"SSC" (space) message & send to 7575

کمپنی بہادر: تجارت، سیاست اور حکومت … (12)

میر قاسم کو شروع میں ہی پتا چل گیا تھا کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بکسر کی جنگ نہیں جیت سکتا ‘ اس لیے وہ خاموشی سے منظر سے اوجھل ہو گیا اور اودھ چلا گیا۔ شجاع الدین بھی میدانِ جنگ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور اودھ کی طرف فرار ہو گیا۔ شاہ عالم ثانی نے بھی پسپائی اختیار کر لی۔ یوں جنگ کا فیصلہ دو دنوں میں ہو گیا۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی اہم فتح تھی۔ ہندوستان کا مغل بادشاہ اب ان کے رحم و کرم پر تھا۔ اب وہ اس سے اپنی مرضی کی شرائط طے کر سکتے تھے۔ یوں ان کا دائرہ اثر بنگال سے بڑھ کر ہندوستان تک وسیع ہو گیا تھا۔ شاہ عالم ثانی نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے فیصلہ کیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی شرائط قبول کر لی جائیں۔ شاہ عالم ثانی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان 1765ء میں ہونے والے اس معاہدے کو معاہدۂ الٰہ آباد کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت بنگال‘ بہار اور اڑیسہ کے دیوانی حقوق مغل بادشاہ کے توسط سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو مل گئے۔ میر قاسم کے آخری دن دربدر بھٹکنے اور روپوشی کے عالم میں گزرے۔ اور اسی عالمِ غربت میں 1777ء میں دہلی کے قریب ایک قصبے میں اس کا انتقال ہو گیا۔ اب بنگال مکمل طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے میں تھا۔ میر قاسم کے بعد کمپنی کو بنگال میں اقتدار کی مسند پر بٹھانے کیلئے ایک ایسے کٹھ پتلی شخص کی تلاش تھی جو اُن کا غلام بن کر رہے اور جس کے ذہن کے کسی گوشے میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے بغاوت کا خیال تک نہ آئے۔ ایسے میں ان کی نظر میر جعفر پر پڑی‘ وہی میر جعفر جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے ساز باز کر کے اپنے محسن سراج الدولہ کی پشت میں خنجر گھونپا تھا اور جس کے صلے میں اسے بنگال کا نواب بنایا گیا تھا۔ لیکن توقعات پوری نہ ہونے پر چند برس بعد ہی اسے معزول کر کے میر قاسم کو تخت پر بٹھا دیا گیا تھا اور اب میر قاسم کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو اپنے آزمودہ مہرے کی یاد آئی تھی۔ میر جعفر نے کمپنی کی تمام شرائط مانتے ہوئے حکمرانی کی پیشکش قبول کرنی تھی‘ اب وہ بوڑھا ہو چکا تھا اور زندگی کے آخری دن عیش و آرام میں گزارنا چاہتا تھا۔ اس کے ذہن میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کا کوئی خیال تھا بھی تو وہ دم توڑ چکا تھا۔ معزولی کی زندگی گزارنے کے بعد دوبارہ حکمرانی کی پیشکش اس کیلئے کسی سہانے خواب سے کم نہ تھی۔ میر جعفر کا دوسرا دور بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی مالی خواہشات پوری کرنے میں گزرا۔ بنگال کے مقامی کسان‘ تاجر اور شہری ہر دم زوال پذیر معیشت سے پریشان تھے لیکن میر جعفر کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا‘ اپنے اقتدار کی حفاظت اور اس کیلئے ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہر جائز و ناجائز خواہش کی بار آوری۔ اقتدار کا یہ دور صرف ایک سال پر محیط تھا۔ پانچ فروری 1765ء کو میر جعفر کا مرشد آباد میں انتقال ہو گیا۔ہر اقتدار کو ایک دن ختم ہونا ہوتا ہے‘ اسی عارضی اقتدار کیلئے میر جعفر نے اپنے محسن سراج الدولہ سے غداری کی تھی‘ اب دونوں اس دنیائے فانی کو چھوڑ چکے تھے لیکن سراج الدولہ مزاحمت کی علامت اور میر جعفر غداری کے استعارے کے طور پر تاریخ کی لوح پر زندہ رہیں گے۔
میر جعفر کی وفات کے بعد اقتدار کی مسند خالی ہو گئی ۔میر جعفر کی بیوی اپنے بیٹے میرن کو بنگال کے نواب کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھی اس کیلئے اس نے کوششیں بھی شروع کر دی تھیں۔ وہ اہم اور بااثر لوگوں کو رام کرنے کیلئے پیسے کو پانی کی طرح بہا رہی تھی لیکن ایسٹ انڈیا والے چاہتے تھے کہ کسی ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو اُن کی مٹھی میں رہے اور اُن کے احکامات پر بے چون و چرا عمل کرے۔ بہت سوچ بچار سے انہوں نے میر جعفر کے ایک دوسرے بیٹے نجم الدولہ کا انتخاب کیا جس کی عمر محض پندرہ سال تھی۔ اس انتخاب کی بنیادی وجہ ہی یہ تھی کہ پندرہ سالہ نواب علامتی حکمران ہو گا اور اصل طاقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس ہو گی۔ نجم الدولہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین جو معاہدہ طے ہوا اس کو ایک نظر دیکھ کر ہی پتا چل جاتا ہے کہ بنگال کا نیا نواب کس قدر مجبور اور بے بس تھا۔ معاہدے کے نکات کے مطابق نواب پر لازم تھا کہ وہ محمد رضا خان کو اپنا نائب مقرر کرے۔ یاد رہے کہ محمد رضا خان انگریزوں کا پروردہ تھا۔ معاہدے کے مطابق نواب کو اپنی فوج کی تعداد کم کرنا ہو گی وہ صرف اتنی فوج رکھ سکتا تھا جو ٹیکس اکٹھا کرنے میں اس کی معاون ہو۔ معاہدے کی اس شق سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے نواب کے پر کاٹ دیے تھے اور آئندہ نواب کی طرف سے بغاوت کے کسی بھی خطرے کا خاتمہ کر دیا تھا۔ معاہدے کی رُو سے طے پایا کہ نواب گزشتہ برسوں کی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج کے اخراجات کے پانچ لاکھ روپے دیتا رہے گا۔ معاہدے کی اہم شق یہ بھی تھی کہ بنگال کی ریاست میں تمام اہم تقرریاں کلکتہ کونسل کی مرضی سے ہوں گی۔ یوں عملی طور پر انتظامی عہدوں پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے حمایت یافتہ لوگوں کی تقرری کو یقینی بنا دیا گیا تھا‘ معاہدے کے مطابق انگریزوں کو تجارت کی غرض سے ہر قسم کے ٹیکس کی چھوٹ ہو گی۔
یہ معاہدہ مکمل طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے حق میں تھا اور نواب کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے تھے لیکن نواب کے پاس اس معاہدے کو تسلیم کرنے کو سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا‘ اس کیلئے تو اتنا ہی کافی تھا کہ وہ پندرہ سال کی عمر میں بنگال کی ریاست کا نواب بن گیا تھا۔ یہ ساری شرائط تسلیم کرتے ہوئے اس نے اپنی صرف ایک خواہش کا اظہار کیا کہ وہ نند کمار کو اپنا دیوان مقرر کرنا چاہتا ہے لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس خواہش کو بھی تسلیم نہ کیا اور نواب کی مرضی کے برعکس نندکمار کو گرفتار کر کے کلکتہ میں قید کر دیا گیا۔ یہ بے وقعت اقتدار حاصل کرنے کیلئے بھی نجم الدولہ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کو خوش کرنا پڑا۔ اس موقع پر اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے کلکتہ کونسل کے ارکان کو نذرانے کے طور پر بیس لاکھ روپے پیش کیے‘ یہ رقم بنگال کے مقامی شہریوں کے خون پسینے کی کمائی تھی جو ریاست نے ٹیکسوں کے نام پر ان سے وصول کی تھی۔
یہ 1765ء کا سال تھا اور 23مئی کا دن جب نجم الدولہ کو بنگال کا نواب بنایا گیا۔ اس کی ہمہ وقت نگرانی کیلئے نائب کے طور پر انگریزوں کا اعتماد یافتہ شخص محمد رضا خان تھا۔ نجم الدولہ کے اقتدار کا دورانیہ صرف ایک سال کا تھا۔ نوجوان نجم الدولہ پُراسرار حالات میں انتقال کر گیا۔ کہتے ہیں کلائیو مرشدآباد کے دورے پر تھا‘ اس کیلئے بنگال کی ریاست کی طرف سے دعوت کا اہتمام کیا گیا۔ اس دعوت میں نواب نجم الدولہ اور اس کا نائب محمد رضا خان شریک تھے۔ دعوت سے واپسی پر اپنے محل پہنچتے پہنچتے اس کی طبیعت بگڑ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی سانس اُکھڑ گئی اور سولہ سالہ نجم الدولہ انتقال کر گیا۔ نجم الدولہ کی اچانک موت پر لوگوں کے ذہنوں میں بہت سے سوال اٹھے لیکن انہیں اظہار کا موقع نہ مل سکا۔ نواب نجم الدولہ تو دراصل ایک سایہ تھا اصل حکمرانی ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس تھی۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں