سر آغا خان کو دہلی ریڈیو میں تقریر کیلئے مدعو کرنے کے بعد مینجمنٹ کو یہ خیال آیا تھا کہ آغا خان کے ہزاروں پیروکارریڈیو کی عمارت میں کیسے سمائیں گے؟آخر دہلی کے کمشنر نے تجویز دی کہ آغا خان کی تقریر ان کے گھر پر ریکارڈ کر لی جائے تو‘یوں آغا خان کی تقریر ان کے گھر پر ریکارڈ کی گئی اور پھر ریڈیو پر نشر کی گئی۔ زیڈاے بخاری جب سر آغا خان کے گھر ان کی تقریر ریکارڈ کر رہے تھے تو ان کے ذہن میں ایک انوکھا خیال آیا کہ کیوں نہ سر آغا خان کی آواز میں عوام کے لیے ایک پیغام ریکارڈ کر لیا جائے کہ وہ حالاتِ حاضرہ سے با خبر رہنے کے لیے ریڈیو خریدیں۔ آغا خان کی تقریر اور پیغام کے نشر ہونے کے بعد بمبئی میں ریڈیو سیٹس کی تعداد اٹھارہ ہزار سے اکیاون ہزار ہو گئی۔ یوں آغا خان کی تقریر کا فیصلہ ریڈیو کے لیے بڑا خوش کن ثابت ہوا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو کے درو دیوار میں فن اور فن کار وں کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔انہی فنکاروں میں ایک استاد بندو خان تھے جو اپنے زمانے کے معروف سارنگی نواز تھے۔یہ وہ لوگ تھے جن کی زندگیاں اپنے فن کے لیے وقف تھیں۔جن کا اوڑھنا بچھونا‘اُٹھنا بیٹھنا‘سونا جاگنا‘کھانا پینا‘ اور چلنا پھرناان کا فن تھا۔استاد بندو خان کا بھی یہی معاملہ تھا۔زیڈاے بخاری لکھتے ہیں کہ ایک رات وہ سو رہے تھے کہ ان کے نوکر نے انہیں جگایااور بتایا کہ معروف سارنگی نواز استاد بندوخان‘ جو اِن کے گھر مہمان ٹھہرے ہوئے تھے‘ کے کمرے سے آوازیں آرہی ہیں۔لگتا ہے ان کے کمرے میں کوئی عورت ہے۔زیڈاے بخاری کہتے ہیں یہ سُن کر مجھے بہت غصہ آیا‘ میں اپنے کمرے سے اُٹھ کر استاد بندوخان کے کمرے کے قریب آگیااور کان لگا کر آوازیں سننے لگا۔اندر سے استاد بندو خان کی آواز آرہی تھی ''اری سوجا‘یہاں میرے قریب آکر سوجا۔سوجا‘ بس اب سوجا‘‘۔اس کے بعد خاموشی کا ایک مختصر وقفہ آیا پھر استاد بندو خان کی آواز آئی۔ ''پھر نیچے کو سِرک آئی۔یہاں اوپر آ۔یہاں سو لے‘‘۔زیڈاے بخاری کی سِٹی گم ہو گئی۔انہوں نے غصے سے دروازہ کھولا۔کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ لائٹ جلائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ استاد بندوخان اپنی سارنگی کو خود سے لپٹائے سو رہے ہیں۔ انہی استاد بندوخان کا ایک اور واقعہ سنیے۔زیڈاے بخاری لکھتے ہیں کہ ان دنوں ریڈیو کو مالی مشکلات کا سامنا تھا۔اس مالی بحران سے نپٹنے کے لیے فنکاروں کے پروگرام کم کر دیے گئے تھے اور باقی وقت کو ریکارڈ بجا کر پورا کیا جاتا تھا۔انہی دنوں کی بات ہے استاد بندوخان شور مچاتے زیڈاے بخاری کے پاس پہنچے کہ میرے پروگرام چا ر سے کم کر کے تین کیوں کر دیے گئے ہیں۔زیڈاے بخاری نے انہیں سمجھایا کہ ریڈیو آج کل مالی مشکلات کا شکار ہے اس لیے یہ اقدامات کیے گئے ہیں۔جونہی حالات ذرا بہتر ہوں گے ان کے پروگرام پھر سے تین سے بڑھا کر چار کر دیے جائیں گے۔بندوخان یہ سُن کر اپنا منہ زیڈاے بخاری کے کان کے پاس لائے اور سرگوشی میں کہا ''صاحب پیسے تین پروگرام کے دو مگر کانٹریکٹ چار پروگرام کا ہو۔میں انہی پیسوں میں چار پروگرام کر دوں گا ورنہ لوگ کہیں گے کہ بندوخان کی سارنگی پسند نہیں کی گئی اس لیے پروگرام بجائے چار کے تین ملنے لگے ہیں۔
فن کے کیسے کیسے لعل و جوہر تھے جو اس زمانے میں ریڈیو کی کہکشاں کا حصہ تھے‘جن کے فن کی مہک ریڈیو کی نشریاتی لہروں کے ذریعے دوردور تک پھیل رہی تھی۔انہی بے بدل فنکاروں میں استاد جھنڈے خان کا شمار بھی ہوتا ہے۔پاکستان بننے کے بعد استاد جھنڈے خان گوجرانوالہ منتقل ہو گئے۔زیڈاے بخاری لکھتے ہیں ایک بار وہ لاہور ان سے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ اس ریڈیو پر کوئی کام دلوا دو۔زیڈاے بخاری اچھا کہہ کر خاموش ہو گئے۔اس کے بعد ایک دو بار استاد جھنڈے خان نے یاد دہانی کرائی لیکن زیڈاے بخاری خاموش رہے۔اس پر استاد جھنڈے خان نے غصے میں کہا کہ تم پہلے تو میری بات نہیں ٹالتے تھے اب کیا ہو گیا ہے؟زیڈاے بخاری لکھتے ہیں کہ ان کی بات سُن کر میرا دل بھر آیا‘میں نے کہا :جھنڈے خان اب میں سٹیشن ڈائر یکٹر نہیں ہوں‘اب مجھے لاہور سٹیشن پر کون پہچانے گااور میرے پاس وہ الفاظ کہاں کہ لاہور کے ریڈیو سٹیشن کو بتاؤں کہ جھنڈے خان کون ہے۔ جھنڈے خان کو کبھی ریڈیو لاہور کی خدمت کا موقع نہ مل سکا۔
دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہو چکا تھا۔زیڈاے بخاری‘مجید ملک‘فیض احمد فیض‘ن م راشد‘اور چراغ حسن حسرت کو فوج میں خدمات کے لیے رکھا گیا تھا۔چراغ حسن حسرت دلچسپ شخصیت کے مالک تھے‘زیڈاے بخاری لکھتے ہیں کہ پاکستان وجود میں آچکا تھا‘ انہیں ریڈیو پاکستان کا پہلا ڈائریکٹر جنرل بنا دیا گیا تھا‘کراچی سٹیشن پر چراغ حسن حسرت کو ایک قومی پروگرام مرتب کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ان کے ساتھ احمد بشیر اور احمد فرا ز کوبھی لگا دیا گیا تھا۔زیڈاے بخاری لکھتے ہیں کہ ایک روز وہ سہ پہر تین بجے چراغ حسن حسرت کے دفتر گئے۔شعرِ و شاعری کی محفل جاری تھی کہ ایک پروڈیوسر نے آکر چراغ حسن حسرت سے کہا ''مولانا آج کا فیچر تقریباً پانچ منٹ چھوٹا پڑ رہا ہے‘‘۔کُچھ سطریں اور لکھ دیجیے۔مولانا یہ سُن کر پان چباتے رہے اور ساتھ سگریٹ کے کش لگاتے رہے۔ پھرزیڈاے بخاری کو مخاطب ہو کر کہنے لگے:مولانا آپ کُچھ مدد کیجئے‘میرا دماغ حاضر نہیں۔زیڈاے بخاری نے پوچھا فیچر کا موضوع کیاہے۔مولانا نے پان کی پیک ہونٹوں پر سنبھالتے ہو ئے کہا:اپوا( APWA)۔ یہ سُن کر زیڈ اے بخاری نے کہا:پھر تو کوئی مسئلہ نہیں‘ اے ماؤ‘بہنو‘بیٹیو‘ والی نظم فیچر میں استعمال کر لیں وقت پورا ہو جائے گا۔اب حالی کی اس نظم کی تلاش شروع ہو گئی۔کسی کو بازار بھیجا گیا کہ وہ کتاب خرید لائے۔زیڈاے بخاری کہتے ہیں کہ میں تقریباً ایک گھنٹے سے چراغ حسن حسرت کے دفتر میں بیٹھا تھا‘میں نے ان سے اجازت لی اور اپنے دفتر میں بیٹھ گیا۔گاڑی چلنے ہی والی تھی کہ دیکھا وہ پروڈیوسراور مولانا بھاگتے ہوئے ان کی طرف آرہے ہیں۔زیڈاے بخاری نے گاڑی روک لی اور ان سے پوچھاکہ خیریت ہے؟وہ بولے: نظم تومل گئی ہے لیکن یہ بتائیں فیچر میں کس جگہ چسپاں کریں۔میں نے پروڈیوسرسے مسودہ لیا اور بڑبڑاتے ہوئے کہا: ایک تو تمہیں ہر کام میں سمجھانا پڑتا ہے۔یہ کہہ کر مسودے پر نگاہ ڈالی تو اس کا عنوان تھا ''افواہ‘‘ جو مولانا کے پیک بھرے پان سے ''اپوا‘‘ بن گیا تھا۔ اب ''ماؤ‘بہنو‘ بیٹیو‘‘ والی نظم افواہ میں کیسے استعمال ہوتی۔ زیڈ اے بخاری نے گاڑی بھگانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
زیڈ اے بخاری کی سرگزشت اپنے وقت کے نامور لوگوں کے تذکروں سے مزین ہے۔چرچل‘ٹی ایس ایلیٹ‘ای ایم فاسٹر‘جارج اور ویل‘ بلراج ساہنی‘کے دلچسپ قصے جن سے زیڈاے بخاری کی دوستی تھی۔ پھردوسری جنگِ عظیم کا زمانہ جب بخاری کو وردی پہن کر محاذوں پر جانا پڑا۔ اس لحاظ سے یہ آپ بیتی اس عہد کا تذکرہ ہے جب دنیا جنگ کی ہولناکیوں کا تجربہ کر رہی تھی۔پھر زیڈاے بخاری کے بی بی سی کے دنوں کی داستان جب وہ لندن میں براڈکاسٹنگ کی تربیت کیلئے گئے ہوئے تھے۔جنگِ عظیم دوم کے خاتمے کے دو سال بعد پاکستان معرضِ وجود میں آ گیااور زیڈ اے بخاری پاکستان ریڈیو کے پہلے ڈائریکٹر جنرل منتخب ہوئے۔ ریڈیو سے وہ 1959ء میں ریٹائرہو گئے‘پھر 1967ء میں جب پاکستان میں ٹی وی کا آغاز ہوا تو وہ پہلے جنرل منیجر بنے۔وہ محنت اور اخلاق کا خوبصورت نمونہ تھے۔ کوئی خواب تھا‘کوئی جذبہ تھا‘کوئی آدرش تھاجو انہیں بے چین رکھتا تھااور وہ نئی سے نئی منزلوں کی تلاش میں رہتے تھے۔