ہندوستان میں فرنگی حکومت کے خلاف ہر دور میں مزاحمت جاری رہی۔ کبھی یہ مسلح جدوجہد کی صورت میں مختلف علاقوں میں سر اُٹھاتی رہی‘ کبھی 1857ء میں اجتماعی جنگ آزادی کی صورت میں سامنے آئی۔ مسلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ مزاحمت کا ایک اور اہم اسلوب غیر مسلح جدوجہد تھا جس میں کچھ مقامی رہنماؤں نے تعلیم کو ایک مضبوط اور موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ان مقامی رہنماؤں میں عبدالغفار خان کا نام نمایاں ہے۔ غفار خان کو ان کے پیروکار باچا خان کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ باچا خان 6 فروری 1890ء کو چارسدہ کے اتم زئی قبیلے کے ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بہرام خان تعلیم کی اہمیت سے آگاہ تھے‘ اس لیے انہوں نے باچا خان اور بڑے بیٹے ڈاکٹر خان صاحب کو اس زمانے میں بہترین ممکنہ تعلیم دلوائی۔ دلچسپ بات یہ کہ باچا خان کو ایک طرف مدرسے اور دوسری طرف ایک مشنری سکول میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ایک طرف وہ مسلمانوں کی جدید درس گاہ علی گڑھ یونیورسٹی کے طالبِ علم تھے اور دوسری طرف ان کا رابطہ دارالعلوم دیوبند سے تھا۔ ان دو مختلف فکری دھاروں سے وابستگی نے ان کی شخصیت میں ایک توازن، ٹھہراؤ، برداشت اور رواداری کو جنم دیا تھا۔
باچا خان نے بچپن سے ہی اس بات کا مشاہدہ کیا تھا کہ ان کے علاقے میں‘ جو اس وقت صوبہ سرحد اور اب خیبر پختونخوا کہلاتا ہے‘ فرنگی حکومت نے لوگوں کی تعلیمی اور معاشی ضروریات پر بہت کم توجہ دی ہے۔ ان کے علاقے میں ایک طرف بچوں کے لیے سرکاری سکولوں کی تعداد بہت کم تھی اور دوسری طرف مقامی طرزِ زندگی میں لڑائی جھگڑے عام تھے۔ لوگ عدم برداشت کا شکار تھے اور شادی بیاہ کی تقریبات پر پیسوں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا۔ باچا خان اپنے اردگرد معاشی سطح پر ان مسائل کو دیکھ کر کُڑھتے لیکن ان کے کُڑھنے کی بڑی وجہ ملک میں فرنگیوں کا راج تھا جس نے ہندوستان کے مالی، تعلیمی اور معاشی نظام کو تہ و بالا کر دیا تھا۔ وہ سوچتے کہ کس طرح فرنگیوں کے تسلط سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایسے میں ان کی توجہ کا تمام تر مرکز حاجی تورنگ زئی بن گئے‘ جنہوں نے فرنگی حکمرانوں کو جرأت اور دلیری سے للکارا تھا۔ باچا خان حاجی تورنگ زئی کے ساتھ رضاکارانہ کام کرنے لگے۔ حاجی تورنگ زئی کو اس بات کا احساس تھاکہ مزاحمت کو مؤثر بنانے اور اس میں تیزی لانے کے لیے مدرسوں کے قیام کی ضرورت ہے کیونکہ ذہنی شعور ہی نوجوانوں کو حریت کے راستے پر جدوجہد اور استقامت کی طاقت دیتا ہے۔ یوں باچا خان نے حاجی تورنگ زئی کے ساتھ مل کر مختلف علاقوں میں مدرسوں کے قیام میں ان کی مدد کی۔ حاجی تورنگ زئی صاحب سے یہ قریبی اشتراک 1910ء سے 1915ء تک رہا۔ یہ تعلق تب ختم ہوا جب حاجی صاحب تورنگ زئی قبائلی علاقے میں چلے گئے۔
باچا خان ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور ان کا ایمان تھا کہ اسلام لوگوں کو عدم تشدد کا راستہ دکھاتا ہے۔ انہیں مکمل یقین تھا کہ پُرامن مزاحمت سے کسی بھی طاقت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ باچا خان کا عدم تشدد کا تصور ان کی مذہب سے گہری وابستگی کا نتیجہ تھا‘ اس لیے اس عام خیال میں کوئی حقیقت نہیں کہ ان کا عدم تشدد کا تصور گاندھی سے مستعار لیا گیا تھا؛ اگرچہ ان کے اور گاندھی کے درمیان ایک باہمی عزت و تکریم کا رشتہ تھا۔ 1919ء میں ہندوستان میں مزاحمتی آوازوں کا گلا دبانے کے لیے رولٹ ایکٹ (Rowlatt Act) متعارف کرایا گیا۔ اس ایکٹ کا بنیادی مقصد شخصی آزادی کا خاتمہ تھا۔ ملک کے طول وعرض میں اس ایکٹ کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ اس سلسلے میں 16 اپریل کو چارسدہ کے مقام اتم زئی میں بھی ایک بڑا اجتماع ہوا‘ جس میں باچا خان نے تقریر کی۔ اس تقریر کی پاداش میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور رہائی چھ ماہ بعد عمل میں آئی۔
اس دوران باچا خان مسلسل قوم پرست رہنماؤں سے رابطے میں تھے۔ ان کا دارالعلوم دیوبند سے بھی رابطہ تھا‘ جہاں کے انقلابی رہنما انگریزوں کے خلاف مزاحمت کررہے تھے۔ اسی طرح وہ گاندھی اور جوہر برادران سے بھی رابطے میں تھے جو تحریکِ خلافت کی قیادت کر رہے تھے۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ صوبہ سرحد میں تحریک خلافت کی قیادت باچا خان کر رہے تھے۔ تحریک خلافت میں ایک موقع پر جب ہندوستان کو ''دارالحرب‘‘ قرار دے دیا گیا اور لوگوں سے کہا گیا کہ وہ ہندوستان سے ہجرت کر جائیں تو تحریکِ خلافت کے رہنماؤں کا ساتھ دیتے ہوئے باچا خان بھی افغانستان چلے گئے تھے لیکن انہیں جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ ہندوستان سے دور رہ کر ملک کی آزادی کی جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ تب انہوں نے ہندوستان واپس آنے کا فیصلہ کیا اور یہاں آ کر معاشرتی اصلاح کی تحریک شروع کر دی۔ ان کا خیال تھاکہ فرنگیوں کے خلاف مؤثر مزاحمت کے لیے ضروری ہے کہ اپنے لوگوں کی اصلاح کا کام کیا جائے۔ باچا خان نے اپنے احباب سے مشورے کے بعد گیارہ اپریل 1921ء کو ''انجمنِ اصلاح افغان‘‘ کے قیام کا اعلان کیا۔ اس تنظیم کے مقاصد میں افغانوں میں اتحاد قائم کرنا، ان میں اسلام سے محبت پیدا کرنا اور انہیں سماجی تقریبات میں مالی وسائل کے بے دریغ ضیاع سے روکنا شامل تھا۔ اب باچا خان نے اپنی ساری توجہ تعلیم پر مرکوز کر دی۔ انہیں حاجی تورنگ زئی صاحب سے مل کر سکولوں کے قیام کا تجربہ تھا۔ باچا خان نے صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں ایسے سکول قائم کرنے کا فیصلہ کیا جن میں دینی تعلیم کے علاوہ طلبا کو مہارتیں سکھائی جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں جذبۂ حریت کو بیدار کیا جائے۔ ان سکولوں کا نام ''آزاد اسلامیہ سکول‘‘ رکھا گیا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے‘ ان سکولوں میں اسلامی تعلیم کے ساتھ آزادی کے جذبے کی آبیاری کا بھی اہتمام تھا۔ پہلا آزاد اسلامیہ سکول 10 اپریل 1921ء کو اتم زئی میں قائم کیا گیا۔ ان سکولوں کے لیے حکومت سے کوئی فنڈ یا گرانٹ نہیں لی گئی تاکہ سکول اپنے لیے ایک آزادانہ پالیسی بنا سکیں۔ باچا خان نے اپنے اور اپنے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کے بچوں کو بھی اسی سکول میں داخل کرایا تاکہ یہ ان کے پیروکاروں کیلئے ایک مثال ہو۔ یہ دیکھ کر ان کے پیروکار اپنے بچوں کو بھی آزاد اسلامیہ سکول کی مختلف برانچوں میں داخل کرانے لگے۔ ان سکولوں میں روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ عصری اور فنی تعلیم کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ طلبا میں وطن کی آزادی کا جذبہ بھی بیدار کیا جاتا تھا۔ 1923ء میں آزاد اسلامیہ سکولوں کا الحاق جامعہ ملیہ اسلامیہ سے کر دیا گیا‘ جس کے چانسلر حکیم اجمل خان اور وائس چانسلر محمد علی جوہر تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، جس کا سنگِ بنیاد دارالعلوم دیوبند کے شیخ الہند مولانا محمودالحسن نے رکھا تھا، فرنگیوں کے خلاف جدوجہد میں حریت پسندوں کا مرکزِ نگاہ تھا۔
اب آزاد اسلامیہ سکول کی شاخیں مختلف علاقوں میں کھلنے لگی تھیں۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان سکولوں کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ گئی۔ 1928ء میں باچا خان نے ایک پشتو ماہنامہ رسالے کا اجرا کیا جس میں سیاست، مذہب اور سماج کے مختلف پہلوؤں پر مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس رسالے اور سکولوں کی بڑی تعداد نے مقامی لوگوں میں تبدیلی اور عدم تشدد کے ذریعے فرنگیوں سے آزادی کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ جب بھی برصغیر میں برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں ایک نمایاں نام باچا خان کا بھی ہوگا جنہوں نے فرنگیوں کے خلاف تعلیم کے ذریعے پُرامن جدوجہد کی اور اپنے پیروکاروں کی ایک ایسی جماعت تیار کی جس نے حریت کے سفر میں اہم کردار ادا کیا۔