"SAC" (space) message & send to 7575

جنوبی ایشیا میں مون سون اور امن

گزشتہ ہفتے کٹھمنڈو میں مقیم دوست نے ٹوئٹر پر ایک دلچسپ پیغام بھیجا: ’’ڈھاکہ‘ کٹھمنڈو ‘ دلی اور لاہور میں مون سون آ گئی۔ جنوبی ایشیا میں یہ مون سونی اتحاد متاثر کن ہے جسے جغرافیائی سیاست میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ رومانویت اور جغرافیائی سیاست باہم متقابل ہیں جن کا اجماع بردباری اور خودنگری کا متقاضی ہے۔ بظاہر میرے دوست کے تخیل کو ہفنگٹن پوسٹ میں 15 جون 2013ء کو شائع ہونے والے مضمون ’جنوبی ایشیا کا ملک‘ میں بھارت کے حوالے نے انگیخت دی جس سے جنوبی ایشیا میں علاقائیت کی نمود کا در وا ہوتا ہے۔ اس مضمون میں برطانیہ کے شہزادہ ولیم کے خون میں جنوبی ایشیائی ملک کے خون کی آمیزش کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ’’ولیم کی پانچ پشت قبل کی نانی الیزا کیوراک ہندوستان میں گھریلو خادمہ کے طور پر کام کرتی تھیں‘‘۔ ہفنگٹن پوسٹ کے مضمون نگار دقت نظر سے کام لیتے تو وہ جنوبی ایشیا کے انگریز شاہی خاندان کے ساتھ زیادہ تاریخی اور شاید عمیق تر تعلقات دریافت کر سکتے تھے۔ انیسویں صدی کے اواخر کی مشہور برطانوی ملکہ اور بیسویں صدی کے آخری عشروں کی اتنی ہی مشہور اوران سے زیادہ ہر دلعزیز منتظر ملکہ (Queen-in-waiting) نے اپنی آخری ’’خفیہ‘‘ محبت کے لیے جنوبی ایشیا کا انتخاب کیاتھا۔ اس میں تعجب نہیں کہ کٹھمنڈو میں بیٹھا میرا دوست ہمالیائی مون سون میں ہر آن جنم لیتی قوس قزح سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جنوبی ایشیا کے گم شدہ رومان کو یاد نہ کر پایا ہو۔ البتہ اُسے یقین ہے کہ اگر ہم لڑھکتے ہوئے جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنی زبانوں اور ذہنوں میں موجود بندشوں کو ماضی کے سپرد کردیں تو علاقائی ہم آہنگی سمیت بہت کچھ اپنے درست مقام پر آ جائے گا، جس کے مطابق بابر‘ شیر شاہ سوری‘ چندر گپت موریا اور اشوک جیسے تمام مشاہیر ہندوستانی یا موجودہ جنوبی ایشیا کی تاریخی شخصیتیں قرار پائیں گی۔ اس اعتبار سے گاندھی اور جناح جو اپنی اپنی قومی ریاستوں کے بانی تھے بھارتی یا پاکستانی سے زیادہ جنوبی ایشیائی کہلائیں گے۔ یہ دونوں اپنے نو آزاد ملکوں کے شہری کے طور پر چند مہینے ہی زندہ رہے۔ علامہ اقبال نے زندگی کے ابتدائی ایام میں مشہور نظم ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ لکھی اور 1905ء کی ایک تقریب کے دوران گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھی جو اس وقت کی برطانوی نوآبادی‘ ہندوستان کا ترانہ قرار پائی ۔ البتہ بعد میں اقبال نے اپنا نقطۂ نظر تبدیل کر لیا اور پوری دنیا کو ’’اپنا وطن‘‘ کہنا شروع کیا۔ 1930ء میں انہوں نے اپنے خطبہ الہ آباد میں برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ قومی ریاست کا مطالبہ کردیا۔ بعد میں اسی تصور کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ لیکن ’’مفکرِ پاکستان‘‘ اپنے خواب کی تعبیر دیکھنے تک حیات نہ رہے۔ اس اعتبار سے اقبال بھی ہندوستانی سے زیادہ جنوب ایشیائی تھے، اگرچہ ہندوستانی ان کے ’’ترانہ ہندی‘‘ سے اب بھی خوش ہوتے ہیں۔ تاریخی ’’ہند‘‘ سے کٹ کر بھارت کو ایک قومی ریاست بنے 65 برس گزر چکے ہیں لیکن اب وہ اپنے ’’جمبدویپا‘‘ یا \"Indic civilisation\" ہونے کی معنویت کھو چکا ہے۔ دراصل پاکستان دریائے سندھ کی تہذیب کا وارث ہونے کی بنا پر بھارت سے زیادہ ’’Indic‘‘ ہے جو آج بھی ہندو‘ مسلم‘ سکھ اور مسیحی ثقافتوںکی نمائندگی کرتا ہے۔ بدھ مت جس نے ہندوستان میں جنم لیا مشرقی ایشیا کی جانب منتقل ہو گیا کیونکہ ہندومت نے اسے یہاں پروان نہیں چڑھنے دیا۔ بھارت اور جنوبی ایشیا جس کے عوام کا مستقبل بڑی حد تک بھارت سے وابستہ ہے‘ اس کے بارے میںمیراکٹھمنڈو کا دوست جو جنوبی ایشیا کا پرچم بردار ہے‘ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ کیا یہ بھارت کی تجدید کا مناسب وقت نہیں ہے؟ تہذیبی ورثہ اپنی جگہ‘ لیکن میرے دوست کا اس پیچیدہ خطے کی ناگوار جغرافیائی سیاست پر کرب قابلِ فہم ہے۔ جنوبی ایشیا‘ جو دنیا کی کل آبادی کے پانچویں حصے کا وطن ہے‘ دنیا کو بہت کچھ دیتا ہے لیکن یہ خود اختلافات‘ غربت اور غیر ترقی یافتہ ہونے کی بنا پر پسماندگی کا شکار ہے۔ یکساں مون سون کے باوجود یہ دنیا کا غریب ترین خطہ ہے جس کے عوام کی اکثریت انتہائی غربت اور غیر انسانی حالات کی چکی میںپس رہے ہیں۔ سارک کے آٹھ ممبران میں سے پانچ… افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ بھوٹان‘ مالدیپ اور نیپال اقوام متحدہ کے کم ترین ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ جنوبی ایشیا کی بیرونی تجارت خطے کی مجموعی جی ڈی پی کا عشر عشیر اور اس کی باہمی تجارت کا حجم نہ ہونے کے برابر ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ افغانستان کے سوا تمام سارک ممالک کی سرحدیں بھارت سے ملتی ہیں لیکن ان کی آپس میں سرحدیں نہیں ملتیں۔ اس سے ٹرانزٹ ٹریڈ مشکل ہوجاتی ہے کیونکہ بھارت کی سرحدوں سے بچ کر گزرنے کا کوئی راستہ دستیاب نہیں؛چنانچہ بھارت کو خطے کی باہمی تجارت پر کنٹرول حاصل ہے۔خطے میں بھارت کے مرکزی جغرافیائی محل وقوع کے باعث سرحدی تصادم اور پانی کے تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں اور ان سب میں بھارت ضرور شامل ہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا کوسکیورٹی کے جو پیچیدہ چیلنج درپیش ہیں انہوں نے دو جوہری ممالک بھارت اورپاکستان کے لیے منحوس شکل اختیار کررکھی ہے جو ہمیشہ باہم متصادم رہتے ہیں۔آج دنیا میں کوئی خطہ جنوبی ایشیا سے زیادہ غیر مستحکم اور بے یقینی کا شکار نہیں جس کا سبب بھارت پاکستان تصادم اور نائن الیون کے بعد ان کا مرکزی کردار ہے۔ان دونوں ملکوں میں دیرپا امن کے قیام کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے بلکہ بدستور گوناگوں مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن میں حل طلب تنازعات ،انسانی المیے ، انتہا پسندی ، دہشت گردی اور غربت کی بنا پر تشدد شامل ہیں۔ ان مسائل کی پیچیدگی کا باعث جنوبی ایشیا کی پرآشوب تاریخ ، جغرافیائی اہمیت ، اقتصادی استعداد اور مسائل کی سنگینی ہے جو پوری دنیا کی سلامتی پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس خطے کو تصادم سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔جنوبی ایشیا کی منفرد سیاسی تاریخ اور اس کے باشندوں کی متنوع تہذیبی روایات ،تصادم نہیں دیرپا امن کی متقاضی ہیں۔اس خطے کو تنازعات کے حل کے لیے باہمی تعاون پر مبنی رویے اور مذاکرات کی ضرورت ہے جو ذمہ داری ، تحمل اوربردباری کے علاوہ ’’ علاقائی وابستگی‘‘ کے جذبے کے ساتھ ہوں۔میرا کٹھمنڈو کا دوست یہی چاہتا ہے۔لیکن اسے یہ بھی معلوم ہے کہ 1947ء سے بھارت اپنے رقبے اور مرکزی محل وقوع کی بدولت کم و بیش ’’ علاقائی طاقت ‘‘ کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے اور اسے خطے کے دوسرے ملکوں کی کوئی پروا نہیں۔ عالمی پیمانے پر خطے کے دوسرے ممالک خاص طور پر بنگلہ دیش اور پاکستان چھوٹے ملک نہیں ہیں۔یہ دنیا کے 193 ممالک میں بالترتیب آٹھویں اور چھٹے نمبر پر آتے ہیں۔لہٰذا بھارت کو ایشیا کے جنوب میں واقع آٹھ میں سے ایک ملک قرار دیاجاسکتا ہے ، صرف رقبے کی بنیاد پر اسے بڑی تزویراتی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ آئیے دعا کریں کہ اس سال کا مون سون مہلک سیلاب نہیں لائے گا بلکہ ایک ایسی تازہ علاقائی ہوا لائے گا جو علاقائی مسائل کے پرامن حل کی فضا پیدا کرے گی۔اب وقت آگیا ہے کہ بھرپور تاریخ و تہذیب کا حامل جنوبی ایشیا اپنے گم شدہ شاندار ماضی کی بازیافت کرے ۔اس خطے کو تصادم کی ضرورت نہیں ، دیرپا امن درکار ہے۔امن بیک چینل سے نہیں بلکہ رویوں میں مثبت تبدیلی لانے سے آئے گا۔اس مقصد کے لیے ذمہ داری ، برداشت اور مسائل حل کرنے کا عزم درکار ہے۔اسی صورت میں ہی ہم جنوبی ایشیا کی مشترکہ ملکیت ، تہذیبی ورثے ، تاریخی تجربے ، ثقافتی تنوع اور یکساں اقدار و مفادات سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔لیکن کیا بھارت کے بارے میں ہمیں ایسا یقین ہے؟ (کالم نگار پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں