حبیب جالب سے میرا تعارف اُس وقت ہوا جب میں پرائمری کلاس میں پڑھتا تھا۔ ہم ان دنوں راولپنڈی کے ایک معروف علاقے ٹینچ بھاٹہ میں رہتے تھے۔ یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا جس میں ایک مختصر برآمدہ اور کچا صحن تھا‘ جس میں میٹھے رسیلے شہتوت کا ایک درخت تھا۔ ہمارے گھر کے سامنے دور دور تک کھیت پھیلے ہوئے تھے اور بائی ںطرف ایک وسیع میدان تھا‘ جہاں مجھ سے بڑی عمر کے لڑکے کھیلنے آتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ٹیلی ویژن اور ٹیلی فون گھر گھر نہیں پہنچے تھے اور موبائل فون کا تصور بھی ہمارے حاشیۂ خیال میں کبھی نہیں آیا تھا۔ گرمیوں کی شاموں میں گھر کے باہر کچی زمین پر کُرسیاں بچھ جاتیں اور گرمی کی شدت کم کرنے کیلئے پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا۔ کُرسیوں پر گھر کے بڑے بیٹھتے ہم بچے آتے جاتے کچھ دیر رُکتے اُن کی باتیں سنتے اور پھر کھیل میں مصروف ہو جاتے۔ اُردو ادب سے میری دلچسپی کی بڑی وجہ گھر کا ماحول تھا۔ میرے والد اُردو، فارسی اور پنجابی کے شاعر تھے۔ والدہ کو پڑھنے کا شوق تھا۔ انہی دنوں میرے بڑے بھائی اور ماموں ایم اے اُردو کا امتحان دے رہے تھے۔ انہوں نے پڑھائی کیلئے گھر کے قریب ایک کمرہ کرائے پر لیا ہوا تھا‘ جہاں وہ کتابوں کے ڈھیر میں پڑھا کرتے تھے۔ یہیں سے مجھے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ گھر میں کتابوں اور رسالوں کی فراوانی تھی۔ یوں میں کم عمری میں ہی شعروادب کے ذائقے سے آگاہ ہو چکا تھا۔ شعروادب سے اوائل عمری میں آشنائی حبیب جالب کو جاننے کا باعث بنی۔ ایک روز میں نے سُنا ہمارے گھر کے بڑے ہمیشہ کی طرح گھر کے باہر کچی زمین پر کرسیاں ڈالے بیٹھے ہیں اور ایک نوجوان شاعر حبیب جالب کا ذکر ہو رہا ہے جس نے مری کے ایک سرکاری مشاعرے میں حکومت مخالف نظم سُنا کر ایک ہلچل مچا دی تھی۔ سب اس کی جرأت اور حوصلے پر حیران ہو رہے تھے۔ میرے ننھے سے ذہن میں حبیب جالب کا نام چپک کر رہ گیا۔ بہت بعد میں جب میں ہائی سکول پہنچا تو ان کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملا کہ حبیب جالب 1928ء میں ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میانی افغاناں میں پیدا ہوئے تھے۔ جالب کے گھر پر مستقل غربت اور مفلسی کے سائے تھے۔ بارشوں میں گھر کی کچی چھت ٹپکنے لگتی لیکن اس افلاس میں امید کی کرن علم و ادب کی روشنی تھی۔ ان کے والد صوفی عنایت لکھنے پڑھنے کے رسیا تھے۔ ان کی جوتوں کی دکان تھی۔ ننھے جالب کو سکول داخل کرایا گیا۔ جالب کے گھر کے افراد دہلی چلے گئے تھے لیکن وہ اپنی نانی کے پاس گائوں میں رک گیا تھا۔ جالب کی نانی کی نظر تقریباً ختم ہو چکی تھی لیکن خاندانی وقار کا تقاضا تھاکہ وہ کسی کے سامنے دستِ طلب دراز نہ کریں۔ وہ گھر میں ازاربند اور جرابیں بناتی تھیں۔ پھر وہ اور کم سن جالب ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے گلیوں میں ازاربند اور جرابیں فروخت کرتے۔ اسی غربت کے عالم میں جالب نے گاؤں کے سکول میں سات جماعتیں پاس کیں اور پھر وہ بھی دہلی چلے گئے‘ جہاں ان کے گھر کے دوسرے افراد رہتے تھے۔ اسی دوران پاکستان بننے کی تحریک عروج پر پہنچ گئی اور پھر 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آگیا۔ اسی سال جالب اور اس کے گھر والے بھی دہلی چھوڑ کر اپنے خوابوں کے نگرپاکستان آگئے‘ جہاں ان کا پہلا پڑاؤ کراچی میں تھا۔ کراچی میں مشاعروں کی روایت نے جالب کی شاعری کے شوق کو ہوا دی۔ اُس وقت تک وہ حبیب جالب نہیں صرف حبیب احمد تھا۔ جالب کو پتا تھاکہ شاعر ہونے کیلئے تخلص ہونا بھی ضروری ہے۔ تخلص کیلئے اسے ''مست‘‘ کا لاحقہ اچھا لگا۔ یوں اب وہ مشاعروں میں حبیب احمد مست کے نام سے شرکت کرنے لگا۔ مست کا تخلص اس کی شخصیت سے قریب تھا۔ کراچی کا قیام نو دس برس کا ہوگا۔ یہیں جالب کی دوستی علاؤالدین سے ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علاؤالدین صاحب پاکستانی فلموں میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ جالب سے علاؤالدین کی قریبی دوستی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کراچی سے لاہور آیا تو ابتدائی دنوں میں علاؤالدین کے گھر میں قیام کیا‘ اور پھرتو لاہور جالب کا دلبر شہر بن گیا۔ لاہور آکر جلد ہی شعری حلقوں میں اس کی شناسائی ہوگئی تھی۔ اب ان کا قلمی نام حبیب جالب ہوگیا تھا۔
لاہور آکر بھی اس کی پارہ صفت طبیعت کو چین نہیں تھا۔ تب ملکی سیاست نے ایک نیا موڑ لیا جب ملک میں ایوب خان کے مارشل لا کا آغاز ہوا۔ جالب کی آزاد پسند طبیعت کو یوں لگا جیسے یکلخت ہوا میں آکسیجن کم ہوگئی ہو۔ ملک میں ایک سناٹے کا عالم تھا۔ اگر کوئی آواز تھی تو ان درباریوںکی جو ستائش اور تعریف میں مصروف تھے۔ پھر 1962ء کا سال آگیا‘ جب صدر ایوب کی حکومت کی طرف سے قوم کو ایک نیا آئین دیا گیا۔ اس پر درباری مدح خواہوں نے تعریفوں کے ڈونگرے برسانا شروع کر دیے جیسے یہ آئین قوم کے ہر دکھ اور درد کا مداوا بن کے آیا ہے۔ اس کے خلاف رائے دینے پر پابندی تھی۔ اس وقت صرف ایک توانا آواز جسٹس ایم آر کیانی کی تھی جو عدل کے ایوانوں میں گونج رہی تھی۔
جالب ایک دلِ حساس رکھتا تھا۔ یہ سناٹا اس کی جان کو آرہا تھا۔ اسے اپنے جذبات کے اظہار کا موقع نہیں مل رہا تھا لیکن جلد ہی اس کا بندبست بھی ہوگیا۔ اس زمانے میں مری میں ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے زیرِ اہتمام ایک عظیم الشان مشاعرہ ہوا کرتا تھا جس میں پاکستان بھر سے معروف شاعروں کو دعوت دی جاتی تھی۔ سامعین میں ایک بڑی تعداد سرکاری افسران کی ہوتی تھی۔ حبیب جالب باقی شاعروں کے ہمراہ مشاعرے میں شرکت کیلئے ایک دن پہلے ہی مری پہنچ گئے تھے۔ رات کو مال روڈ پر گھومتے ہوئے انہیں ہائیکورٹ کے ایک جج مل گئے۔ وہ بھی ان کے ساتھ چہل قدمی کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں جج صاحب نے جالب سے پوچھا کہ کل کے مشاعرے میں وہ کیا سُنائیں گے۔ جالب نے بے ساختہ جواب دیا میں کل کے مشاعرے میں نظم ''دستور‘‘ پڑھوں گا۔ یہ سُن کر جج صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا آپ یہ نظم نہ پڑھیں کیونکہ اس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔ جالب نے سنی ان سنی کردی۔ جج صاحب نے جالب کے خطرناک ارادوں کا تذکرہ مشاعرے کے منتظمین سے بھی کردیا۔ یہ ایک سنجیدہ صورتحال تھی۔ مشاعرے کے منتظمین کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ حالات یہ رُخ اختیار کر جائیں گے۔ جالب کا شاعری میں ابتدائی تعارف ایک رومانوی شاعر کا تھا۔ ان کی پہلی کتاب ''برگِ آوارہ ‘‘ تھی۔ برگِ آوارہ ان کی رومانوی شاعری کا دور تھا لیکن حالات کی تلخی اب ان کی شاعری میں اُتر آئی تھی۔ انہوں نے خود سے عہد کیا تھاکہ مری کے مشاعرے میں اپنے دل کی بات ضرور کہے گا اور صدر ایوب کے دستور کی حقیقت سب کے سامنے کھول دے گا۔ ادھر مشاعرے کے منتظمین کو جالب کے ارادوں کی خبر ہو چکی تھی۔ انہوں نے ایک چال چلی‘ مشاعرے میں تین مقبول مزاحیہ شاعر شوکت تھانوی، سید محمد جعفری، اور ظریف جیلپوری بھی شریک تھے جن کے بارے میں مشہور تھاکہ اپنے کلام سے مشاعرہ لوٹ لیتے ہیں۔ منصوبے کے تحت حبیب جالب سے پہلے مزاحیہ شعراکو بُلایا گیا تاکہ اس کے بعد جالب کی ہوا اکھڑ جائے اور وہ اپنا کلام نہ سنا سکے۔ ان شعرا کو سامعین کُھل کر داد دے رہے تھے۔ لوگوں کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اسی شوروغُل میں حبیب جالب کا نام پُکارا گیا۔ اب وہ گھڑی آن پہنچی تھی جس کا حبیب جالب کو عرصے سے انتظار تھا۔ جالب نے مائیک پر آکر اپنی گمبھیر آواز میں کہا ''خواتین و حضرات میری نظم کا عنوان ہے ''دستور‘‘۔ یہ سننا تھا کہ مشاعرہ کے منتظمین کے چہرے فق ہوگئے۔ ناظمِ مشاعرہ تیزی سے جالب کی طرف لپکا اور ہوئے چیختے ہوئے کہا ''کیا کررہے ہو؟ کیا کررہے ہو؟‘‘۔ (جاری)