آج ہم نے ٹورونٹو کے تاریخی میوزیم اور آرٹ گیلری جانا ہے۔ شعیب نے میوزیم اور گیلری کے ٹکٹ پہلے سے آن لائن خرید لیے تھے۔ ہمیشہ کی طرح ہم West Rouge سٹیشن سے ٹرین پر بیٹھے اور ڈاؤن ٹاؤن کی طرف سفر کا آغاز کیا۔ ہماری پہلی منزل Royal Ontario میوزیم ہے جسے عرفِ عام میں ROM کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میوزیم سے میری پہلی شناسائی اس وقت ہوئی تھی جب میں 1991ء میں ٹورونٹو آیا تھا اور ہم یونیورسٹی کی اکاموڈیشن 35 Charles Street پر رہتے تھے۔ وہاں سے یونیورسٹی کا پیدل راستہ صرف 10منٹ کا تھا۔ میں ہر روزBay Street پر چلتا ہواBloor سڑیٹ پر جاتا اور پھر بائیں ہاتھ مڑ کر بلور سٹریٹ پر چلتا ہوا 252 بلور سٹریٹ پہنچ جاتا جہاں یونیورسٹی آف ٹورونٹو کا وہ انسٹیٹیوٹ تھا جہاں سے میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ سردیوں اور گرمیوں میں چار سال تک میرا یہ معمول رہا۔ یونیورسٹی جاتے ہوئے راستے میں بلور سٹریٹ پر رائل اونٹاریو میوزیم کا صدر دروازہ تھا۔ یوں ہر روز میں میوزیم کی عمارت کو دیکھتا تھا‘ ہمارے گھر سے میوزیم کا فاصلہ بمشکل پانچ منٹ کا تھا۔ چھٹی کے دن ہم صہیب اور ہاجرہ کو لے کر میوزیم چلے جاتے جہاں پر بچوں کی توجہ کا مرکز ڈائنو سار کا دیو ہیکل ڈھانچہ ہوتا اور پھر چمگادڑوں کی وہ غار جو Bat Cave کہلاتی تھی۔ اس غار میں داخل ہوتے تو اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہ آتا‘ ہاں چھت سے چمگادڑیں الٹی لٹکی نظر آتیں۔ جونہی غار کے وسط میں پہنچیں تو اچانک چمگادڑوں کی تیز چیخوں کی آواز آتی جنہیں سن کر ہماری بیٹی ہاجرہ سچ مچ ڈر جاتی اور زور سے میرا ہاتھ پکڑ لیتی۔ میں اسے بتاتا یہ چمگادڑوں کی اصل چیخیں نہیں بلکہ ریکارڈڈ آوازیں ہیں۔ اس سب کے باوجود جب بھی ہم میوزیم جاتے وہ Bat Cave جانے پر اصرار کرتی۔
ٹرین Union کے سٹیشن پر رکی تو میرے تصور کا منظر بھی بکھر گیا‘ شعیب نے بتایا کہ یہاں سے آگے ہم سب وے کے ذریعے میوزیم سٹیشن تک جائیں گے جہاں سٹیشن کے بالکل سامنے میوزیم واقع ہے۔ یونین سٹیشن سے میوزیم کا فاصلہ سات منٹ کا ہے۔ اس سٹیشن کی آرائش اس طرح کی گئی ہے کہ میوزیم کا عکس ہر طرف نظر آتا ہے۔ سب وے سٹیشن سے باہر نکلے تو سڑک کے اس پار میوزیم کی عظیم الشان عمارت تھی۔ شعیب نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم سڑک پار کرکے میوزیم کے سامنے آگئے۔ لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ صدر دروازے سے اندر داخل ہوں تو دائیں طرف سے گیلریز شروع ہو جاتی ہیں۔ ہم دائیں ہاتھ ایک گیلری میں داخل ہوئے تو احساس ہوا کہ آرٹ اور زندگی کا آپس میں کتنا گہرا رشتہ ہے۔ کووڈ کے دنوں میں ماسک ہماری زندگی کا حصہ بن گیا تھا۔ گیلری میں مختلف ڈیزائنز اور رنگوں کے ماسک نمائش کیلئے رکھے تھے۔ گیلری سے نکل کر سامنے جائیں تو ڈائنو سار کا ایک بڑا سا ڈھانچہ ہمارا استقبال کرتا ہے۔ اس سے آگے میوزیم کے مختلف شعبے ہیں جہاں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کی نمائندگی ہے۔ میوزیم میں تقریباً 13 ملین آرٹ کے نمونے ہیں۔ جن کی نمائش کیلئے چالیس گیلریاں ہیں جن میں سجے نوادرات کو دیکھنے کیلئے ہر سال تقریباً دس لاکھ لوگ آتے ہیں۔ میوزیم کے پیچھے کئی دہائیوں کا سفر ہے‘ 1912ء میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور نوادرات جمع کرنے کا کام شروع ہوا۔ 1914ء میں میوزیم کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا‘ تب میوزیم یونیورسٹی آف ٹورونٹو کی زیر نگرانی کام کرتا تھا۔ یونیورسٹی اور میوزیم کا یہ ساتھ 1968ء تک رہا‘ اس کے بعد کینیڈا کی حکومت نے اس کا انتظام براہِ راست اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
میوزیم کی مختلف گیلریوں سے ہوتے ہوئے اب ہم گفٹ شاپ پر آگئے تھے جہاں میوزیم کے حوالے سے مختلف سووینئرز رکھے تھے۔ میوزیم سے نکل کر ہمیں آرٹ گیلری جانا تھا لیکن اس سے پہلے ضروری تھا کہ کافی پی کر تازہ دم ہوا جائے۔ قریب ہی کافی کی شاپ Tim Hortons تھی‘ ہم وہاں چلے گئے۔ کافی لی اور اگلی منزل‘ Art Gallery Ontarioکی طرف روانہ ہو گئے‘ جسے عرفِ عام میں AGOکہتے ہیں۔ یہ ڈنڈاس (Dundas) سٹریٹ کے قریب واقع ہے۔ ہم گیلری کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوئے تو ایک لمبی قطار نظر آئی۔ ہم بھی اس میں شامل ہو گئے‘ قطار کے آخر میں ایک ڈیسک پر ٹکٹ دیکھے جاتے تھے اور پھر آگے جانے کی اجازت ملتی تھی۔ یہ شمالی امریکہ کی ایک بڑی آرٹ گیلری ہے جہاں تقریباً 10لاکھ افراد ہر سال آرٹ کے نمونے دیکھنے آتے ہیں۔ اس آرٹ گیلری کی ابتدا 1900ء میں ہوئی تھی۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ شروع میں اس کا نام آرٹ میوزیم آف ٹورونٹو تھا۔ 1919ء میں اس کا نام تبدیل کرکے آرٹ گیلری ٹورونٹو رکھا گیا اور پھر 1966ء میں ایک بار پھر نام کی تبدیلی ہوئی اور اس کا نام آرٹ گیلری اونٹاریو رکھا گیا۔ آرٹ گیلری کے مختلف حصوں میں جاتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ یہاں کینیڈا‘ افریقہ اور یورپ کے آرٹ کے نمونے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے آرٹسٹوں کو اپنے فن کی نمائش کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ نوجوانوں کو فن کی طرف راغب کرنے کیلئے 25 سال سے کم عمر نوجوانوں کا گیلری میں داخلہ مفت ہے۔
آرٹ گیلری کی کئی منزلیں ہیں‘ ہر منزل پر آرٹ کے مختلف نوادرات رکھے ہیں ان میں پرانے مقامی لوگوں کے آرٹ کے ساتھ ساتھ عہدِ حاضر کے آرٹ کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ مختلف گیلریوں میں گھومتے ہمیں بہت دیر ہو گئی لیکن ابھی آخری منزل پر جانا باقی تھی جو عہدِ حاضر کے آرٹ کے حوالے سے تھی۔ اس منزل پر آرٹ کے نمونے بہت منفرد اور بہت دلچسپ لگے۔ ایک بڑی سی دیوار پر غاروں کے آرٹ (Cave Art) سے Tik Tokتک کے سفر میں آنے والے سارے سنگِ میل ہمیں نظر آتے ہیں۔ اونٹاریو آرٹ گیلری کے ہر گوشے کو دیکھنے کیلئے سارا دن چاہیے اور گیلری کے ہر نمونے کو دیکھنے‘ سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی جائے تو پھر شاید ایک دن بھی کافی نہ ہو۔
اب تھکن ہم پر غالب آنے لگی تھی۔ ہم Elevatorسے گراؤنڈ فلور پر آئے اور آرٹ گیلری کے صدر دروازے سے باہر آگئے۔ باہر ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ میں گیلری کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اور دلکش پھوار کا لطف اُٹھانے لگا۔ شعیب مجھے دیکھ کر بولا: آپ بیٹھیں میں سامنے والی کافی شاپ سے کافی لے آتا ہوں۔ میں نے کہا: ہاں بہت اچھا خیال ہے۔ شعیب کافی لینے چلا گیا اور میں سڑک پر آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ آسمان پر سیاہ بادلوں نے جیسے چھاؤنی بنا رکھی تھی اور سرمئی رنگوں میں سب کچھ خوابناک سا لگ رہا تھا۔ گیلری کی سیڑھیوں پر بیٹھے مجھے پاکستان کے نامور مصور اور نیشنل کالج آف آرٹس کے معروف استاد ظہور اخلاق کی یاد آگئی۔ ظہور صاحب میرے پی ایچ ڈی کے زمانے میں پاکستان سے ٹورونٹو آ چکے تھے اور اونٹاریو کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن (OCAD) میں پڑھا رہے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی مجھے اونٹاریو آرٹ گیلری کے بارے میں بتایا تھا اور وہاں جانے کی تاکید کی تھی لیکن نجانے کیوں کینیڈا میں چار سال کے دوران آرٹ گیلری جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ آج تیس سال بعد میں ٹورونٹو واپس آیا ہوں۔ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ظہور اخلاق صاحب کئی برس پہلے وادیٔ اجل میں اتر گئے ہیں اور میں آرٹ گیلری کی سیڑھیوں پر بیٹھے آسمان پر آگے پیچھے دوڑتے سیاہ بادلوں کو دیکھ رہا ہوں۔ تب میں سوچتا ہوں کہ اگر سڑک پر چلتے پھرتے لوگوں میں ظہور صاحب نظر آ جائیں تو؟ مجھے گیلری کی سیڑھیوں پر بیٹھے ان کی آنکھوں میں حیرت جاگ اٹھے گی اور ہونٹوں پر وہی شانت مسکراہٹ پھیل جائے گی جسے دیکھے ایک مدت ہو گئی ہے۔ (جاری)