جب بھی مری جانے کا اتفاق ہو تو میں بادلوں میں گھری چوٹیوں کو غور سے دیکھتا ہوں اور مجھے 1857کی سردیوں کی وہ گھنیری رات یاد آ جاتی ہے جب مری کے جانبازوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر فرنگی اقتدار کو للکارا تھا او ر جن کی قربانیوں کی بدولت یہ چوٹیاں آج آزاد اور سر بلند کھڑی ہیں۔ پچھلے دنوں مجھے Renu Saranکی کتاب Freedom Struggle of 1857 پڑھنے کا اتفاق ہوا۔اس میں میری دلچسپی کا سامان جنگِ آزادی میں مری کا کردارتھا۔مری راولپنڈی کے پہلو میں ایک خوب صورت پہاڑی مقام ہے۔ یہاں کی پہاڑیاں ،یہاں کے منظر ،یہاں کے موسم سب سے منفرد اور جدا ہیں۔گرمیوں میں لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں اور سردیوں میں یہاں برف باری کا اپنا حُسن ہوتا ہے۔یہاں کے باسی پہاڑوں کی آغوش میں رہتے ہیں او ر بادلوں کی طرح آزاد زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سید احمد شہید کی قیادت میں سکھوں کے خلاف اعلان ِ جہاد کیا گیا تومری کے لوگ بھی سید احمد شہید کے قافلے میں شامل تھے۔بالاکوٹ کے مقام پر سید احمد شہید کا لشکر سکھوں کے حصار میں آگیا۔سکھوں کی فوج کی قیادت ہری سنگھ نلوا کے سپرد تھی‘جس نے وسیع پیمانے پر مجاہدین کا قتلِ عام کیا۔آج بھی بالاکوٹ اور اس کے نواح میں شہیدوں کی قبروں کی نشانیاں موجود ہیں۔
پنجاب میں سکھوں کی حکومت کو اس وقت دھچکا لگا۔جب رنجیت سنگھ کا انتقال ہو گیا۔اس کی موجودگی میں سکھوں کے مختلف گروہوں میں اتحاد تھا۔رنجیت سنگھ کے بعد مختلف لوگ اقتدار کے دعوے دار بن گئے۔یہی وہ دور تھاجب انگریزوں نے پنجا کا رُخ کیا۔ 1845ء میں راولپنڈی میں سکھوں اور فرنگیوں کی جنگ ہوئی۔سکھوں کی قیادت رنجیت سنگھ کی بیوہ رانی جندن کر رہی تھی۔گھمسان کی اس لڑائی میں سکھوں کو شکست ہوئی او ر پھر 1849ء میں پنجاب مکمل طور پر انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا لیکن مری کے لوگوں کو یقین تھا کہ غلامی کا دور ختم نہیں ہوا صرف طوق بدلا ہے۔پہلے سکھوں کی حکمرانی تھی اب انگریزوں کی ہے۔ ان کی غلامی کی رات ختم نہیں ہوئی ۔وہ دن گِن رہے تھے کہ مری کی پہاڑیوں پر آزادی کی صبح کب طلوع ہوگی۔انگریزوں کو مری بہت پسند آیا۔یہ علاقہ موسم کے لحاظ سے ان کے وطن برطانیہ جیسا تھا۔ مری سطحِ سمندر سے 7500فٹ بلند تھا‘اور پنجاب کے تپتے ہوئے میدانی علاقوں سے بالکل مختلف تھا۔پنجاب پر قبضے کے بعد انگریزوں نے اسے اپنا ہل سٹیشن بنا لیا۔اس وقت کے گورنر ہنری لارنس نے 1851ء میں یہاں پوسٹ آفس کی بنیاد رکھی۔اور اس کے ساتھ ہی مال روڈ کی تعمیر شروع کردی یوں مری باقاعدہ طور پر پنجاب حکومت کا ہیڈ کوارٹر بن گیا۔مری کی یہ حیثیت 1876ء تک برقرار رہی۔مری میں آمد پر انگریزوں نے ہندوستان کے باقی علاقوں کی طرح یہاں بھی مقامی لوگوں کو فوج میں بھرتی کرنا شروع کیا اسی طرح پنجاب حکومت کا ہیڈ کوارٹر ہونے کی وجہ سے یہاں افسروں کی بڑی تعداد بھی تعینات تھی جنہیں ذاتی ملازمین کی ضرورت تھی۔اسی طرح ہوٹلوں اور دکانوں پر مقامی افراد کو نوکری مل گئی لیکن ان کے دلوں میں آزادی کی خواہش اندر ہی اندر سُلگ رہی تھی۔یہ چنگاری شعلہ بننے کے لیے کسی ہوا کے جھونکے کی منتظر تھی۔اور پھر وہ موقع آ ہی گیا جب انہیں خبر ملی کہ میرٹھ میں مقامی سپاہیوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔اور دہلی پر قبضہ کر کے بہادر شاہ ظفر کی بادشاہت کا اعلان کر دیا ہے۔اب یوں محسوس ہو رہا تھا کہ فرنگیوں کی حکومت کا خاتمہ یقینی ہے۔یہی وہ موقع تھا جس کا مری کے حریت پسندوں کو انتظار تھا۔حریت پسندوں کا رہنما مقامی قبائل سردار شیر باز خان عباسی تھا‘جس نے دوسرے قبائل کے حکمرانوں کو بھی اس منصوبے کا حصہ بنا لیا تھا‘ جس میں سردار حسن علی خان، ستی قبیلہ کے سردار بورا خان ، بیروٹ کے سردار لالی خان اور میاں عبدالعزیز اور پونچھ کے سردار ریشم خان شامل تھے۔مقامی لوگوں کو جمع کیا گیا۔انہیں صورتحال بتائی گئی اور یہ فیصلہ ہوا کہ رات کی تاریکی میں فرنگیوں کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا جائے گا۔عام حالات میں مری میں ہیڈ کوارٹر ہونے کی وجہ سے فوج کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔لیکن دہلی میں جنگِ آزادی کی وجہ سے حالات خراب ہونے کے باعث فرنگیوں نے ملک کے مختلف حصوں سے کمک مانگ لی تھی۔مری سے بھی فوجیوں کو دہلی بھیج دیا گیا تھا‘اور اب یہاں فوج کی تعداد بہت کم تھی۔ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے کا یہ بہترین موقع تھا۔حریت پسندوں کو خبر تھی کہ یہ ایک خطرناک منصوبہ ہے جس کی ناکامی کی صورت میں ان کی موت یقینی تھی۔انہیں معلوم تھا کہ ذرا سی غلطی سے اگر فرنگیوں کو ان کے منصوبے کی خبر ہو گئی تو وہ ان پر مظالم کے پہاڑ ڈھا دیں گے۔لیکن آزادی کی نیلم پری انہیں اپنی طرف بُلا رہی تھی اور وہ اس کے پیچھے پیچھے نکل آئے تھے۔
وہ 1857 کی ایک سرد اور تاریک رات تھی اورآزادی کے متوالے آہستہ آہستہ بلندی کی طرف جا رہے تھے۔ کبھی کسی پتھر سے پاؤں رپٹ جاتا تو وہ اور محتاط ہو جاتے۔ تھوڑی دیر کیلئے تھم جاتے اور سانس روک لیتے۔ انہیں معلوم تھاکہ کسی بھی شب خون کیلئے Element of Surprise ضروری ہے۔ وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ دشمن کو بے خبری میں جا دبوچیں لیکن قدرت کوکچھ اور ہی منظور تھا۔ لیڈی لارنس کے ذاتی ملازم حاکم خان کو حملے کے منصوبے کی خبر مل چکی تھی جو اس نے بلا تاخیر لیڈی لارنس تک پہنچا دی تھی۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ کچھ بہادر اپنی جان ہتھیلی پررکھ کر فرنگیوں کے مقابل کھڑے تھے‘ اور انہیں میں سے کسی نے مخبری بھی کردی تھی۔ یہ تاریخ کا تسلسل تھا چاہے وہ سراج الدولہ کے دور کا میرجعفر ہویا دکن کا میر صادق۔ وہی کہانی تھی اس روز بھی دہرائی جارہی تھی۔ پیشگی خبر ملنے پر فرنگیوں نے حملے سے نمٹنے کی پوری تیاری کرلی تھی۔ خواتین کو ایک محفوظ مقام پر جمع کردیا گیا تھا۔ ہیڈ کوارٹر کے اردگرد موثر حصار بنالیا گیاتھا۔ ہیڈ کوارٹر پہنچنے کیلئے تین راستوں پر سخت حفاظتی پہرہ لگادیا گیا تھا۔ ہزارہ میں مقیم فرنگی فوج کو فوری کمک کا پیغام بھیج دیا گیا تھا۔ اب وہ ہر قسم کے حملے کیلئے تیار تھے۔ ادھر مقامی حریت پسندآہستہ آہستہ پہاڑی کا عمودی سفر طے کررہے تھے۔ وہ بہت محتاط تھے‘ لیکن ابھی وہ اپنے ٹارگٹ سے کچھ ہی فاصلے پر تھے کہ اچانک ان پر گو لیوں کی بارش ہونے لگی۔ وہ حیران تھے کہ دشمن کوان کی آمد کا پتہ کیسے چلا‘ دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا‘ لیکن زیادہ جانی نقصان نہ ہوا۔ مقامی حریت پسند پہاڑیوں کے شناسا راستوں پررات کی تاریکی میں غائب ہو گئے۔ بظاہر یہ بغاوت ناکام ہوگئی لیکن فرنگی حکمرانوں کا اقتدار ڈولنے لگا۔ انہوں نے اس حملے کے بعد پانچ کنٹونمنٹس کی تعمیر شروع کردی‘ باڑہ گلی، نتھیا گلی، ڈونگا گلی، چھانگا گلی، اور کوزہ۔ ان کنٹونمنٹس کی تعمیرکا مقصد مستقبل میں حریت پسندوں کے حملوں سے بچنا تھا۔ اس حملے پر قابو پانے کے بعد فرنگیوں نے مقامی لوگوں سے بھرپور انتقام لیا۔ گاؤں کے گاؤں جلا دیے گئے۔ سینکڑوں افراد کوگرفتار کرلیا گیا۔ لوگوں کے مال مویشی ہتھیا لیے گئے۔ متعدد افرادکو پھانسی دے دی گئی۔ سردار شیر باز خان کواس کے آٹھ بیٹوں سمیت توپوں کے سامنے کھڑا کرکے اُڑا دیا گیا۔ شہیدوں نے اپنے خون سے آزادی کی تاریخ رقم کردی تھی۔ میرٹھ سے کوسوں دور مری کے باشندوں نے بھی علمِ بغا وت بلند کرکے فرنگیوں کو یہ پیغام دے دیا تھاکہ آزادی کی منزل زیادہ دور نہیں۔ اب بھی مری جانے کا اتفاق ہوتو میں بادلوں میں گھری چوٹیوں کو غور سے دیکھتا ہوں اور مجھے 1857 کی سردیوں کی وہ گھنیری رات یاد آ جاتی ہے جب مری کے جانبازوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر فرنگی اقتدارکو للکارا تھا اور جن کی قربانیوں کی بدولت یہ چوٹیاں آج آزاد اور سربلند کھڑی ہیں۔