"SSC" (space) message & send to 7575

گلزار صاحب : نظر میں رہتے ہو جب تم نظر نہیں آتے

کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو گزر جانے اور وقت کے سمندر کا حصہ بن جانے کے باوجود ہمارے ذہن کی لوح پر جگمگاتے رہتے ہیں۔ وہ دن بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔ یہ کووڈ19 کے دنوں کی بات ہے جب اسلام آباد میں ہمارے سیکٹر میں مکمل لاک ڈائون تھا اور ہم محصوری کے عالم میں زندگی گزار رہے تھے۔ وہ مارچ کا مہینہ تھا اور گھر سے باہر بہار کا عالم تھا لیکن درمیان میں لاک ڈائون کی خلیج حائل تھی۔ وہ جو باقی صدیقی نے کہا ہے:
ایک دیوار کی دوری ہے قفس
توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے
وہ ہفتے کا دن تھا اور مارچ کے مہینے کی 29 تاریخ۔ رات کا وقت تھا۔ میں نے کھڑکیوں کے پردے برابر کر دیے اور میز پر بیٹھ کر ٹیبل لیمپ کی روشنی میں کتاب پڑھنے لگا۔ پس منظر میں لیپ ٹاپ پر فریدہ خانم کی آواز میں اطہر نفیس کی غزل چل رہی تھی ''وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا‘‘ فریدہ خانم کی آواز میں ایک جادو تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وقت ٹھہر گیا ہو۔ اچانک میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ میں نے کمرے میں لگے کلاک پر نظر ڈالی۔ آٹھ بج کر انتالیس منٹ ہو رہے تھے۔ میں نے موبائل کی سکرین پر دیکھا۔ نمبر شناسا نہ تھا‘ لیکن نمبروں کی ترتیب ایسی تھی کہ یہ طے تھا کہ یہ نمبر پاکستان کے کسی شہر کا نہیں۔ تیسری بار گھنٹی بجنے پر میں نے فون اٹھا کر ہیلو کہا تو دوسری طرف سے ایک شائستہ لہجے میں کسی نے اردو میں پوچھا ''شاہد صاحب؟‘‘ میں نے کہا ''جی میں بول رہا ہوں‘‘۔ اسی سہج انداز میں کسی نے کہا ''شاہد صاحب میں گلزار بول رہا ہوں‘‘ ۔ گلزار؟ میرے ذہن میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں۔ یہ آواز میں نے ٹیلی ویژن کی سکرین پر کئی بار سنی تھی۔ اتنی بار کہ اب ہزاروں آوازوں میں پہچان سکتا تھا‘ لیکن پھر بھی ایک بے یقینی کی کیفیت تھی۔ کیا یہ واقعی گلزار کی آواز ہے۔ وہی گلزار جو جہلم کے قریب ایک قصبے دینہ میں پیدا ہوا تھا اور جس نے بالی وڈ میں اپنی منفرد نغمہ نگاری اور انوکھی فلموں سے دھوم مچا دی تھی‘ اور جس کے دینہ سے تعلق پر میں نے دنیا اخبار کے انہیں صفحات پر چار کالمز کی ایک سیریز لکھی تھی۔ ایک سیکنڈ کے لیے سارے منظر میرے ذہن میں روشن گئے۔ فون پر گلزار کی آواز آئی ''شاہد صاحب کیسے مزاج ہیں؟‘‘ میں نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے کہا ''میں خیریت سے ہوں‘ آپ کیسے ہیں؟‘‘ ''نوازش ہے آپ کی‘ بھئی شاہد صاحب آپ نے میرے حوالے سے دنیا اخبار میں جو کالم لکھے مجھے بہت پسند آئے‘‘۔ میں نے کہا: مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ تک وہ کالم پہنچے اور آپ نے پڑھ کر پسند کیے‘ یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ ''گلزار صاحب ہنستے ہوئے بولے ''سچی بات تو یہ ہے کہ یہ ای میل اور وٹس ایپ میری سمجھ میں نہیں آتے‘ اس سلسلے میں میری مدد فرحانہ کرتی ہے‘ فرحانہ میرے وٹس ایپ اور ای میل کے پیغامات دیکھتی ہے۔ آپ کے کالم بھی اسی نے مجھے پرنٹ کر کے پڑھنے کو دیے۔ مجھے اپنے وطن دینہ اور اپنی گلی کا ذکر پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ شاہد صاحب 2013 میں پاکستان آیا تو دینہ میں اپنی گلی میں اکیلا گیا تھا‘ لیکن آپ کے کالم پڑھ کر مجھے یوں لگا اس دفعہ میں اس گلی میں آپ کے ساتھ ہو آیا ہوں۔ کالم پڑھ کر میں نے سوچا‘ خط کیا لکھنا براہ راست آپ سے بات کی جائے‘‘۔ میں نے کہا: یہ میری خوش بختی ہے کہ آپ نے ٹیلیفون کیا یہاں آپ کے اور آپ کی شاعری کے چاہنے والے بہت ہیں۔وہ جو آپ کا ایک گیت ہے نا ''نظر میں رہتے جو تم نظر نہیں آتے‘‘ ۔گلزار ہنستے ہوئے بولے: یہ محبت کے رشتے ہیں۔ میں نے کہا: گلزار صاحب میں نے اپنے اردو ناولٹ کا نام ''آدھے ادھورے خواب‘‘ رکھا تھا۔ یہ نام آپ کے ایک گیت کا ٹکڑا ہے۔ گلزار صاحب نے اشتیاق سے پوچھا کون سا گیت؟ ان کے کہنے پر میں نے ان کے گیت کی چار سطریں انہیں سنائیں:
جاگے ہیں دیر تک ہمیں کچھ دیر سونے دو
تھوڑی سی رات ہے صبح تو ہونے دو
آدھے ادھورے خواب جو پورے نہ ہو سکے
اک بار پھر سے نیند میں وہ خواب بونے دو
مجھے یاد ہے‘ ایک دوست سے میں نے کہا تھا کہ وہ میرا ناول گلزار صاحب کو بھجوا دیں کیونکہ اس ناول کی تحریک گلزار کے گیت کی وہ سطریں تھیں جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ میں نے پوچھا: آپ کو میرا ناول تو مِل گیا ہو گا۔ گلزار بولے: مجھ تک آپ کا ناول نہیں پہنچا‘ لیکن میں ضرور پڑھنا چاہوں گا۔ میں نے گلزار صاحب سے وعدہ تو کر لیا‘ اب دیکھئے یہ کیونکر ممکن ہوتا ہے۔ میں نے کہا: گلزار صاحب آپ کی شاعری کا مجموعہ ''بال و پر سارے‘‘ پاکستان میں شائع ہوا ہے‘ جو میرے پاس ہے‘ بہت سے اشاعتی اداروں نے آپ کی کتابیں شائع کی ہیں۔ آپ کی شخصیت اور فن پر بھی کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ آپ کے افسانوں کا ایک مجموعہ 'دستخط‘ میری بھانجی مینا نے مجھے دیا تھا۔ وہ بھی آپ کی شاعری کی دلدادہ ہے۔ آج کل وہ دبئی میں رہتی ہے۔ جب آپ دبئی ایک فنکشن میں آئے تھے تو اس نے آپ کی باتیں سننے کیلئے وہ فنکشن اٹینڈ کیا تھا‘ اور پھر مجھے فون پر سارا احوال سنایا تھا۔ میں نے کہا: خاص طور پر دینہ کے حوالے سے بھی آپ کی نظمیں جذبات میں گندھی ہوئی ہیں۔ گلزار بولے: ایک نظم کا حوالہ آپ نے کالم میں دیا تھا۔ میں نے کہا: وہ آپ کی دینہ پر لکھی گئی نظم کی یہ سطریں تھیں:
''میں زیرو لائن پر آ کر کھڑا ہوں/ میرے پیچھے میری پرچھائیں ہے آواز دیتی ہے/ وہاں جب مٹی چھوڑو گے/ چلے آنا تمہارا گھر یہیں پر ہے/ تمہاری جنم بھومی، ہے وطن ہے‘‘
میں نے کہا: اب میرا ارادہ ہے‘ ان کالمز کی بنیاد پر ایک ویڈیو بنائی جائے‘ جس میں آپ کی آواز میں دینہ سے متعلق نظمیں بھی شامل ہوں۔ گلزار بولے: اچھا آئیڈیا ہے، میری آواز میں یہ نظمیں آپ کو یو ٹیوب پر مل جائیں گی۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں یہ نظمیں شامل ہیں۔ گلزار نے دینہ کے حوالے سے کئی نظمیں لکھیں۔ ان نظموں کے انگ انگ میں محبت کے جذبے کی مہکار بسی ہے۔ ایک نظم کی کچھ سطریں دیکھئے جو دینہ کے درودیوار کی نقش گری یوں کرتی ہیں:
''بس اک بازار تھا/ اک ''ٹاہلیوں‘‘ والی سڑک بھی تھی/ وہ اب بھی ہے/ مدرسہ تھا جہاں میں ٹاٹ کی پٹی بچھا کر تختی لکھتا تھا/ گلی بھی ہے/ وہ جس کا اک سرا کھیتوں میں کھلتا ہے/ وہ دیواریں ٹٹولیں کوئلے سے جن پہ اردو لکھا کرتا تھا‘‘
باتیں بھی اون کے گولے کی طرح ہوتی ہیں۔ پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ لیکنمجھے گلزار صاحب کی مصروف زندگی کا اندازہ تھا۔ وقت کی مجبوری آڑے آرہی تھی۔ میں نے گلزار صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر مجھے فون کیا۔ گلزار صاحب بولے ''آپ سے بات کر کے بہت اچھا لگا۔ انشااللہ پھر بات ہو گی۔ اب اجازت چاہوں گا۔ خدا حافظ‘‘۔ ٹیلیفون بند ہونے پر میں سو چنے لگا دن کا اس سے بہتر اختتام نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ دن بھی اب ماضی کا حصہ بن گیا ہے۔ لیکن کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو گزر جانے اور وقت کے سمندر کا حصہ بن جانے کے باوجود ہمارے ذہن کی لوح پر جگمگاتے رہتے ہیں۔ وہ دن بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں