"SSC" (space) message & send to 7575

گلزار ‘ بمبئی‘ اور دینہ… (3)

گلزا ر‘ راکھی‘ اور بوسکی کی ہنستی بستی زندگی کو نجانے کس کی نظر لگ گئی۔ وہ شادی جو محبت کے بندھن میں بندھی تھی زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکی اور گلزار اور راکھی باہم رضا مندی سے ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے لیکن علیحدگی کا یہ منظر ان کی زندگیوں میں ہمیشہ کے لیے رُک سا گیا۔ گلزار کی فلم ''آندھی‘‘ میں ایک گیت کی سطریں دیکھیں تو یوں لگتا ہے یہ گلزار اور راکھی کی زندگی کی کہانی ہے۔ جہاں سے تم موڑ مڑ گئے تھے/ یہ موڑ اب بھی وہیں پڑے ہیں/ ہم اپنے پیروں میں جانے کتنے/ بھنور لپیٹے ہوئے کھڑے ہیں۔
گلزار کے دستِ ہنر نے جس چیز کو مَس کیا اُسے غیر معمولی بنا دیا۔ غالب کے حوالے سے یوں تو پاکستان اور ہندوستان میں فلمیں بھی بنیں اور ڈرامے بھی لیکن غالب پر گلزار کی لکھی ہوئی ٹی وی سیریز سب سے الگ اور سب سے جدا ہے۔ اس ڈرامہ سیریل کا آغاز گلزار کی ان خوب صورت سطروں سے ہوتا ہے۔ ''بَلّی ماراں کے محلے کی وہ پیچیدہ دلیلوں کی سی گلیاں/ سامنے ٹال کی نکڑ پر بٹیروں کے قصیدے/ چند دروازوں پر لٹکے ہوئے بوسیدہ سے کچھ ٹاٹ کے پردے/ اور دھندلائی ہوئی شام کے بے نور اندھیرے/ ایسے دیواروں سے سر جوڑ کر چلتے ہیں یہاں/ چوڑی والان کے کڑے کی بڑی بی جیسے/ اپنی بجھتی ہوئی آنکھوں سے دروازے ٹٹولے/ اسی بے نور اندھیری سی گلی قاسم سے/ ایک ترتیب چراغوں کی شروع ہوتی ہے / اسد اللہ خاں غالب کا پتا ملتا ہے‘‘۔
گلزار کی تشبیہات اور استعارے اس کی گہری قوتِ مشاہدہ کا نتیجہ ہیں اور ان میں گلزار کا انفرادی رنگ نظر آتا ہے۔ اسلوب کی یہی ندرت اسے دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔ گلزار ہر لحظہ ایک نئے پن کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس کی ہر فلم تخلیق کے نئے زاویے تراشتی نظر آتی ہے۔ موسم‘ آندھی‘ اجازت‘ کوشش‘ نمکین‘ لیکن‘ ہر فلم اظہار کے منفرد رنگوں سے آراستہ تخلیق کے نئے ذائقوں سے آشنا کرتی ہے۔ گولڈن ٹیمپل پر حملے کے بعد جب خالصتان کی تحریک زور پکڑ گئی تو گلزار نے اس حساس موضوع پر ''ماچس‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائی جو اس موضوع پر بنائی گئی اہم ترین فلم ہے۔ اس فلم کی کہانی‘ ڈائریکشن اور گیتوں نے اسے ایک شاہکار بنا دیا ہے۔ فلم کے سارے گیت اپنی ندرتِ اظہار کی وجہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے۔ فلم ان نوجوان مزاحمت کاروں کی کہانی ہے جو مزاحمت کی تحریک میں شامل ہونے کے لیے اپنے گاؤں‘ گھروں اور پیاروں کو چھوڑ کر بہت دور چلے آئے تھے۔ یہ نوجوان اپنے چھوڑے ہوئے نگر کو یاد کرتے ہیں تو گلزار کے لفظوں میں گزرے ہوئے دنوں کی چاندنی چھٹکتی نظر آتی ہے۔ آپ گلزار کے اس گیت کی کچھ سطریں دیکھیں اور آتشِ رفتہ کی آنچ محسوس کریں۔ ''چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں/ جہاں تیرے پیروں کے کنول گرا کرتے تھے/ ہنسے تو دو گالوں میں بھنور پڑا کرتے تھے/ تیری کمر کے بل پرندی مڑا کرتی تھی/ ہنسی تیری سُن سُن کر فصل پکا کرتی تھی/ جہاں تیری ایڑھی سے دُھوپ اُڑا کرتی تھی‘‘۔
گلزار کی ایک اور فلم جو مجھے ایک عرصے تک ہانٹ کرتی رہی اور جسے میں نے کئی بار دیکھا اور ہر بار گلزار کے حسنِ تخلیق کا قائل ہوا اُس کا نام ''اجازت‘‘ ہے۔ یہ فلم تکنیکی اعتبار سے ایک اہم فلم ہے جو ایک ریلوے سٹیشن سے شروع ہوتی ہے اور اسی سٹیشن پر ختم ہوتی ہے۔ اجازت کی کہانی‘ نصیرالدین شاہ اور ریکھا کی اداکاری اور گلزار کے گیتوں نے اس فلم کو سدا بہار بنا دیا۔ اس کے ایک گیت کی سطریں ملاحظہ کریں اور دیکھیں گلزار کی رفعتِ خیال کیسے کیسے منظروں کی تشکیل کرتی ہے۔ ''میرا کچھ سامان تمہارے پاس پڑا ہے/ ساون کے کچھ بھیگے بھیگے دن رکھے ہیں/ اور میرے اک خط میں لپٹی رات پڑی ہے/ وہ رات بجھا دو/ میرا وہ سامان لوٹا دو/ پت جھڑ ہے کچھ/ ہے نا/ پت جھڑ میں کچھ پتوں کے گرنے کی آہٹ/ کانوں میں اک بار بہار بن کر لوٹ آئی تھی/ پت جھڑ کی وہ شاخ ابھی تک کانپ رہی ہے/ وہ شاخ گرا دو/ میرا وہ سامان لوٹا دو‘‘۔
مجھے ہر بار یوں لگتا ہے کہ جب گلزار گئے وقتوں کو یاد کرتے ہیں تو وہ سب پُرانے دن جو وقت کی گرد میں کہیں کھو گئے تھے گلزار کے سحر طراز قلم سے ایک بار پھر جاگ اُٹھتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گلزار کی ذاتی زندگی میں بھی ماضی کی چلمنوں سے گئے وقتوں کے رُوپہلی لمحے انہیں اپنی چھب دکھاتے اور اوجھل ہو جاتے ہیں۔ ماضی سے جڑی ہوئی یادیں انہیں بے چین رکھتی ہیں۔ ان یادوں میں سے ایک یاد کا سرا جہلم کے قریب واقع دینہ کے قصبے سے جا ملتا ہے۔ آج میں اسی یاد کی بازیافت کے لیے دینہ جانے والی سڑک پر سفر کر رہا ہوں۔ اب شام رات میں ڈھل رہی ہے اور میرے اردگرد کی روشنیاں اندھیرے کے سمندر میں جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہی ہیں۔جی ٹی روڈ پر رات کے وقت راولپنڈی سے جہلم کو سفر کریں تو آپ خود کو اکیلا محسوس نہیں کرتے۔ آپ کے دونوں اطراف دیہاتوں‘ ڈھوکوں‘ گھروں اور دکانوں کی کہیں روشن اور کہیں مدھم روشنیاں آپ کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ میں اپنی جانی پہچانی سڑک پر سفر کر رہا تھا۔ روات‘ مندرہ‘ گوجر خان‘ سوہاوہ کے سٹیشن گزرنے کے بعد میری منزل دینہ آ گئی ہے۔ وہی دینہ جس کے فراق میں گلزار ساری عمر مبتلا رہے۔ وہ کھیت‘ وہ آسمان‘ وہ ندیاں‘ وہ اونچے نیچے ٹیلے‘ وہ پگڈنڈیاں‘ وہ لوگ جو کبھی ان کی زندگی کا حصہ تھے لیکن جو دیکھتے ہی دیکھتے ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے لیکن وہ نظر سے چھپ کر بھی گلزار کی لوح دل پر جگمگاتے رہے۔ جن کے بار ے میں گلزار نے کہا تھا ''نظر میں رہتے ہو جب تم نظر نہیں آتے‘‘۔ گلزار بمبئی کی روشنیوں کی چکا چوند میں بھی دینہ کے مٹی کے چراغوں کو نہیں بھولا تھا۔ اس کی یادوں میں دینہ کے محلے کی اس تنگ گلی کا وہ مکان ہمیشہ مہکتا رہتا تھا جہاں وہ پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔ وہ اپنے دینہ کی چھب اپنے دوستوں کو بھی دکھانا چاہتا تھا‘ لیکن اس کے ذہن کی دیواروں پر دینہ کے جو گُل بوٹے مہک رہے تھے وہ چاہتا بھی تو اپنے ساتھیوں کو نہیں دکھا سکتا تھا۔ اس حسرتِ ناتمام کا عکس گلزار کی ایک نظم کی ان سطروں میں دیکھا جا سکتا ہے ''تمہیں میں لے گیا تھا سرحدوں کے پار دینہ میں/ تمہیں وہ گھر دکھایا تھا جہاں پیدا ہوا تھا میں/ جہاں چھت پر لگا سریوں کا جنگلا دھوپ سے دن بھر/ میرے آنگن میں شطرنجی بناتا تھا مٹاتا تھا/ دکھائی تھیں تمہیں وہ کھیتیاں سرسوں کی دینے میں کہ جس کے پیلے پیلے پھول تم کو خواب میں کچے کھلائے تھے/ مگر یہ صرف خوابوں میں ہی ممکن ہے‘‘۔
جب میں دینہ میں داخل ہو رہا تھا تو رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ میرے پاس تو گلزار کے گلی اور محلے کا ایڈریس بھی نہیں۔ میں اسلام آباد سے یونہی بغیر کسی تیاری کے چل پڑا تھا۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ گلزار کا گھر دینہ کے مین بازار میں ہے لیکن اس سے زیادہ مجھے کچھ معلوم نہ تھا۔ میں نے گاڑی سڑک کے ایک طرف کھڑی کر دی اور پیدل اس راستے پر چلنے لگا جو مین بازار کو جاتا تھا۔ اس بازار کے گردو نواح میں بہت سے گھر آباد تھے۔ انہیں گھروں میں مجھے ایک گھر ڈھونڈنا تھا۔ گلزار کا گھر۔ جس کے خیال کی خوشبو آج انگلی پکڑ کر مجھے یہاں لے آئی تھی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں