کبھی کبھی میں سوچتا ہوں وقت بھی کیسا جادوگر ہے، ویرانوں کوپلک جھپکنے میں آباد کر دیتا ہے اور پھردیکھتے ہی دیکھتے آباد نقوش کو مٹاکر قصۂ پارینہ بنا دیتاہے۔ راولپنڈی شہر بھی وقت کی اِس الٹ پھیر سے گزرا۔ کہتے ہیں برصغیر میں انگریز آئے تو اپنے ساتھ اپنی ثقافت کے رنگ بھی لائے، بہت سی چیزیں جو یہاں کے لوگوں کے لیے اجنبی تھیں ان کی زندگیوں میں غیر محسوس طریقے سے شامل ہوتی گئیں، مثلاً چائے جو مقامی لوگوں کے لیے ایک غیرمانوس مشروب تھی، دیکھتے ہی دیکھتے ان کی زندگیوں کا حصہ بن گئی۔ اسی طرح بیکری کا تصور بھی انگریزوں کے ساتھ برصغیر میں آیا اور مختلف شہروں کی چھاؤنیوں میں انگریزوں کے لیے بیکریاں قائم کی گئیں، مثلاً دھیرا دون، دہلی، پشاور اور راولپنڈی میں بیکریوں کا قیام عمل میں آیا۔
میں پیچھے مُڑ کر دیکھوں تو اپنے شہر کا احوال بتاتے ہوئے شب و روز روشن اور تصور میں اس زمانے کے گلی کوچے زندہ ہو جاتے ہیں۔ راولپنڈی اس لحاظ سے ایک اہم شہر تھا کہ جب 1849ء میں انگریزوں نے سکھوں کو شکست دی تو نارتھ کمانڈ کا ہیڈکوارٹر راولپنڈی کو بنایا گیا۔ ہر چھاؤنی کی طرح یہاں بھی انگریزوں کی ثقافت کے رنگ جھلکنے لگے۔ انہی میں سے ایک رنگ بیکری کا تھا۔ راولپنڈی میںبھی بیکری کی روایت کا آغاز ہوا۔ میرے سکول اور کالج کے دنوں میں کچھ بیکریاں راولپنڈی کی پہچان تھیں۔ لال کرتی، جہاں میرا پرائمری سکول تھا، ایک قدیم بیکری گڈلک بیکری تھی۔ اس بیکری کے مالک ایک نیک اور محنتی شخص شیخ صاحب تھے جن کا بیٹا طارق الٰہی میرے سکول میں پڑھتا تھا اور میرا دوست تھا، بعد میں طارق الٰہی نے بیکری کا انتظام سنبھال لیا۔ یہ بیکری لال کرتی کی پہچان تھی اور میرے سکول سے بہت قریب تھی۔ لال کرتی سے کچھ فاصلے پر صدر کا علاقہ تھا جو راولپنڈی کا مرکز تھا اورجہاں میں اکثر دوستوں کے ساتھ گھومنے آتا تھا۔ سچ پوچھیں تو صدر کا علاقہ راولپنڈی کا دل تھا۔ یہاں کی معروف بیکری براڈ وے (Broadway)بیکرز تھی۔ اس بیکری کی ساری مصنوعات ہی معیاری تھیں۔ مجھے یہاں کا ہنٹر بیف (Hunter Beaf) پسند تھا۔ پھر ایک دن پتا چلا کہ Broadway Bakeryوالے اپنی دکان بڑھا گئے ہیں، ایک طویل عرصے کی غیرحاضری کے بعد سنا ہے یہ بیکری ایک بار پھر سے ایک نئے سفر کا آغاز کر رہی ہے۔ صدر کے چھوٹے بازار سے نکل کر جائیں تو آپ کوئلہ سینٹر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ علاقہ ریلوے سٹیشن سے زیاد ہ دور نہیں۔ یہ کوئلہ کا بڑا سینٹر تھا۔ یاد ر ہے اُس زمانے میںریلوے کے انجن میں کوئلہ استعمال ہوتا تھا۔ کوئلہ سینٹر کے حوالے سے یہ پورا علاقہ ہی کوئلہ سینٹر کہلاتا تھا۔کوئلہ سینٹر میں واقع ایک مشہور بیکری ویسٹ اینڈ (West End) تھی۔ یہ بیکری اپنے معیار کی وجہ سے شہرت رکھتی تھی۔ پنڈی بیکری بھی اپنے زمانے کی ایک مشہور بیکری تھی جوکوئلہ سنٹر میں واقع تھی۔کوئلہ سینٹر میں ایک اور بیکری رائل بیکری کے نام سے تھی۔ صدر کے ہاتھی چوک میں تو مٹھائی کی دکانوں اور بیکریوں کا ایک جھرمٹ تھا۔ ہاتھی چوک سے ایک سڑک میسی گیٹ کو جاتی تھی۔ دوسری تنگ گلی چھوٹا بازار کو نکلتی تھی اور ایک سڑک وہ تھی جہاں پرکنٹونمنٹ ہسپتال واقع تھا۔ اسی مناسبت سے اس سڑک کو ہسپتال روڈ کہا جاتا تھا۔ ہاتھی چوک میں ایک قدیم بیکری امپیریل بیکری تھی جس کے مالک اعظم انصاری صاحب تھے۔ ہاتھی چوک میں ہی گڈلک کے نام سے ایک بیکری تھی، یاد رہے کہ اسی نام سے ایک بیکری لال کرتی میں بھی تھی جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ ہسپتال روڈ پر ہی دواور بیکریاں بھی تھیں، ایک کا نام کراؤن بیکری اور دوسری کا نام اعظم بیکری تھا۔ راولپنڈی کی ایک اور اہم بیکری شملہ بیکری تھی۔
صدر میں ہی پہلے پہل راحت بیکری کا قیام عمل میں آیا۔ یاد رہے کہ راحت بیکری کا آغاز لاہور سے ہوا تھا اور یہ اپنے زمانے کی ایک مشہور بیکری تھی۔ بعد میں خاندانی اختلافات کی وجہ سے ایک نئی بیکری کے قیام کا اعلان کیا گیا، اس کی خوب مارکیٹنگ کی گئی اور یوں تہذیب بیکری وجود میں آئی۔ آج کل اسلام آباد میں اس کی کئی برانچز کام کر رہی ہیں لیکن تہذیب سے پہلے ایک اور بیکری Unique Bakers نے اپنے آغاز ہی سے سب کو چونکا دیا تھا۔اپنے نام کی طرح یہ ایک منفرد بیکری تھی۔ اس کی لوکیشن بھی آئیڈیل تھی، یہ جی پی او چوک میں واقع تھی۔ اس کی دیواریں شیشے کی تھیں اور ایک دیوار ایک سڑک اور دوسری دیوار دوسری سڑک کے منظر دکھاتی تھی۔ اس کی مصنوعات میں وہ سفید رنگ کی لمبو تری ٹافیاں بھی شامل تھیں جنہیں ہم بڑے شوق سے کھاتے تھے۔ بلاشبہ یونیک بیکری اِس زمانے کی ایک ممتاز بیکری تھی لیکن کہتے ہیں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہر میں ایک اور بیکری Bread & Butter کا آغاز ہوا جس نے آغاز ہی سے اپنے معیار کی وجہ سے اپنا ایک الگ نام بنا لیا۔ اس بیکری کے مالک گوالمنڈی کے رہنے والے تھے جنہیں بیرونِ ملک بیکری میں کام کرنے کا وسیع تجربہ تھا۔ صدر میں ہی ایک اور بیکری کریسنٹ بیکری تھی، یہ تو تھا صدر میں واقع کچھ اہم بیکریوں کا احوال۔
مری روڈ پر سب سے اہم شاہین بیکری تھی‘ اس کی پیشانی پر شاہین کی تصویر آویزاں تھی۔ مری روڈ کے بھابھڑا بازار میں مون لائٹ بیکری تھی جس کے رس بہت مشہور تھے اور لوگ دور و نزدیک سے رس خریدنے کے لیے یہاں آتے تھے۔ اسی طرح جامع مسجد روڈ پر روشن بیکری تھی جو اپنی مصنوعات کے معیار کی وجہ سے مشہور تھی۔ اقبال روڈ پر شیریں بیکرز کے نام سے ایک بیکری تھی جس کی مصنوعات خواص و عام میں مقبول تھیں۔
راولپنڈی کے علاقے بنی کے قریب رستم بیکری تھی جو اس علاقے کی ایک اہم بیکری تھی۔ بنی چوک میں ہی ایک اور بیکری مدینہ بیکری تھی۔ اصغر مال چوک میں ونیلا بیکری تھی۔ راولپنڈی کے اردو بازار میں ایک معروف بیکری مقبولِ عام بیکری کے نام سے تھی جو اپنے معیار کی وجہ سے جانی جاتی تھی۔ ویسٹرج میں تو ایک چوک کا نام ہی بیکری چوک ہے۔ پشاور روڈ پر ونگز (Wings) بیکری کا آغاز ہوا تو اس نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ مجھے یاد ہے یہ پشاور روڈ پراپنی نمایاں لوکیشن اور اچھی پارکنگ سپیس کی وجہ سے جانی جاتی تھی۔ جن دنوں میںجی آئی کے انسٹیٹیوٹ میں پڑھاتا تھا، راوالپنڈی سے صوابی جاتے ہوئے ہم اکثراس بیکری پر رکتے تھے۔ گوالمنڈی کے علاقے میں خان بیکری تھی جس سے میرے لڑکپن کی یادیں وابستہ ہیں۔ لال کرتی کی گڈلک بیکری کے مالک طارق الٰہی کے کزن شاہد کی یونائیڈ بیکری تھی جو اسلام آباد میں قائم کی گئی تھی اور یہاں کے کیک اور بسکٹ بہت مشہور تھے۔ بعد میں یونائیڈ بیکری کے نام سے ایک بیکری راولپنڈی کے چاندنی چوک میں شروع کی گئی۔ مری روڈ پر چاندنی چوک میں ہی انتہائی معیاری بیکری صوفی بیکرز کا آغاز ہوا۔ یہ اپنے زمانے کی ایک جدید اور معیاری بیکری تھی۔ سیٹلائٹ ٹاؤن میں کراؤن بیکری تھی۔ یہ راولپنڈی کی صرف ان چند بیکریوں کا احوال ہے جن سے میرا واسطہ رہا۔ ان میں سے اکثر بیکریاں اب محض کہانیاں بن چکی ہیں۔کبھی کبھی میں سوچتا ہوں وقت بھی کیسا جادوگر ہے، ویرانوں کوپلک جھپکنے میں آباد کر دیتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آباد نقوش کومٹاکر قصۂ پارینہ بنا دیتا ہے اور پھر صرف ان کی یاد باقی رہ جاتی ہے۔