"SSC" (space) message & send to 7575

صحرائے تھل، منکیرہ اور ہم …(آخری حصہ)

تھل کا صحرا جلتے سورج کے نیچے دہک رہا تھا۔ وقت جیسے ٹھہر گیا تھا۔ ملک صاحب نے ڈرائیور کو پرانے ڈیرے کی طرف گاڑی موڑنے کا کہا۔ یہ ڈیرہ بلندی پر بنایا گیا تھا۔ یہاں خاص طور پر پرندوں اور جانوروں کو رکھا گیا تھا۔ مرغیوں کی بیماری کے اثرات شاید یہاں بھی پہنچ گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کچھ مرغیاں نڈھال سی لگ رہی تھیں۔ ہم نے دیکھا نئے پودے بغیر سہارے کے جُھک گئے تھے۔ ملک صاحب نے وہاں کے ملازم کو ہر پودے کے ساتھ لکڑی کا ایک سہارا لگانے کی تاکید کی تاکہ پودوں کی بڑھوتری میں ٹیڑھ نہ آئے۔ کچھ دیر کیلئے جو ہم گاڑی سے اُتر کر دہکتے سورج کے نیچے آئے تو مجھے اندازہ ہواکہ یہاں کے رہنے والے عام لوگ اور کاشتکاروں کی زندگی کس قدر مشکل ہو گی جو چلچلاتی دھوپ میں سارا سارا دن دہکتے سورج کے نیچے کام کرتے ہیں۔ ہمارے دیہات میں عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں‘ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ سارا سال موسم کی سختیوں کو برداشت کرنے اور خون پسینے سے اپنی فصلوں کو سینچنے کے بعد جب کمائی کا وقت آتا ہے تو منافع کا بڑا حصہ مڈل مین کی نذر ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ عین اس وقت جب فصل تیار ہو چکی ہوتی ہے تیز بارش یا آندھی سارے سال کی محنت کو اڑا کر لے جاتی ہے۔ ایسے میں کاشتکاروں کی بے بسی دیدنی ہوتی ہے۔ ملازمین کو مختصر ہدایات دینے کے بعد ملک صاحب ڈرائیور کو نئے ڈیرے پر چلنے کا کہا۔
یہاں آ کر پتہ چلا کہ مُغل صاحب جو صبح سویرے کے اپنے دوست کے ہاں گئے ہوئے تھے ابھی تک واپس نہیں پہنچے۔ میں نے سوچا‘ کچھ دیر سو جاؤں۔ بستر پر لیٹنے کی دیر تھی کہ پنکھے کی ہوا اور ایئرکنڈیشنر کی ٹھنڈک نے مجھے تھپک تھپک کر سُلا دیا۔ میں اتنی گہری نیند سویا کہ پتہ ہی نہ چلا کہ مغل صاحب اپنے دوست کے ہاں سے واپس آگئے ہیں۔آنکھ کُھلی تو مُغل صاحب ساتھ والی چارپائی پر سو رہے تھے۔ میں دبے پاؤں کمرے سے باہر نکل آیا اور اپنی محبوب جگہ پر آ گیا جہاں بکائن کے اونچے لمبے درختوں کی گھنی اور مہربان چھاؤں میرا انتظار کر رہی تھی۔ میں وہاں بچھی ہوئی چارپائی پربیٹھ گیا۔ مجھے دیکھ کر ماجد بھی وہیں آگیا۔ میر ے کہنے پر اس نے ٹیوب ویل کا پانی کھول دیا۔ کچھ ہی دیر میں ٹھنڈا شفاف پانی چارپائی کے نیچے بچھی ریت پر رواں تھا۔ ریت پر بہتے ہوئے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھنا بھی ایک فرحت بخش تجربہ ہے۔ ماجد کھیتوں سے تربوز لے آیا۔ ہم نے انھیں ٹھنڈا کرنے کے لیے ٹیوب ویل کے حوض میں ڈالا اور خود حوض کی چھوٹی دیوار پر کھالے میں پاؤں ڈال کر بیٹھ گئے۔ ٹھنڈے پانی کی تاثیر میں پورے جسم میں محسوس کررہا تھا۔ اچانک ایک پرندے کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔کیسی سریلی آواز تھی۔ میں نے آواز کی طرف مُڑ کر دیکھا۔ یہ چڑیا سے ذرا بڑی جسامت کا پرندہ تھا جس کی دُم اس کے جسم سے دوگنا لمبی تھی۔ میں نے پرندے کے خوبصور ت رنگوں کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اسی روز میں نے صبح کے وقت یہاں ایک لومڑی دیکھی تھی اور کالے بھورے تیتروں کے لیے تو یہ علاقہ خاص طور پرمشہور ہے۔ اچانک میری نگاہ بکائن کے درختوں کے گھنے جھنڈ پر پڑی جہاں تتلیاں اُڑ رہی تھیں۔ ان کے پروں کا رنگ سنگترے کے رنگوں جیسا تھا‘ جن پر سیاہ رنگ کے نشانات تھے۔ ان نشانات کے گرد زرد رنگ کے دائرے تھے۔ میں نے سوچا فطرت کے یہ رنگ شہروں کی بے ہنگم زندگی میں ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ دیر تک میں ٹیوب ویل کے پُرشور پانیوں میں پاؤں ڈال کر بیٹھا رہا۔ اسی اثنا میں ملک صاحب اورمغل صاحب بھی آ گئے۔ دونوں چارپائیوں کے درمیان میز پر ماجد نے تربوز، آم اور آڑو کاٹ کر رکھے تھے۔ مغل صاحب نے بتایاکہ ان کا دورہ اچھا رہا البتہ گرمی کی شدت نے انہیں نڈھال کر دیا تھا۔ کچھ دیر کی نیند اور اب ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈال کر ان کے اوسان بحال ہو رہے تھے۔ ملک صاحب نے بتایا کہ قریبی علاقے دریا خان سے ان کے کچھ دوست آرہے ہیں۔ وہ اپنے ہمراہ وہاں کی دل پسند ڈشیں بنا کر لا رہے ہیں۔ ہم ڈنر ایک ساتھ کریں گے۔ یہ یہاں کے پُرخلوص دوستی کے رشتے ہوتے ہیں جو بڑے ہی انمول ہوتے ہیں لیکن اب ایسے رشتے صرف گاؤں اور دیہات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ساہی صاحب کا فون آیا۔ ملک صاحب فون پر ان سے کچھ دیر بات کرتے رہے۔ فون بند کرنے کے بعد انہوں نے ہمیں بتایا کہ ساہی صاحب نے دعوت دی ہے کہ رات کا کھانا ان کے ڈیرے پر ہوگا۔ جب ملک صاحب نے انہیں دریا خان والے دوستوں کا بتایا تو وہ کہنے لگے: اُنہیں بھی اپنے ہمراہ لے آئیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا‘ ملک صاحب اور ساہی صاحب میں دوستی اور محبت کا ایسا رشتہ ہے کہ ملک صاحب انکار نہ کر سکے۔ دریا خان کے دوستوں کی آمد پر ہم ان کے ہمراہ ساہی صاحب کے ڈیرے پر آگئے۔ یوں تو یہ ڈیرہ پچھلے کئی سالوں سے آباد ہے اور اس علاقے میں کینو کے باغات کیلئے جانا جاتا ہے لیکن اس میں تازہ ترین اضافہ کھجوروں کے درختوں کا ہے جو سینکڑوں کی تعداد میں لگائے گئے ہیں۔ میں نے چھت پر جاکر دیکھا۔ ڈوبتے سورج کی نارنجی روشنیوں میں ان کا حُسن اور بھی سوا ہو گیا تھا۔ مجھے اقبال کی نظم مسجدِ قرطبہ یاد آگئی۔ اقبال مسجدِ قرطبہ کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے اس کے لاتعداد ستونوں کو صحرا میں درختوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔
تیری بنا پائدار، تیرے ستون بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل
دور دور تک پھیلے ہوئے کھجور کے درختوں کو دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ جب یہ اپنی بُلندی پر آئیں گے تو دیکھنے والوں کے لیے کیسا خوش رنگ نظارہ ہوگا۔ اتنی دیر میں ساہی صاحب کا بلاوہ آ گیا کہ کھانا تیار ہے۔ لمبی میز کے اردگرد کرسیاں رکھی تھیں۔ میز کے ایک سِرے پر ملک صاحب اور دوسرے سِرے پر ساہی صاحب بیٹھے تھے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی ساہی صاحب کی محفل میں خوب رونق تھی۔ یہ محفل دیر تک جاری رہی۔ رات گئے ہم واپس اپنے ڈیرے پر پہنچے۔ اگلے روز یہاں ہمارا آخری دن تھا۔ دو اُبلے ہوئے دیسی انڈوں اور دودھ پتی کے ناشتے سے پہلے ہم نے ٹھنڈی فرحت بخش لسّی کے دو دو گلاس پیے۔ اس دوران بطخیں، مور اور مرغیاں آزادانہ ہماے اردگرد گھوم رہے تھے۔ اب جانے کا وقت ہو گیا تھا۔ میں نے اور مُغل صاحب نے ملک صاحب سے اجازت لی‘ اور واپسی کا سفر شروع کیا۔ وہی گرمی میں تپتی ہوئی ریت اور مٹی اُڑاتی ہوئی لُو کے تھپیڑے۔
بھیرہ کے انٹرچینج پر ہم نے کافی پی اور پھر سے تازہ دم ہو کر سفر کا آغاز کیا۔ کلر کہار داخل ہوتے ہی آسمان سیاہ بادلوں میں چھپ گیا اور پھر تیز بارش کا آغاز ہو گیا۔ میں نے گاڑی کا شیشہ کھول کر اپنا ہاتھ باہر نکالا اور بارش کے قطرے میری ہتھیلی کو بھگونے لگے۔ اچانک میرا دھیان ملک صاحب کے ڈیرے کی طرف چلا گیا۔ میں نے سوچا اس وقت وہاں بھی موسلادھار بارش ہورہی ہوگی۔ بکائن کے اونچے لمبے درخت بارش میں نہا رہے ہوں گے۔ مور، بطخیں، مرغیاں کیسے بارش میں خوش ہو رہے ہوں گے۔ پیاسی زمین پر بارش سے سوندھی مٹی کی خوشبو اُٹھ رہی ہوگی اور ملک صاحب برآمدے میں بیٹھ کر یہ سارا منظر دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے۔ تیز بارش کی بوچھاڑ گاڑی میں آنے لگی تو میں نے شیشہ بند کر دیا اور آنکھیں بند کرکے سوچنے لگا: وقت کا دریا ازل سے یونہی بہہ رہا ہے‘ راستے وہی رہتے ہیں لیکن مسافر بدل جاتے ہیں موسموں کا یہی اُلٹ پھیر اور فطرت کی یہی دھوپ چھاؤں زندگی کا حُسن ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں