زندگی کے راستے کتنے پُر پیچ ہوتے ہیں‘ چلتے چلتے اچانک ایک موڑ آتا ہے‘ جو ہمیں ایک ایسی ڈگر پر لے جاتا ہے جس کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا نہیں ہوتا۔ برِصغیر کے عظیم موسیقار مدن موہن کی زندگی بھی ایسی ہی تھی۔ ان کے آباؤاجداد پوٹھوہار کے مردم خیز علاقے چکوال میں رہتے تھے۔ کہتے ہیں مدن کے دادا یوگ راج علاقے کے جانے مانے حکیم تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حکمت، شاعری اور موسیقی کے امتزاج کو رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ چکوال کے موتی بازار میں ان کا بہت بڑا گھر تھا جو یوگ آشرم کہلاتا تھا۔ یوگ راج کا بیٹا رائے بہادر چونی لال اپنی ذہانت اور محنت سے اکاؤنٹنٹ جنرل کے عہدے پر پہنچا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عراق برطانیہ کے زیرِ تسلط تھا۔ رائے بہادر چونی لال کا تقرر عراق میں ہوا جہاں وہ اکاؤنٹنٹ جنرل کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ یہیں 25 جون 1924ء کو مدن موہن کی پیدائش ہوئی۔ 1932ء میں جب عراق کو برطانوی تسلط سے آزادی ملی تو رائے بہادر چونی لال واپس اپنے آبائی علاقے چکوال آگئے۔ مدن موہن چکوال کی آزاد فضاؤں میں آکر بہت خوش ہوا۔ اس کے دادا مدن سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ داداکی باتیں غور سے سنتا‘ خصوصاً موسیقی کے حوالے گفتگو میں اس کی خاص دلچسپی ہوتی۔ اسی دوران مدن کے والد تلاشِ روزگار میں بمبئی چلے گئے لیکن مدن موہن اپنے دادا کے پاس چکوال میں ہی رہا۔ اسے گانے کا شو ق تھا۔ اپنے محلے میں دوستوں کے درمیان ہوتا تووہ اس سے گانے کی فرمائش کرتے۔ یہ اس کی زندگی کے حسین ترین دن تھے۔ وہ چکوال کی آڑی ترچھی پگڈنڈیوں پر اپنے دوستوں کے ساتھ بھاگتا پھرتا تھا۔ چکوال کی اُجلی صبحوں اور رنگ بھری شاموں کے درمیان زندگی اٹھلاتی ہوئی چل رہی تھی کہ اس کی زندگی میں اچانک ایک موڑ آیا۔ اس زمانے میں چکوال میں تعلیمی سہولتیں بہت کم تھیں‘ اس لیے اس کے گھر والوں نے لاہور منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ لاہور میں قیام مدن کیلئے کئی لحاظ سے اہم تھا۔ یہ متحدہ ہندوستان کا پیرس کہلاتا تھا‘ جہاں علوم و فنون کے مراکز تھے۔ مدن نے لاہور کے ایک سکول میں پڑھنا شروع کردیا۔ اس کے موسیقی کے شوق کو لاہور میں اور جلا ملی۔ یہیں مدن کو کرتار سنگھ کی صورت میں ایک ایسا استاد میسر آیا جس نے اسے کلاسیکل موسیقی سے روشناس کرایا۔ ابھی اس کی سکول کی تعلیم جاری تھی کہ اس کے خاندان نے بمبئی جانے کا فیصلہ کرلیا۔ بمبئی میں اس نے سینٹ میری سکول سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ موسیقی کا شوق اسے آل انڈیا ریڈیو لے گیا‘ جہاں وہ بچوں کے پروگرام میں گانے لگا۔ انہی دنوں اس کی ملاقات دو ہم عمر بچوں سے ہوئی۔ اب یہ تین دوست تھے جن کا مشترکہ شوق آل انڈیا ریڈیو میں اپنے شوق کی تکمیل تھا۔ کسے خبر تھی کہ مستقبل میں یہ تینوں فلم انڈسٹری میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچیں گے۔ اس کے باقی دو دوستوں کے نام ثریا اور راج کپور تھے۔ مدن موسیقی کی دنیاکا روشن آفتاب بنا۔ راج کپور نے اداکاری کے میدان میں ایک منفرد اور یکتا مقام حاصل کیا اورثریا نے گلوکاری اور اداکاری میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ بمبئی کے شہرت کے آسمان پر چمکنے والے ان روشن تاروں کا تعلق چکوال، گوجرانوالہ اورپشاور سے تھا۔ ثریا گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی‘ راج کپور پشاور میں پیدا ہوا جہاں ان کی حویلی آج بھی موجود ہے۔ مدن چاہتا تھا‘ آل انڈیا ریڈیو کے یہ دن کبھی ختم نہ ہوں لیکن اس کے والد کے ذہن میں اس کیلئے ایک اور منصوبہ تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ مدن برٹش آرمی میں کمیشن حاصل کرے۔ اسی لیے مدن کو ڈیرہ دون میں واقع کرنل براؤن کیمبرج سکول میں بھیج دیا گیا‘ جہاں ایک سال کی ٹریننگ کے بعد 1943ء میں مدن موہن نے سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر فو ج میں شمولیت اختیار کرلی۔ یہ ایک بالکل مختلف زندگی تھی جس میں سخت ڈسپلن تھا اور صبح سے شام تک ایک مشقت بھری زندگی تھی‘ لیکن مدن کا تعلق پو ٹھوہار سے تھا‘ جہاں کی زندگیاں جفاکشی، محنت اور مشقت سے عبارت ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے پوٹھوہار کے ہرگھر کا کوئی نہ کوئی فرد فوج میں ضرور جاتا ہے۔ یوں مدن کو فوج میں مشقت کی پروا نہیں تھی۔ ہاں وہ کبھی کبھار رات کو سونے کیلئے جب بستر پر لیٹتا تو اسے یوں لگتا بانسری کی لے اسے بلا رہی ہے۔ موسیقی کے شوق کی چنگاری سلگتی رہی اور پھر ایک دن مدن نے فوج چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ فوراً ہی اسے آل انڈیا ریڈیو لکھنؤ میں پروگرام اسسٹنٹ کی ملازمت مل گئی۔ اس زمانے کے ریڈیو سٹیشن کے ماحول میں موسیقی رچی ہوئی تھی۔ بڑے بڑے موسیقار ریڈیو سٹیشن سے وابستہ ہوتے تھے۔ یہاں بھی ایسا ہی تھا۔ لکھنؤ کے ریڈیو سٹیشن پر مدن کی ملاقاتیں نامور فنکاروں سے ہوتیں‘ جن میں فیاض خان، استاد علی اکبر، بیگم اختری اور طلعت محمود شامل تھے۔ یہ سب اس زمانے میں دنیائے موسیقی میں بلند مقام رکھتے تھے۔ ان کی صحبت میں مدن کے موسیقی کے فن کی غیر محسوس طریقے سے تربیت ہونے لگی۔ 1947ء میں مدن کا تبادلہ دہلی کردیا گیا‘ لیکن یہاں کام کی نوعیت مختلف تھی اورعملی طور پر وہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کچھ نہ کرسکتا تھا۔ جلد ہی وہ یہاں ملازمت کی یکسانیت سے اکتا گیا اور نوکری سے استعفیٰ دے کر ایک Casual ورکرکے طورپر ریڈیو سے منسلک ہوکر اکا دکا پروگرام کرنے لگا۔ مدن موہن کے اندر تخلیق کی کئی لہریں چل رہی تھیں۔ یہ لہریں اداکاری، گلوکاری، نغمہ نگاری اور موسیقاری کی سطح پر تھیں۔ مدن نے یہ سارے کام کیے لیکن موسیقی اس کے نام کا تعارف بن گئی۔ مدن کو پہلی قابلِ ذکر کامیابی 1950ء میں ملی جب اس نے فلم ''آنکھیں‘‘ کی موسیقی ترتیب دی‘ جس میں محمد رفیع کی آواز میں ''ہم عشق میں برباد رہیں گے‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اگلی فلم ''ادا‘‘ تھی جس میں مدن کی موسیقی میں لتا منگیشکر نے گیت گائے۔ محمد رفیع اورلتا آخر دم تک مدن کے پسندیدہ گلوکار رہے۔ اس کی موسیقی میں زیادہ ترگیت انہی گلوکاروں نے گائے۔ مدن موہن کے فن میں خاص بات غزلوں کی موسیقی تھی۔ شاید ہی کوئی اور موسیقار ایسا ہو جس کی موسیقی میں اتنی تعداد میں غزلیں گائی گئی ہوں۔ غزل کے ذکر سے طلعت محمود کا نام ذہن میں آتا ہے۔ ''جہاں آرا‘‘ فلم میں طلعت محمود نے مدن کی موسیقی میں ''پھر وہی شام، وہی غم، وہی تنہائی ہے‘‘ جیسا خوبصورت گیت گایا۔ اسی طرح رفیع کی آواز میں ''اک حسین شام کو‘‘ اور''کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی تو آئے گا‘‘ ''ساون کے مہینے میں‘‘ ''آپ کے پہلو میں آکر رو دیے‘‘ ''میری آواز سنو‘‘ ''تیری آنکھوں کے سوادنیا میں رکھاگیا ہے‘‘ جیسے گیت امر ہوگئے۔ مدن کی موسیقی میں سب سے زیادہ گانے لتا منگیشکر نے گائے جن میں ''تو پیار کرے یا ٹھکرائے‘‘ ''لگ جا گلے‘‘ ''جو ہم نے داستاں اپنی سنائی‘‘ ''ہم ہیں متاعِ کوچۂ بازار کی طرح‘‘ ''حسن حاضر ہے محبت کی سزا پانے کو‘‘ ملو نہ تم تو ہم گھبرائیں‘‘ ''رکے رکے سے قدم‘‘ شامل ہیں۔ مدن کی موسیقی میں فلم ''دیکھ کبیرا رویا‘‘ میں مناڈے کی آواز میں ایک خوبصورت گیت تو آپ کو یاد ہی ہوگا ''کون آیا مرے من کے دوارے‘‘۔ یہ گیت مناڈے کے فنی سفر کا اہم سنگِ میل ثابت ہوا۔ یوں پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں مدن موہن نے سینکڑوں خوبصورت گیتوں کی دھنیں مرتب کیں اور بالی وڈ پر راج کیا۔ پھر شہرت کی جگمگاتی راہوں پر چلتے چلتے اچانک مدن کی زندگی میں ایک موڑآیا جہاں ہرطرف تاریکی اور خاموشی تھی۔ اسی موڑ پر کہیں زندگی نے مدن کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں زندگی کے راستے کتنے پُرپیچ ہوتے ہیں چلتے چلتے اچانک ایک موڑ آتا ہے جو ہمیں ایک ایسی ڈگر پر لے جاتا ہے جس کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا نہیں ہوتا۔