"SAC" (space) message & send to 7575

ہیری پوٹر کی تلاش

رواں گرمیوں کے دوران میں نے ہیری پوٹر سیریز کے پہلے تین حصے پڑھے اور چوتھا حصہ Harry Potter and the Goblet of fireابھی شروع ہی کیا ہے۔ ان کہانیوں کا تخیل اور پلاٹ بے حد متاثر کن ہیں۔ یہ کہانیاں ہمارے ملک کی ہمیشہ سے غیر یقینی رہنے والی صورت حال سے حیران کن حد تک مشابہ ہیں۔ مجھے اس سے بھی زیادہ حیرت کچھ عرصہ قبل اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبر سے ہوئی کہ کراچی کی ایک گیارہ سالہ طالبہ نے کلاس ٹیسٹ میں، ان کہانیوں کے کرداروں کا موازنہ اپنے اردگرد کے ماحول سے کرتے ہوئے لکھا کہ ہمارے ملک کے صورت حال ایسی ہے جیسے ان کہانیوں کا ایک منفی کردار لارڈ وولڈ مارٹ جادو کی وزارت پر قبضہ کر کے ہیری پوٹر کو پکڑنے کی مہم شروع کر دیتا ہے۔ مبینہ طور پر اس طالبہ نے یہ بھی کہا کہ ’’ ہم اس امید میں رہتے ہیں کہ ہمارے آس پاس کہیں ہیری پوٹر موجود ہے جو اچانک نمودار ہو گا اور ہمیں بچا لے گا۔‘‘ کیسا المیہ ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے قیام کو ’’بیسویں صدی کا معجزہ‘‘ قرار دیا گیا تھا اور جو آج ایک جوہری طاقت بھی ہے، ہیری پوٹر کا منتظر ہے۔ ہم کاسۂ گدائی پکڑ کر ناقابل اعتماد دوستوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور اپنی بچی کھچی خود مختاری کا بھی سودا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایلس اِن ونڈر لینڈ(Alice in Wonderland) کی طرح ہمیں پروا ہی نہیں کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ طویل آمرانہ دور کے بعد ہمیں ایسی حقیقی جمہوریت کی جانب لوٹنے کا موقع ملا جو عوام کی خواہشات سے ہم آہنگ ہو۔ افسوس ہے کہ ابھی تک ہم پراگندہ خیال ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ چیشائر کیٹ (Cheshire cat) آکر ہمیں راستہ دکھائے (Cheshire cat لوئی کبرول کے ناول Alice\'s Adventure in Wonderlandکا کردار ہے) ہمارا اصل مسئلہ سویلین حکام کی ناکام حکمرانی اور مسلسل عدمِ تحفظ کا احساس ہے۔ ہماری آخری حکومت نے تمام حدیں پار کر کے کرپشن اور نا اہلی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ پہلے دن سے ہی اس نے تزویراتی رہنمائی اور منصوبہ بندی پر توجہ نہ دی اور اقتدار میں رہنے کے لیے غیر ملکی حکومتوں کو مداخلت کی اجازت دیتی رہی۔ حکومت کی اس حالت کے پیش نظر یہ کوئی حیران کن بات نہیں تھی کہ ہمیں بد نام زمانہ میمو گیٹ سکینڈل کے تجربے سے گزرنا پڑا۔ مبینہ طور پر تزویراتی وژن سے محروم ایک منتخب حکومت فوج پر بالا دستی قائم کرنے کے لیے ایک غیر ملکی حکومت سے مدد کی خواستگار ہوئی۔ ہم میں سے وہ‘ جو اُس پہلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور جو پاکستان کے قیام اور اس کی تعمیر کے اوّلین تجربے سے گزرے، کربناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ قائداعظمؒ نے اس ملک کے لیے کیا خواب دیکھا تھا اور ہم آج ایک قوم اور ایک ریاست کے طور پر کہاں کھڑے ہیں؟ افسوس! بحیثیت قوم، ہم ملک کو ان کے وژن کے مطابق تعمیر کرنے میں ناکام رہے۔ مختلف النوع مسائل جو ناقص کارکردگی کی حامل حکومتوں، بار بار سیاسی حکومتوں کی برطرفی، طویل آمرانہ حکومتوں اور اداروں کے مفلوج ہونے کے باعث پیدا ہوئے، ہمیں غیر مختتم بحرانوں میں دھکیل دیا۔ قائداعظمؒ یا میسور کے دیو مالائی حکمرانوں کی طرح کے رہنما دستیاب نہ ہونے کے باعث ہمارے سویلین اور فوجی حکمران اس بات کا مکمل ادراک نہ کر پائے کہ ہم آزاد اور خود مختار ہیں؛ چنانچہ انہوں نے اپنی تقدیر کسی نہ کسی شکل میں غیر ملکی آقائوں کے حوالے کرنے کا کوئی موقع نہ چھوڑا۔ آزادی کے بعد ہمارے حکمرانوں کی جو نسل آئی وہ آزادی کی تقدس اور ملک کی جغرافیائی سلامتی کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ نہ سکی۔ کئی دہائیوں سے ہمارے حکمران رحیم یار خان، بہاولپور اور بلوچستان سمیت جنوبی پنجاب کی لاکھوں ایکڑ اراضی سالانہ شکار کے لیے عرب شہزادوں اور شیوخ کو الاٹ کرتے چلے آ رہے ہیں جس کا مقصد ان کی خوشنودی اور ذاتی مفادات کے حصول کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ دنیا کے چھٹے بڑے ملک اور ایک جوہری طاقت کو ہمارے خطے کی دو ہمسایہ سلطنتیں اور امارتیں دوسروں کے ٹروجن ہارس بن کر باہر سے کنٹرول کر رہی ہیں۔ (Trojan Horsesلکڑی کے وہ گھوڑے تھے جنہیں یونانیوں نے ٹرائے شہر میں داخل ہونے کے لیے استعمال کیا تھا۔) یہ ریاستیں ہماری پوری سیاسی اشرافیہ کا دوسرا گھر ہیں۔ ہمارے حکمران اُمور حکومت کے بنیادی اصول طے کرنے اور ایک آزاد قوم کی طرح اپنی زندگیوں کا خود فیصلہ کرنے کے بجائے مٹی کے مادھو بنے رہے اور یہ فیصلہ نہ کر پائے کہ ہماری قوم کی حقیقی منزل کیا ہے۔ انہوں نے خلیج کے اُن بدئوں سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا جنہوں نے تین دہائیوں سے بھی کم عرصے میں اپنی سلطنتوں اور امارتوں کو ماڈل ریاستیں بنا دیا۔ انہوں نے یہ کام جمہوریت، ثقافتی تنوع یا نوکر شاہی کے اُس عفریت کی مدد سے نہیں کیا جو ہمیں اپنے ملک کے وفاقی اور صوبائی سیکرٹریٹس میں نظر آتا ہے۔ اپنے مستقبل کے بارے میں بے یقینی کے شکار ہو کر ہم ابھی تک اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا بحران ہمیں جکڑ لیتا ہے جس کے نتیجے میں ہم آج تک یہ تعین نہیں کر پائے کہ بحیثیت ایک قوم ہمارا نصب العین اور اس کے حصول کے لیے لائحہ عمل کیا ہے۔ بد قسمتی سے ہم کبھی بحرانوں سے پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ ہم پہلے ہی اپنی روایتی ابتری کے شکار تھے کہ ایک تنہا مسلح مہم جُو نے اسلامی جمہوریہ کے دارالحکومت میں ڈرامہ رچا دیا۔ اسلام آباد کے بلیو ایریا میں یہ ڈرامہ غلطیوں کے المیے(Tragedy of errors) سے کم چونکا دینے والا نہیں تھا۔ اسے پوری قوم نے کئی گھنٹوں تک ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر دیکھا یہاں تک کہ غلطیوں کے طربیے(Comedy of errors)کے طرز پر اس کا اختتام ہوا۔ حکومت کے مطابق یہ وقوعہ بین الاقوامی کرداروں کی شمولیت کے ساتھ بازنطینی قسم کی سازش کا کرشمہ ہو سکتا ہے۔ ہم ملک میں پہلے ہی بہت سازشیں دیکھ چکے ہیں۔ ہمارے ہاں بے نشان سانحات (المیوں) کی ایک پوری تاریخ موجود ہے۔ ہم ان سازشوں اور المیوں کے ماسٹر مائنڈز کو تلاش نہیں کر سکے۔ ہماری داستان ایک ایسے سماج کی ہے جو پینسٹھ برس سے دائروں میں بے مقصد گھوم رہی ہے۔ ہم ابھی تک ایک ایسا سیاسی اور انتظامی نظام وضع نہیں کر سکے جو ہمارے حجم کے کثیر نسلی اور کثیر لسانی آبادی والے ملک کے لیے موزوں ہو۔ ہم ا پنے نظام کی کمزوریاں دور کرنے اور اپنی قومیت کو متحد اور مضبوط کرنے والے عناصر کو تقویت دینے کے بجائے ہمیشہ ذاتی مفادات پر مبنی معمولی نوعیت کی تراغیب کے آگے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ 1970 ء کے عام انتخابات میں لوگوں نے آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا جو اظہار کیا اُسے نظر انداز کردیا گیا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے ہم نے اس کے فوجی حل کا راستہ اختیار کیا۔ یہ سیاسی موقع پرستی کی انتہا تھی جو نہ صرف فوج کی ہزیمت آمیز شکست پر منتج ہوئی بلکہ اس سے ملک کا ایک بازو بھی ہم سے جدا ہو گیا۔ یہ بدترین صورت حال تھی جسے دنیا کے کسی ملک کو سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ پھر بھی ہم نے اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ ہم وہی غلطیاں پھر دہرا رہے ہیں۔ اس دوران ہمارا ملک ایسا دیرپا جمہوری نظام وضع کرنے میں ناکام رہا جو آئین کی بالادستی اور اداروں کے وقار پر مبنی ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ریاستی ادارے اور قومی وقار کو بے انتہا نقصان پہنچا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت عوام کی بھرپور حمایت سے برسراقتدار آئی ہے۔ اس کی قیادت تجربہ کار اور بالغ نظر ہے اور یہ قوم کے سامنے ایک واضح منشور پیش کر چکی ہے۔ اسے ملکی تاریخ کے مشکل ترین اور انتہائی سنگین موقع پر قوم کی قیادت کرنے کا موقع ملا ہے۔ ملک کو بحران میں مبتلا کرنے والے بہت سے مسائل جو اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کی پیداوار ہیں اُسے ورثے میں ملے ہیں اور ایک نئی منتخب حکومت کے لیے ان پر قابو پانا آسان کام نہیں۔ اس حکومت سے کسی کو معجزوں کی توقع نہیں لیکن لوگ اس سے اتنی امید ضرور وابستہ کیے ہوئے ہیں کہ ان کے اقتدار کے پہلے سو ایام میں ان کی زندگیوں کو درپیش روز مرہ مسائل کا کسی حد تک مداوا ہو جائے گا اور انہیں یک گونہ سکون نصیب ہوگا۔ ابھی تک مسائل سے نکلنے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اور معنی خیز گورننس کے روڈ میپ کا انتظار ہے۔ ہمیشہ اپنے اندرونی مسائل کا الزام ’’باہر والوں‘‘ کے سر منڈھنے کے بجائے ہمیں اپنے اندر یہ اعتراف کرنے کی جرأت پیدا کرنی چاہیے کہ ہمارے اپنے انداز حکمرانی میں کچھ بنیادی خرابیاں ہیں۔ اپنی تاریخ کے اس سنگین موڑ پر ہم ایک باوقار ملک اور قوم کی حیثیت سے اپنے آپ کو وقت کے رحم و کرم یا ناقص نظام کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم معصومانہ انداز سے اس بات پر بھی یقین نہیں کر سکتے کہ سب کچھ جادوئی انداز یا قدرتی طور پر ازخود ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا۔ ہمیں نام نہاد اشرافیہ کی سربراہی میں فرسودہ اور فضول قسم کے سٹیٹس کو سے نجات حاصل کرنے کے لیے نقائص سے بھرپور موجودہ انتظامی نظام میں زبردست تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ (کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں