پاکستان کو ابتدا ہی سے کچھ سنجیدہ تعلیمی مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں تعلیم تک رسائی (Access)، معیار(Quality) اور مطابقت (Relevance) کے مسائل شامل ہیں۔ ہمارے اڑھائی کروڑ بچے سکولوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے اور جو بچے سکولوں تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں ان کی ایک بڑی تعداد آٹھویں جماعت تک نہیں پہنچ پاتی۔ مختلف سطحوں پر تعلیمی معیار پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ ابھی ہم ان بنیادی مسائل سے نبرد آزما تھے کہ کووڈ19 کا آسیب ہمارے گلی کوچوں میں اتر آیا۔ شروع شروع میں تو ہم نے چین میں شروع ہونے والی اس وبا کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا‘ لیکن 26فروری 2020 کو پاکستا ن میں جب کووڈ19 کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تو عوام اور حکام کو اندازہ ہوا کہ خطرہ ان کے سر پر منڈلا رہا ہے۔ آغاز میں کووڈ کے پھیلائو اور اس کی روک تھام کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت ماسک کے استعمال اور دوسری احتیاطوں کے حوالے سے غیر سنجیدہ تھی۔ آبادی کا ایک حصہ کووڈ 19 کو محض ایک افسانہ قرار دیتا تھا اور ایک حصہ اسے بین الاقوامی سازش کا حصہ سمجھتا تھا۔ پاکستان میں کووڈ 19 کے ٹیسٹ کے ناکافی انتظامات تھے۔ اسی طرح ویکسی نیشن کے لیے ابتدائی عرصے میں مہینوں تک انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اب یہاں وہاں سے کووڈ 19 کے مریضوںکی اطلاعات مل رہی تھیں اور اس کے ساتھ مختلف شہروں سے اموات کی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اب حقیقی معنوں میں کووڈ 19 کے خوف نے لوگوں کو اپنے شکنجے میں لے لیا تھا۔ ہر طرف ایک غیر یقینی کی فضا تھی۔ ایسے میں تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا کیونکہ والدین اپنے بچوں کے حوالے سے فکر مند تھے اور کسی قسم کا رسک لینے کو تیار نہ تھے۔ یہ مارچ کا مہینہ تھا جب سب تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے جو ستمبر میں کھلے‘ لیکن نومبر میں پھر بند کر دیئے گئے جو فروری تک بند رہے سکولوں کی بندش اور انتظامی فیصلوں کی آنکھ مچولی نے غیر یقینی کی کیفیت کو مزید گہرا کر دیا۔ کووڈ 19 کے خوف نے کاروبار کو بری طرح متاثر کیا۔ دفاتر اور مارکیٹیں بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کے معاش پر انتہائی منفی اثرات مر تب ہوئے۔ بہت سے لوگ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دفاتر اور تعلیمی ادارے بند ہونے سے سب لوگ گھروں تک محدود ہو گئے۔ معاشرتی سرگرمیوں سے کٹ کر گھروں تک محدود ہونے سے بہت سے مسائل نے جنم لیا‘ جن سے رویوں میں جارحانہ پن آ گیا اور گھریلو تشدد کے واقعات زور پکڑنے لگے۔
کووڈ 19 کے تیزی سے پھیلائو نے پاکستان میں تعلیم کے لیے نئے چیلنج پیدا کر دیئے۔ ان میں سب سے اہم چیلنج بچوں پر اس کے براہ راست اثرات ہیں۔ تعلیمی اداروں کی بندش کا براہ راست اثر یہ تھا کہ طلبا کے سیکھنے (Learning) کے مواقع سکڑ گئے۔ کووڈ 19 نے تعلیمی اداروں کے سربراہوں، اساتذہ اور طلبا کو یکساں متاثر کیا۔ تعلیمی ادارے بند ہونے کی صورت میں مدرس کا واحد ذریعہ آن لائن ٹیچنگ تھا۔ پاکستان میں تعلیمی اداروں کی اکثریت آن لائن ٹیچنگ کے لیے تیار نہیں تھی اور نہ ہی ان کے پاس وہ آلات (equipments) تھے جو آن لائن ٹیچنگ کے لیے ضروری ہیں۔ اساتذہ کی اکثریت اس بات سے آگاہ نہیں تھی کہ آن لائن ٹیچنگ کو کیسے ایک موثر ذریعہ تدریس کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف وہ طلبا جو دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے اور تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے اپنے آبائی علاقوں کو واپس چلے گئے تھے‘ اپنے علاقوں میں انٹرنیٹ کی قابل اعتماد سہولت نہ ہونے کے باعث شدید مشکلات کا شکار تھے۔ یوں کووڈ 19 نے معاشرتی ناہمواریوں اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو نہ صرف بری طرح سے بے نقاب کر دیا تھا بلکہ ان میں مزید اضافہ بھی کر دیا تھا۔ غیر مساوی وسائل کی تقسیم کا شکار زیادہ تر دور دراز کے علاقوں کے رہنے والے تھے‘ جہاں انٹرنیٹ کی سہولتیں میسر نہیں تھیں۔ اسی طرح لڑکوں کی نسبت لڑکیاں اور خصوصی طور پر بچے کووڈ 19 کے پیدا کردہ مسائل کا زیادہ شکار ہوئے۔
تعلیمی ادارے کووڈ 19 کے دنوں میں مختلف تجربات کرنے لگے۔ کبھی مکمل طور پر آن لائن اور کبھی hybrid تدریس کا تجربہ کیا گیا۔ اساتذہ کے غیر تربیت یافتہ ہونے اور تکنیکی سپورٹ کی عدم موجودگی سے تدریس کا معیار غیر تسلی بخش تھا۔ بہت سے طلبا آن لائن آ کر خود موجود نہیں ہوتے تھے۔ اس طرح استاد اور طلباء کا interaction تیزی سے کم ہونے لگا۔ یوں ایک طرف طلبا کے تعلیمی معیار میں تنزلی آئی اور دوسری طرف گھروں تک محدود ہونے سے وہ نفسیاتی امراض کا شکار ہونے لگے‘ جن میں اضطراب (Anxiety) اور شدید ذہنی دبائو (depression) جیسے امراض شامل تھے۔ مسلسل خوف اور غیر یقینی کی فضا نے طلبا کے ذہن بری طرح متاثر کئے۔ بد قسمتی سے بڑے تعلیمی اداروں نے طلبا کی اس ذہنی کیفیت کا احساس نہیں کیا‘ اور وہ مسلسل تعلیمی دبائو کا شکار رہے۔ کچھ اداروں نے آسان option اختیار کیا اور طلبا کو غیر حقیقی نمبروں سے نوازنے لگے اور کچھ تعلیمی بورڈز نے تو یہ کمال کر دکھایا کہ طلبا کو سو فیصد نمبر دے دیئے گئے۔ یہ تعلیمی عمل کے ساتھ ایک سنگین مذاق تھا۔
کووڈ19 کا یہ چیلنج تعلیمی اداروں کے سربراہوں، اساتذہ اور طلبا کو تعلیمی عمل پر از سرِ نو جائزے کی دعوت دیتا ہے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اب کلاس روم میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور Blended Learning کی مرکزی اہمیت ہو گی اس لئے ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے اپنے فنڈز کا ایک حصہ ٹیکنیکل سپورٹ کو مضبوط اور موثر بنانے پر صرف کریں۔ اسی طرح اساتذہ کو جدید تقاضوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹیکنکل تربیت کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں کو اساتذہ کے لیے باقاعدہ اس طرح کی تربیت کا اہتمام کرنا ہو گا۔
کووڈ کے بحران نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے ایسی تعلیم کی ضرورت ہے‘ جس میں creativity اور critical thinking کے عناصر نمایاں ہوں۔ سب سے بڑھ کر ہمیں ایک ایسا تدریسی طریقہ کار اپنانا ہو گا جو تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا کے نفسیاتی مسائل کا احاطہ بھی کرے۔ کووڈ19 کا تقاضا ہے کہ تعلیمی اداروں میں باقاعدہ کونسلنگ سینٹرز بنائے جائیں جہاں کوالیفائیڈ کونسلر طلبا کی مدد کریں۔ کووڈ 19 کے غیر معمولی حالات میں تعلیمی عمل میں اساتذہ مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے تعلیمی اداروں کو انہیں کچھ آزادی (autonomy) دینا ہو گی اور اپنے نظام میں لچک (flexibility) پیدا کرنا ہو گی تا کہ اساتذہ ضرورت اور حالات کے مطابق خود فیصلے کر سکیں۔ بد قسمتی سے بہت سے تعلیمی اداروں میں پروسیجر (Procedure) کے نام پر بے لچک structure بنا ئے جاتے ہیں جن میں اساتذہ مجبورِ محض ہوتے ہیں اور تعلیمی سرگرمیاں سیکھنے کے عمل کو فروغ دینے کے بجائے محض نمائش کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔