"SSC" (space) message & send to 7575

بھگت سنگھ‘ تعلیم اور مزاحمت

سامراج کی ساری تاریخ جبر و تشدد‘ دھوکہ دہی ‘ مزاحمت اور غداری سے عبارت ہے۔ ہندوستان میں تاجِ برطانیہ نے بھی اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلئے ہر طرح کے جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کیے۔ لوگوں کے ذہنوں کو تسخیر کرنے کے لیے تعصبانہ تعلیمی اورلسانی پالیسیاں نافذ کیں اور اختلافِ رائے کے سب راستوں کو بند کردیا۔ تعلیم کو اجارہ داری کے لیے کس طرح استعمال کیا گیا اس کی ایک جھلک 1835ء کی لارڈ میکالے کی تحریر'' Minute‘‘ میں نظر آتی ہے۔ اس تحریر میں برطانوی نمائندے کی ہندوستان کے لیے تجویز کردہ تعلیم کا ویژن دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس تحریر کا حاصل وہ سطریں ہیں جن میں میکالے ہندوستانی تعلیم کا مقصد کچھ اس طرح بیان کرتا ہے ـ''ہمیں فی الحال ایک ایسی جماعت تشکیل دینے کی پوری کوشش کرنی چاہئے جو ہمارے اور ان لاکھوں افراد کے درمیان ‘ جن پر ہم حکومت کرتے ہیں‘ترجمان بن سکیں۔ افراد کا یہ طبقہ خون اور رنگت میں تو ہندوستانی ہولیکن اپنے ذوق ‘ رائے ‘ اخلاق اور دانش میں فرنگی ہوـ‘‘۔
یوں ہندوستان میں میکالے کے اس ویژن کے ساتھ ایک نیا تعلیمی نظام معرضِ وجود میں آیا جس کا بنیادی مقصد برطانوی راج کے لیے اطاعت گزاروں کی ایک ایسی جماعت تیار کرنا تھا جو دل و جان سے برطانوی راج کے فرمانبردار ہوں اور اس کے احکامات سے رو گردانی کا سوچ بھی نہ سکیں۔اس سارے نظام تعلیم میں تنقیدی سوچ کی حوصلہ شکنی کی گئی تھی۔نو آبادیات میں ایسے نظام تعلیم کا مقصد اہلِ اقتدار کی نفسیات ہے جس میں اقتدار میں موجود معاشرے کے غالب طبقات جمود (Status quo)کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تعلیم میں تنقیدی سوچ کا محور طاقت کے نئے مراکز کا قیام ہوتا ہے جس سے مقتدر حلقوں کے مفادات پر زد پڑنے کا امکان ہوتا ہے۔چونکہ یہ صورتحال مقتدر حلقوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوتی اس لیے وہ ہر تبدیلی کا راستہ بند کر دیتے ہیں۔
معروف دانشور ایڈورڈ سعید کے مطابق دنیا میں جہاں جہاں سامراجی طاقتیں کار فرما ہوتی ہیں انہیں وہاں ہمیشہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ البتہ مزاحمت کی نوعیت جگہ اور حالات کے مطابق مختلف ہوسکتی ہے۔ ہندوستان میں بھی فرنگی اقتدار کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ استعمار کے خلاف یہ مزاحمت مختلف علاقوں اور مختلف سطحوں پر کی گئی جس میں معاشرے کے سارے طبقوں کی نمائندگی تھی۔ان مزاحمت کاروں میں ہر عمر کے لوگ شامل تھے۔انہی میں بھگت سنگھ بھی شامل تھا۔ وہی بھگت سنگھ جس کا نام مزاحمت کی تاریخ میں ایک روشن علامت بن گیا۔بھگت سنگھ کا نام اُس وقت ہندوستان کے افق پر ابھرا جب اس نے فرنگیوں کے ہاتھوں لالہ لاجپت رائے کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے ایک فرنگی پویس افسر کو لاہو ر میں دن دہاڑے قتل کر دیا۔یہ طاقتور فرنگی حکومت کے لیے پیغام تھا کہ مزاحمت کی آگ لوگوں کے دلوں میں روشن ہے۔بعد میں بھگت سنگھ نے دنیا کی توجہ ہندوستان کے محکوم عوام کی طرف دلانے کے لیے ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں دیسی ساخت کے بم پھینکے۔ یہ بم جان بوجھ کر خالی جگہوں پر پھینکے گئے کیونکہ ان کا مقصد کسی کی جان لینا نہیں تھا ۔ بم پھینکے کے بعد بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی فرار نہیں ہوئے بلکہ وہیں کھڑے رہے جہاں سے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس ساری کارروائی کا مقصد عالمی سطح پر فرنگی حکومت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنا تھا۔بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں پر مقدمہ چلا اور انہیں پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ 1931ء میں جب بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی اس وقت اس کی عمر صرف 23 سال تھی۔
یہاں یہ سمجھنا اہم ہے کہ بھگت سنگھ فرنگی حکومت کے غلامانہ تعلیمی اثرات سے کیسے بچ گیا جس کا بنیادی مقصد ہی فرمانبردار اور اطاعت گزار ہندوستانی پیدا کرنا تھا۔ یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ کس طرح کی تعلیم تھی جس نے اُس کے دل میں فرنگی سامراج کو چیلنج کرنے کی جرأت پیدا کی‘ وہ کس طرح کی تربیت تھی جس نے اس میں آزادی کا جذبہ بیدار کیا اور اس نے پھانسی کے تختے پر بھی اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔بھگت سنگھ 27 ستمبر 1907ء کو پنجاب کے شہر لائل پور ( موجودہ فیصل آباد ) میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی تربیت کا سامان اس کے گھر میں موجود تھا۔ اس کے والد اور چچا فرنگیوں سے ہندوستان کو آزاد کرنے کی جدوجہد میں عملی طور پر شریک تھے اور اس سلسلے میں قیدو بند کی صعوبتیں اٹھا رہے تھے۔بھگت کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے پرائمری سکول میں ہوئی پھر وہ لاہور میں ڈی اے وی سکول آگیا۔ تب تحریکِ عدم تعاون کا آغاز ہوااور وہ لاہور میں لالہ لاجپت رائے کے قائم کردہ نیشنل کالج(یہ نیشنل کالج آف آرٹس سے مختلف کالج تھا) آ گئے۔اس طرح کے قومی کالجوں کے قیام کا تصور مہاتما گاندھی نے پیش کیا تھا جو ہندوستانی نوجوانوں کی ذہن سازی کے لیے تعلیم کے مرکزی کردار سے پوری طرح آگاہ تھے۔ نیشنل کالج میں بھگت سنگھ کے انقلابی خیالات کو جلا ملی ۔نیشنل کالج اُس زمانے کی ایک اہم درسگاہ تھی جہاں نوجوانوں میں سیاسی شعور بیدار کیا جاتا اور ان کے دلوں میں اپنے وطن کی محبت کی چنگاری جلائی جاتی۔ نوجوان بھگت اپنے ملک سے پیار کرنے والوں میں شامل تھا‘ زندگی میں اس کا اولین مقصد ہندوستان کو فرنگیوں کی غلامی سے نجات دلانا تھا۔ جب اس کے والدین نے اس کی شادی کا منصوبہ بنایا تو اس نے اپنے والد کو لکھا تھا ''یہ شادی کا وقت نہیں ہے۔میرا ملک مجھے بلا رہا ہے۔ میں نے جسمانی‘ ذہنی اور معاشی(تن‘ من‘ دھن) طور پر ملک کی خدمت کا حلف لیا ہے‘‘۔بھگت سنگھ کی شخصیت کی تشکیل میں تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ گھر‘ رشتے داروں ‘ دوستوں اور کتابوں کا بھی ہاتھ تھا۔ ان سب عناصر نے مل کر بھگت سنگھ کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بھگت سنگھ کو کتابوں کے مطالعے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ کتابوں سے اس کی یہ محبت آخر دم تک جاری رہی۔بھگت سنگھ کا شاعری کا ذوق بھی عمدہ تھا۔ اپنی جیل ڈائری میں بھگت نے انگریزی اور اردو میں متعدد اقوال لکھے۔اپنے چھوٹے بھائی کلتار کے نام اپنے آخری خط میں اس نے یہ شعر درج کیا ؎
رہے گی آب و ہوا میں خیال کی بجلی
یہ مشتِ خاک ہے فانی رہے‘ رہے‘ نہ رہے
بہت چھوٹی عمر میں ہی بھگت نے مضامین لکھنا شروع کردیے۔ یہ مضامین سنجیدہ موضوعات پر تھے اور مصنف کا پختہ نظریاتی موقف پیش کرتے تھے۔ بھگت سنگھ محض ایک جذباتی نوجوان نہیں تھابلکہ اس کی تشکیل میں انقلابی نظریات کی تعلیم کا اہم کردار تھا۔ ایسی تعلیم کا مرکزی جوہر ذہنوں اور دلوں میں تبدیلی کی امنگ اور صلاحیت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہ تعلیم طالب علموں کے ذہنی افق کو محدود ذاتی مفادات سے بلند ہو کر وسیع تر معاشرتی ذمہ داریوں تک پہنچا دیتی ہے۔ایسی تعلیم طالب علموں کو ناانصافی اور جبر کی طاقتوں کو چیلنج کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ بھگت سنگھ نے اپنی جیل کی ڈائری میں‘ پسندیدہ اقوال ‘ اشعار اور حوالے لکھے ہیں جو اس کی شخصیت اور وسیع مطالعے کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ1931 ء کا سال تھا جب بھگت سنگھ کو اس کے ساتھیوں کے ہمراہ پھانسی دی گئی‘ اس وقت بھگت ایک نوجوان تھا۔ آزادی کے شجر کی پرورش کے لیے بھگت سنگھ نے اپنے جوان اور تازہ خون کا تحفہ پیش کیا تھا۔ وہ خود تو اپنی زندگی میں اس شجر کی بہار نہ دیکھ سکا لیکن آج آزادی کے شجرِ ثمرمند کے گھنے اور ٹھنڈے سائے میں بیٹھنے والے اسے محبت اور رسان سے یاد کرتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں