"SSC" (space) message & send to 7575

امجد اسلام امجد …(آخری حصہ)

نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے ادب میلے میں امجد اسلام امجد کے ساتھ سیشن میں خوب لطف آیا۔ بہت سے لوگ پہلی بار امجد کی ذاتی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے آشنا ہوئے۔ ان میں سے ایک پہلو کرکٹ کے ساتھ امجد کی جنون کی حد تک محبت تھی۔ وہ کالج کی کرکٹ ٹیم کا اہم رکن تھا۔ اس روز امجد کے شہر سُخن کے بہت سے رنگ بھی سامنے آئے۔ قوسِ قزح کے سارے رنگ: غزل، نظم، ڈرامہ، بچوںکا ادب، ترجمے، سفر نامے، مضامین، تنقید، اور کالم۔ حیرت ہوتی ہے سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ امجد نے اتنا کُچھ لکھنے کے لیے کیسے وقت نکالا۔ اسے دیکھیں اور سُنیں تو خوشگوار بشاشت کا احساس ہوتا ہے۔ ہر موقع کے لیے لطیفے، بر جستہ جملے، اور قہقہے۔ لیکن اس کے اندر کی سنجیدگی اور اُداسی اس کی شاعری میں اُتر آئی ہے۔ شاعری کی دیوی اس پر شروع ہی سے مہربان تھی۔ مُجھے حیرت ہوئی کہ اس کی معروف غزل اس کے زمانۂ طالب علمی میں لکھی گئی تھی۔ آپ نے یقینا یہ غزل پڑھی یا سُنی ہوگی جس کا یہ شعر زبانِ زدِ عام ہے:؎
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئیں
دلِ بے خبر مری بات سُن اسے بُھول جا اسے بُھول جا
مجھے اسلام آباد کی ایک بھیگی ہوئی شام یاد آ گئی جب میں گھر کے ٹیرس پر بیٹھے ڈوبتے سورج کے رنگ دیکھ رہا تھا۔ ایسے میں مجھے امجد کی ایک نظم یاد آگئی۔ میرا جی چاہا‘ میں امجد کی زبانی یہ نظم سُنوں۔ اس روز امجد نے میری فرمائش پر فون پر یہ نظم سُنائی تو یوں لگا آسمان پر پھیلے رنگوں میں کتنے ہی اور رنگ شامل ہو گئے ہیں۔ کیا خوب صورت نظم تھی:
''تُم جس خواب میں آنکھیں کھولو/ اس کا روپ امر/ تُم جس رنگ کا کپڑا پہنو/ وہ موسم کا رنگ/ تُم جس پھول کو ہنس کر دیکھو/ کبھی نہ وہ مُرجھائے/ تُم جس حرف پر انگلی رکھ دو/ وہ روشن ہو جائے‘‘
اسلوب کی یہی سادگی امجد کی شاعری کا بنیادی وصف ہے۔ اچھے ادب کی ایک تعریف یہ ہے کہ اسے پڑھ کر قاری کو ایک Pleasure of recognition ہو۔ دوسرے لفظوں میں ''میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ امجد کی نظم ''سیلف میڈ لوگوں کا المیہ‘‘ پڑھیں تو بہت سے لوگ اسے اپنی کہانی سمجھتے ہیں۔ اس نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے:
''روشنی مزاجوں کا کیا عجیب مقدر ہے/ زندگی کے رستے میں بچھنے والے کانٹوں کو/ راہ سے ہٹانے میں/ ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں/ خوشبوئیں پکڑنے میں گلستاں سجانے میں/ عمر کاٹ دیتے ہیں‘‘
اسی طرح امجد کی نظم ''تمھیں مُجھ سے محبت ہے‘‘ ایک بنیادی حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ کس طرح محبت کو ہر دم تائیدِ تازہ کی ضرورت رہتی ہے:
''محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے/ کہ یہ جتنی پُرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے/ اسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے/ اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے‘‘
امجد کی نظموں میں خیال کی رفعت اور نغمے کی مٹھاس گھل مل گئے ہیں۔ فلسفیانہ تصورات امجد کے اسلوب میں ڈھل کر عام فہم بن جاتے ہیں۔ محبت اس کی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے‘ لیکن جوں جوں امجد کی شاعری کا سفر آگے بڑھتا گیا۔ اس میں نت نئے موضوعات کی چاندنی بکھرتی گئی۔ اس کی بعد میں آنے والی نظموں میں ایک لطیف فلسفیانہ دبازت تہہ در تہہ اُبھرنے لگی۔ امجد کی شاعری میں 'وقت‘ بھی ایک اہم موضوع ہے۔ وقت کا دریا جو ہر دم رواں رہتا ہے۔ وقت جو کبھی لوٹ کر نہیں آتا:؎
زندگی کے میلوں میں خواہشوں کے ریلے میں
تُم سے کیا کہیں جاناں، اس قدر جھمیلے میں
وقت کی رو انی ہے، بخت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے، سخت لامکانی ہے
وقت کے سفر میں چلتے چلتے بعض اوقات اچانک ایک حقیقت اس پر منکشف ہوتی ہے‘ جس سے اس سفر کی غرض و غایت ہی بدل جاتی ہے؎
تلاشِ منزل جاناں تو اک بہانا تھا
تمام عمر میں اپنی طرف روانہ تھا
امجد کے ہاں بعض اوقات اس کی سنجیدہ شاعری میں ہلکا سا مزاح کا رنگ شامل ہو کر معنی کو بلیغ اور لطف کو دوبالا کر دیتا ہے؎
سارا فساد بڑھتی ہوئی خواہشوں کا تھا
دل سے بڑا جہان میں امجد عدو نہیں
نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا
یہ معجزہ تو میرے دستِ بے ہنر سے ہوا
وقت کا بہتا دریا ہر لحظہ منظر بدلتا آگے بڑھتا رہا ہے۔ وقت کے دریا کی تیز رفتاری ہر چیز کے کے عارضی پن کو اور واضح کر دیتی ہے۔ امجد کی شاعری میں وقت کی تندی و تیزی اور اپنی نارسائی کا تذکرہ یہاں وہاں ملتا ہے:؎
خواب کیا کیا چُنے، جال کیا کیا بُنے
موج تھمتی نہیں، رنگ رُکتے نہیں
وقت کے فرش پر، خاک کے رقص پر
نقش جمتے نہیں ابر جُھکتے نہیں
یہی عارضی پَن جذبوں کی کیفیت کا بھی ہے۔ امجد کو اس بات کا ادراک ہے کہ جذبوں کے دریا نے ایک دن اُتر جانا ہوتا ہے:؎
دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر آنا ہے
وہ ترے حُسن کا جادو ہو کہ میرا غمِ دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اُتر جانا ہے
امجد جتنا بڑا شاعر ہے اتنا ہی اہم ڈرامہ نگار ہے۔ اس کی شاعری میں تمثیل کا رنگ نظر آتا ہے اور اس کے ڈراموں پر شاعری کی گہری چھاپ ہے۔ امجد کے ہاں کائنات کو سمجھنے اور کھوجنے کا عمل مسلسل نظر آتا ہے۔ سمجھنے اور جاننے کے عمل میں سوالات کا کردار انتہائی اہم ہے۔ امجد کی شاعری میں یہ استفہامیہ انداز کائنات کو سمجھنے کی کوشش ہے:
''گزرتے لمحو مجھے بتاؤ کہ زندگی کا اصول کیا ہے؟ تمام چیزیں اگر حقیقت میں ایک سی ہیں تو پھول کیوں ہیں ببول کیا ہے؟‘‘
امجد کا تخلیقی سفر چھ دہائیوں سے جاری ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش اسے ہر دم متحرک رکھتی ہے۔ نئے منظروں کے خواب اسے اب بھی اپنی طرف بُلاتے ہیں لیکن اب وہ ان رنگوں کو دور سے دیکھتا ہے۔ کبھی کبھی شام کو لاہور میں اپنے گھر کے ٹیرس پر بیٹھے ڈوبتے سورج کے رنگوں کو دیکھتے ہوئے نجانے کیوں اپنا شعر یاد آجاتا ہے:؎
سمے کے سمندر، کہا تو نے جو بھی، سُنا، پر نہ سمجھے
جوانی کی ندی میں تھا تیز پانی، ذرا پھر سے کہنا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں