے آشنا کرایا، لفظوں کی مہک سے متعارف کرایا اور تحریر کی تاثیر میں شرابور کر دیا۔ سب رنگ سے رفاقت کا عرصہ ایک خواب کی طرح تھا‘ ایک ایسا خوش رنگ خواب جو ہماری زندگیوں کا حصہ تھا۔ اُس وقت ہمیں یوں لگتا تھا جیسے یہ خواب کبھی ختم نہیں ہوگا‘ لیکن زندگی کے ضابطے ہماری خواہشوں کے تابع نہیں ہوتے۔ ہر خواب کی طرح سب رنگ کا سپنا بھی ایک دِن تمام ہو گیا اور ہماری زندگیوں میں ادھورے پن کا خلا چھوڑ گیا۔ سب رنگ میں سلسلہ وار کہانیاں اپنے انجام تک نہ پہنچ سکیں۔ ہم جو بازی گر کے بابر زمان خان اور بٹھل کی پیہم تلاش کے ہمراہی تھے یہ نہ جان سکے کہ آخر کہانی کی خوبصورت اور معصوم لڑکی کورا کہاں چلی گئی؟ اب سوچتا ہوں تو یوں لگتا ہے کورا بھی ہماری جوانی کے مہکتے، چہکتے دنوں کا استعارہ تھی‘ جو ان دنوں کے ساتھ ہی کہیں کھو گئی۔ اب نہ تو وہ دن واپس آئیں گے اور نہ ہی کورا کا سراغ ملے گا‘ لیکن گئے دنوں کی میٹھی کسک کی طرح کورا بھی ہمارے دل کے نہاں خانوں میں مہکتی رہے گی۔ سب رنگ کی یک لخت بندش اس کے عشاق کو بے قرار کر گئی۔ لوگوں نے شکیل عادل زادہ کو منانے کیلئے کیا کیا جتن نہ کیے۔ کبھی تقاضے، کبھی اصرار، کبھی التجائیں، کبھی دھمکیاں۔ شکیل عادل زادہ وقتی طور پر ہامی بھر لیتے تھے‘ لیکن پھر سکوت کا وہی تکلیف دہ دورانیہ۔
یہ شاید 2017ء کی بات ہے جب شکیل عادل زادہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے لٹریچر کارنیوال میں تشریف لائے۔ مجھے یاد پڑتا ہے ان کی آمد کا سن کر لوگ پروانوں کی طرح امڈ آئے تھے اور یونیورسٹی کا وسیع ہال سامعین کے لیے کم پڑ گیا تھا۔ اس میں ہر عمر کے لوگ تھے۔ یہاں بھی شکیل عادل زادہ سے وہی سوال باربار کیا گیا۔ سب رنگ دوبارہ کب شروع کر رہے ہیں؟ اس کے جواب میں ایک خامشی تھی۔ شکیل عادل زادہ سے کبھی تنہائی میں بات ہوتی تو وہ کہتے‘ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ پچاس سال پہلے حالات مختلف تھے۔ قارئین مختلف تھے‘ اور میں مختلف تھا۔ ان کی ساری باتوں سے اتفاق لیکن لوگوں کو کون سمجھائے۔ تقاضے اور التجائیں جاری رہیں‘ اور پھر ایک دن تو کمال ہو گیا۔ شکیل عادل زادہ اسلام آباد تشریف لائے تو معروف کالم نگار جاوید چوہدری صاحب نے انہیں دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا اور مجھے فون کرکے کہا کہ انہیں لانے کا ذمہ آپ کا ہے۔ جاوید چوہدری نے گھر میں پُرتکلف لنچ کا اہتمام کیا تھا اور شرکا میں صرف ہم تین لوگ تھے۔ اس روز خوب گفتگو ہوئی۔ باتوں باتوں میں شکیل بھائی نے کہا: کوئی زمانہ تھا میں تواتر سے مری جایا کرتا تھا اب تو ایک عرصہ گزر گیا مری گئے ہوئے۔ اس روز تو جاوید چوہدری خاموش رہے۔ اگلے روز مجھے ان کا فون آیا کہ شکیل بھائی کے ساتھ مری آئیں اور رات وہیں قیام کریں۔ میں نے شکیل بھائی کو پیغام دیا اور ان سے کہا: کل ڈرائیور آپ کو مری لے جائے گا‘ مجھے کچھ مصروفیت ہے کل آپ واپس آئیں گے تو ملاقات ہوگی۔ شکیل بھائی اڑگئے مری جائیں گے تو اکٹھے جائیں گے۔ میں نے کہا‘ یوں کرتے ہیں ڈرائیور آپ کو لے جائے گا وہاں پہنچ کر آپ آرام کریں‘ گپ شپ لگائیں‘ میں دفتر کے کچھ کام نمٹا کر شام کو آجاؤں گا۔ وہ راضی ہوگئے۔ میں دفتری کاموں سے فارغ ہوکر اسلام آباد سے مری کی طرف روانہ تھا۔ مجھے مری سے آگے لوئر ٹوپہ جانا تھا۔ ہماری گاڑی دشوار گزار راستے پر چلتے ہوئے نشیب کے کچے راستے پر اترنے لگی۔ یوں لگتا تھا اس جنگل میں کوئی ذی روح نہیں لیکن پھر ایک آدمی نظر آیا جو مجھے منزل تک لے گیا۔ یہ جاوید چوہدری کا مسکن تھا۔ لوئر ٹوپہ کے گھنے جنگلوں میں گھرا ہوا، سر تا سر لکڑی سے بنا ہوا ایک ایسا گھر جو خوبصورت آرکیٹکچرکا نمونہ تھا۔ کھلا ٹیرس، سامنے نشیب میں اترتے اور پھر بلندی پر ابھرتے تاحد نظر بلندوبالا درخت۔ یہ گھر واقعی ایک عجوبہ تھا جسے بڑے پیار اور دلار سے بنایا گیا تھا۔ جاوید چوہدری صاحب سے شکیل بھائی کا پوچھا تو وہ مسکرا دیے‘ کہنے لگے: میں نے منت زاری کرکے انہیں ایک کمرے میں بٹھایا ہے۔ انہیں کاغذ اور پن دیا اور کہا ہے کہ آج آپ نے ہرصورت بازی گر کی رُکی ہوئی قسط کو آگے بڑھانا ہے۔ میں نے کہا‘ وہ کیسے مان گئے۔ جاوید چوہدری مسکرائے اور کہنے لگے آسان نہیں تھا لیکن مان گئے۔ اب کمرے میں کھانے پینے کا سامان ہے، کاغذ ہیں، پن ہے اور شکیل بھائی۔ میں نے دروازے کے ساتھ شیشے کی دیوار کے ہٹے ہوئے پردے سے اندر جھانکا۔ شکیل بھائی ایک کرسی پر بیٹھے تھے۔ ان کے بالکل سامنے اور بائیں طرف شیشے کی دیواریں تھیں اور شکیل بھائی دنیا و مافیہا سے بے خبر کاغذ پر کچھ لکھ رہے تھے۔ کمرے کی دیواروں کے باہر تا حدنظر سربلند درختوں کا لامتناہی سلسلہ تھا‘ جہاں بارش کی ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی اور کمرے کے اندر شکیل عادل زادہ کے دامنِ دل پر یادوں کی رم جھم اتر رہی تھی اور بازی گر کا آٹھ سالہ منجمد دریا قطر قطرہ پگھل رہا تھا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں