کہتے ہیں زندگی کے جھٹپٹے میں ماضی کے رنگوں کی قوس قزح بڑے رسان سے ہمیں اپنی طرف بلاتی ہے اور دل بچپن کی آغوش میں جانے کے لیے مچل اُٹھتا ہے۔ آج بمبئی کے پُر آسائش گھر میں آرام کرسی پر بیٹھے بیٹھے بلراج کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لی تھیں اور بند آنکھوں کی چلمنوں سے اس کے بچپن کے رنگ اسے اپنی طرف بلا نے لگے ۔ان رنگوں کے درمیان اس کا گاؤں خورد تھا ۔چھوٹا سا گاؤں جو پاکستان میں دریائے جہلم کے قریب تھا ۔ پوٹھوہار کے ہر گاؤں کی طرح اس کے گاؤں میں ایک مرکزی تالاب تھا جسے پوٹھوہاری میں بن کہتے ہیں۔ ہر بن کے اوپر برگد کا ایک پرانا درخت ہوتا تھا جس کی تاریخی ٹہنیوں پر بیٹھ کر بچے دور سے گاؤں آنے والی لاری کی راہ دیکھا کرتے۔ بلراج کو اپنے گاؤں کے ٹاہلی‘ دھریک‘ شہتوت ‘کیکر‘ بیری اور پیپل کے درخت یاد آنے لگے۔ گاؤں میں ایک بھٹی تھی جس پر لوگ دانے بھنوانے جاتے تھے ۔ اسے اپنے گاؤں کا وہ سکول یاد آگیا جہاں اس نے اپنی پڑھائی کا آغاز کیا تھا۔ اس کے گاؤں کا نام خورد تھا۔ فارسی میں خورد چھوٹے کو کہتے ہیںاور وہ ضلع جہلم کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ بلراج کو یاد آنے لگا کہ اس کے گاؤں میں مسلمان زیادہ اور ہندوؤں اور سکھوں کے گھر انے تھوڑے تھے ‘ لیکن سب ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار سے رہتے تھے ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے تھے۔بلراج کو گاؤں کے میلے یاد آنے لگے‘ ان میلوں میں گھڑ دوڑ اور کبڈی کے مقابلے ہوتے تھے۔
بلراج ابھی پانچ سال کا تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد اس کی ماں نے اسے باپ بن کر پالا۔ بلراج کو پڑھنے کا شوق تھا‘ ماں نے اسے سکول میں داخل کرایا۔ وہ تعلیم کے مختلف درجے طے کرتا ہو ا ہائی سکول میں پہنچ گیا اور پھر میٹرک کا امتحان پاس کر لیا جو اس زمانے میں ایک اعزاز کی بات تھی ۔ انہیں دنوں بلراج کو پتہ چلا کہ ہندوستان کی تقسیم ہو رہی ہے۔ ہندو مسلم فسادات کی خبریں اب تواتر سے آنے لگی تھیں۔ فسادات کی آگ بڑے شہروں اور قصبوں سے نکل کر چھوٹے چھوٹے دیہاتوں تک پہنچ رہی تھیں پھر ایک دن اس پر انکشاف ہوا کہ ہندوؤں کو سرحد پار جانا ہو گا لیکن کیا وہ بحفاظت سرحد پار پہنچ سکیں گے؟ خوف کے سائے بلراج کے گھر پر منڈلانے لگے تھے۔ تب ایک رات گاؤں کا چاچا یعقوب ان کے گھر آیا اور انہیں کہا کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں‘ آپ کو لینے آیا ہوں۔ یوں چاچا یعقوب نے خطرہ مول لے کر بلراج کو اس کے گھر کے لوگوں کے ہمراہ جہلم میں قائم کیمپ میں پہنچا دیا۔ اس بات کو ایک مدت گزر گئی لیکن بلراج کی آنکھوں میں چاچا یعقوب کا مہربان سراپا ابھی تک لو دیتا ہے۔ اس وقت بلراج کی عمر اٹھارہ سال تھی اور وہ میٹرک پاس کر چکا تھا۔ ہندوستان پہنچ کر زندگی کو نئے سرے سے بسانا تھا ۔ بلراج پوٹھوہار کی فضاؤں میں پروان چڑھا تھا اونچا لمبا قد اور شخصیت میں بے پناہ کشش‘میٹرک کی تعلیم نے اس کے ذہن کے دریچوں کو وا کر دیا تھا ۔ اس کا اردو بولنے کا لہجہ بھی دل نشیں تھا۔ اسی بدولت اسے ریڈیو کی نوکری مل گئی۔ وہ ریڈیو سیلون کی ہندی سروس میںمشہور پروگرام لپٹن کی محفل کا میزبان بن گیا۔ اسی دوران اس کی ملاقات رمیش سہگل سے ہوئی۔ رمیش نے بلراج کے چہرے اور آواز میں ایک اداکار کی جھلک دیکھی۔ یوں ریڈیو کی دنیا سے فلموں کی چکا چوند راہوں کے سفر کا آغاز ہوا۔ فیصلہ ہوا کہ بلراج دت کا فلمی نام سنیل دت ہو گا۔ پھر یہ فلمی نام اتنا مشہور ہوا کہ لوگ اصل نام بھول گئے۔
یہ 1955ء کا سال تھا جب سنیل دت کو پہلی فلم ''ریلوے سٹیشن‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا ۔ دو سال بعد سنیل دت کی شہرت کو اس وقت پر لگ گئے جب اسے ''مدر انڈیا‘‘ میں کام کرنے کا موقع۔ ملا اس فلم میں نرگس بھی کام کر رہی تھی۔ نرگس بالی وڈ کی شہرت کے راستے پر گامزن تھی۔ کہتے ہیں ایک روز فلم کے سیٹ پر آگ لگ گئی ‘اداکارہ نرگس شعلوں میں گھر گئی تھی‘ ایسے میں سنیل دت جان ہتھیلی پر رکھ کر شعلوں سے نرگس کو بحفاظت بچا لایا۔ نرگس کی نگاہوں میں سنیل کی قدر بڑھ گئی اور جب سنیل نے اگلے برس اسے شادی کی پیشکش کی تو وہ انکار نہ کر سکی۔ یہ فلمی دنیا کی خوب صورت جوڑی تھی۔ اب ایک کے بعد ایک کامیابی سنیل کے قدم چومنے لگی ۔اس دوران اس نے بہت سی کامیاب فلموں میں کام کیا جن میں سادھنا‘ انسان جاگ اُٹھا‘ سجاتا‘ مجھے جینے دو‘ خاندان‘ میرا سایہ اورپڑوسن شامل ہیں۔ اب وہ اداکاری کے ساتھ پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بھی بن گیا۔ اس کی بہترین کارکردگی پر اسے متعدد ایوارڈ ملے جن میں بھارت کا بڑا ایوارڈ پدم شری بھی شامل تھا۔ ایک اور بڑا اعزاز اسے اس وقت ملا جب اسے بمبئی شہر کا میئر مقرر کیا گیا۔
نرگس سے اس کی کامیاب شادی تھی۔ اس رشتے کو اس نے ہمیشہ احترام دیا۔ نرگس سے سنیل کی دو بیٹیاں پریا اور نرمتا اور ایک بیٹا سنجے دت تھا۔ سنجے نے جوان ہو کر باپ کی طرح رنگ روپ نکالا اور فلمی دنیا کا روشن ستارہ بنا۔ اب سنیل کے پاس محبت کرنے والی بیوی نرگس تھی‘ پیار کرنے والے بچے تھے‘ شہرت تھی‘ دولت تھی اور زندگی کی ساری آسائشیں۔ اب اس کی زندگی میں ڈھلوان کا سفر شروع ہو گیا تھا۔ ایسے میں اسے اس وقت دھچکا لگا جب اس کی محبت کرنے والی بیوی اور اپنے زمانے کی معروف اداکارہ نرگس طویل بیماری کے بعد اس سے جدا ہو گئی۔ وہ یک لخت تنہا ہو گیا تھا۔ اب وہ اکثر شام کو جھولنے والی کرسی پر بیٹھ جاتا اور گئے دنوں کو یاد کرتا۔ آج شام بھی ایسا ہی ہوا تھا کرسی پر بیٹھے بیٹھے چشم ِتصور میں وہ سرحد پار چلا گیا تھا جہاں اس کا گاؤں تھا ۔وہ ماضی کو یاد کرتا تو سنیل دت سے بلراج دت بن جاتا۔ جو اس کا اصل نام تھا۔ آج شدت سے بلراج کو اپنا گاؤں یاد آ رہا تھا۔ اس کا آسمان‘ اس کے پرندے‘ اس کے درخت‘ اس کے باشندے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور وہ حال کی دنیا میں آ گیا۔اس نے دیوار گیر کلاک پر وقت دیکھا۔ رات کے دو بج رہے تھے‘ دروازہ کھلا اور اس کا اداکار بیٹا سنجے دت اندر آیا۔ سنجے نے دیکھا رات کے دو بجے اس کا والد جاگ رہا ہے اور اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ سنجے نے وجہ پوچھی تو اس کا والد سسک اُٹھا اس نے پنجابی میں سنجے سے کہا ''پتر مینوں گھر یاد آ رہیا اے‘‘ (بیٹا مجھے گھر یاد آرہا ہے)۔ سنجے نے حیران کو کر کہا : پر آپ تو اپنے گھر میں بیٹھے ہیںـ۔بلراج سر جھٹک کر بولا: او نہیں پتر اے میرا گھر نہیں اے۔ میرا گھر تے پاکستان وچ اے (نہیں بیٹا یہ میرا گھر نہیں ہے میرا گھر تو پاکستان میں ہے)۔ سنجے کی آنکھوں میں حیرت دیکھ کر بلراج نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا :پر تُو نہیں سمجھے گا پُتر (لیکن تم نہیں سمجھو گے بیٹا)۔
کہتے ہیں زندگی کے جھٹپٹے میں ماضی کے رنگوں کی قوس قزح بڑے رسان سے ہمیں اپنی طرف بلاتی ہے اور دل بچپن کی آغوش میں جانے کے لیے مچل اُٹھتا ہے۔ آج بمبئی کے پُر آسائش گھر میں آرام کرسی پر بیٹھے بیٹھے بلراج دت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔