پاکستان اور بھارت جمہوری سیاسی عمل کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر دو آزاد ریاستوں کے طور پر وجود میں آئے۔ دونوں کو پارلیمانی روایت ورثے میں ملی اور آزاد حیثیت سے اُس جمہوری راستے پر سفر کا آغاز کیا جو ان کے لیے طے شدہ تھا۔ بھارت اپنی جمہوری روایت اور کلچر پر کاربند رہا اور ہر پانچ سال بعد باقاعدگی سے انتخابات منعقد کراتا رہا۔ پاکستان کو فوجی حکمرانی کے صدمے سے دوچار ہونا پڑا اور مختصر جمہوری ادوار میں بھی حقیقی جمہوریت کو پروان نہ چڑھایا جاسکا۔ دونوں نو آزاد ملکوں کی تاریخ مشترک ہے لیکن تعجب ہے کہ بھارت مکمل طور پر ایک جمہوری ملک ہے لیکن پاکستان ویسا نہیں بن سکا۔ اس سوال کا معقول جواب تلاش کرنے کے لیے تاریخ پر نظر ڈالنے کے بجائے کچھ لوگ اپنے مخصوص طرزِ فکر کے اسیر ہو کر بھارت کی جمہوری روایت کو ہندومت اور مطلق العنانیت کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ نہیں۔ جمہوریت کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں؛ اگرچہ سفید فام ثروت مند معاشروں میں یہ زیادہ پھلی پھولی۔ ہمارے لیے بھی یہ کافی نہیں کہ ہم پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کی ذمہ داری ناقص سیاسی قیادت یا فوجی حکومتوں پر ڈال دیں۔ دراصل گہری نوعیت کے کئی تاریخی‘ سماجی و ثقافتی اور جغرافیائی و سیاسی عناصر آزادی کے بعد پاکستان میں جمہوری روایت کو ایک خاص رنگ دینے میں کردار ادا کرتے رہے۔ آغاز کار یوں ہوا کہ ریاستِ پاکستان کو سازگار حالات ہی دستیاب نہ ہوئے۔ اسے نہ صرف نوآبادیاتی نظام سے شروعات کرنا پڑی بلکہ 1947ء میں پیدا شدہ ہنگامی حالات میں پورا حکومتی ڈھانچہ تیار کرنا پڑا۔ اس کے برعکس بھارت کو ایک مستحکم سیاسی روایت اور دہلی میں بیوروکریسی کی مکمل طور پر ایک مربوط مشینری ملی۔ اسی طرح بھارت کو کانگریس پارٹی کی شکل میں ایک چھوٹی پارلیمنٹ بھی مل گئی جو جمہوری انداز میں بحث کرنے اور معاملہ بندی کی عادی تھی۔ ادھر پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ پر اُن مراعات یافتہ جاگیردار خاندانوں کا غلبہ ہو گیا جو تقسیم سے پہلے انگریزوں کی سرپرستی میں پروان چڑھے تھے اور اتنے طاقتور تھے کہ قومی معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکیں۔ پاکستان کے مقابلے میں آزادی کے وقت بھارت میں جاگیردارانہ اور قبائلی اقتدار کا نظام نہیں تھا؛ چنانچہ وہ جلد ہی بڑے پیمانے پر اراضی کی اصلاحات اور نوابی ریاستیں ختم کر کے سیاست سے مراعات یافتہ طبقات پالنے کے کلچر سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس طرح بھارت نے کسی رکاوٹ کے بغیر جمہوری راستے پر چلتے ہوئے 1950ء میں ایسا آئین وضع کر لیا جس کے تحت ضروری سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کر لی گئیں۔ ادھر پاکستان میں اس کے بانی بہت جلد قوم کو داغِ مفارقت دے گئے۔ ستمبر 1948ء میں قائداعظم کی وفات ہوئی تو آزاد مملکتِ پاکستان ایسے کرپٹ سیاسی ٹولے کے ہاتھوں میں آ گئی جو مفاد پرست‘ جاگیردارانہ اندازِ زیست کا عادی اور موقع پرست تھا اور انہی لوگوں نے تازہ تازہ آزاد ہونے والے ملک کا بیوروکریسی کے ذریعے انتظام و انصرام سنبھال لیا۔ تاریخی طور پر بھی پاکستان کو جمہوری روایات کو فروغ دینے کے قابل نہ بننے دیا گیا۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں انگریزوں نے پورے انڈیا میں متعدد صوبوں کو مرحلہ وار اختیارات تفویض کرنا شروع کردیے تھے‘ لیکن شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبرپختونخوا) اور پنجاب میں یہ اصلاحات نہ ہونے دیں۔ 1947ء میں برصغیر تقسیم ہوا تو پاکستان کا بیشتر حصہ انہی دو صوبوں پر مشتمل تھا۔ گویا بھارت کو انگریز راج سے جو صوبے ملے ان میں سے بیشتر‘ کسی حد تک جمہوری تجربے سے گزر چکے تھے‘ مگر پاکستان کو دو ایسے صوبے ملے جن میں سے بڑے پیمانے پر لوگ فوج میں تھے‘ لہٰذا ان میں بھارت جیسی جمہوری روایت نہیں تھی۔ نو آبادیاتی نظام سے ملنے والا یہ بدنما ورثہ‘ ملک کی جاگیردارانہ سیاسی جماعتیں‘ سماجی رجعت پسندی اور بیرونی اثرات باہم ملے تو ملک کا جو نقشہ بنا اُس میں فوج کو اپنا حجم بڑھانے اور ملکی معاملات پر اپنا مضبوط اثر بڑھانے کا موقع مل گیا۔ ایک اور اہم عنصر جس نے پاکستان میں جمہوریت کے فروغ میں رکاوٹ ڈالی وہ اس کا جیوپولیٹیکل محل وقوع تھا جس نے نہ صرف آزادی کے بعد بطور ایک ریاست اس کے تشخص کی تشکیل کی بلکہ اس کے اندرونی اور بیرونی طرزِ عمل کا بھی تعین کیا۔ تقسیم کے وقت خونریز فسادات کے غم و اندوہ اور مہاجرین کو بسانے جیسے کٹھن حالات سے دوچار نئی ریاست کو سرد جنگ کے بعد کے تلخ جیوپولیٹیکل حقائق کا سامنا کرنا پڑا۔ خصوصاً برطانیہ آخری وقت پر ایسے سرحدی تنازعات چھوڑ گیا جن کے باعث بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ اس طرح پاکستان کو مسلسل ایسے چیلنجوں کا سامنا رہا جن سے شاید دنیا کے کسی دوسرے ملک کو نہیں گزرنا پڑا ہوگا۔ پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کی ایک وجہ امریکہ کے ساتھ طویل تعلقات بھی ہیں جو ہمیشہ مطلق العنان حکمرانوں کو مضبوط بنانے اور بین الاقوامی سطح پر انہی کو اپنا محبوب ترین ساتھی بنانے کی شہرت رکھتا ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کے ساتھ جو ہوا، تاریخ کا یہ پہلو اس کی وضاحت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ آزادی کے بعد پاکستان میں سیاست اور حکومتیں اشرافیہ کے ایسے طبقوں کی یرغمال رہیں جنہیں ملک میں سیاسی آزادیوں سے ازلی عداوت تھی۔ فوجی اور سول بیوروکریسی تو حقیقی اقتدار پر قابض رہی لیکن ہم نے دیکھا کہ سیاستدانوں کا ایک گروہ بھی سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے مختلف ادوار میں اقتدار کے ایوانوں میں بار بار نظر آتا رہا۔ مسلم لیگ ٹوٹنے کے بعد جاگیردار خاندانوں کے افراد مختلف ادوار میں مختلف ناموں اور مختلف سیاسی جھنڈوں کے ساتھ اقتدار میں رہے، کبھی فوجی آمروں کے ساتھ اور کبھی ان کے بغیر۔ منتخب رہنما ہونے کی حیثیت میں انہوں نے کبھی ایسی جمہوری ریاست کو فروغ دینے کی امید روشن نہیں کی جو پاکستان کے تمام شہریوں کو سماجی و اقتصادی انصاف اور صاف ستھری انتظامیہ فراہم کرے۔ اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں نے نظام کی کمزوریاں دور کرنے اور قوم کو متحد کرنے والے عناصر کو تقویت دینے کے بجائے ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے کام کیا۔ ان کی دلچسپی صرف سیاسی اقتدار میں رہنا اور اپنے ذاتی اور اپنے جیسے اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ رہا۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی اقتدار کی سیاست میں جاگیرداروں اور قبائلی نظام کی جڑیں بہت گہری ہیں جو نظام کو تبدیل نہیں ہونے دیتیں‘ اس لیے کہ تبدیلی انہیں راس نہیں آئے گی۔ انہوں نے ہمیشہ ملک میں اصلاحات کی مخالفت کی کیونکہ انہیں خوف لاحق رہتا ہے کہ اس سے ان کا اقتدار اور اثرورسوخ ختم ہوجائے گا۔ اس پس منظر میں ملک میں ایسا مضبوط جمہوری نظام نہیں بن پایا جو آئین کی بالادستی اور اداروں کے وقار پر مبنی ہو۔ مذکورہ حالات میں سب سے زیادہ نقصان ریاستی اداروں، قومی یکجہتی، قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کو پہنچا۔ ابھی تک ملک قومی تشخص کا تعین کرنے اور ایک ایسا سیاسی نظام وضع کرنے کی جدوجہد کررہا ہے جو اس کے مختلف نسلی اور لسانی گروہوں کے لیے قابل قبول ہو۔ پاکستان میں بیس سے زیادہ زبانیں اور تین سو سے زیادہ مقامی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ ہمارا آئین صوبوں کے حجم میں عدم توازن اور ان میں سیاسی اور اقتصادی اختیارات میں امتیاز کا کوئی حل پیش نہیں کرتا۔ ہمارا معاشرہ چھیاسٹھ برس سے بے مقصد دائروں میں گردش کررہا ہے۔ ملکی سیاست کے پرانے غاصبوں، فرسودہ سماجی و سیاسی نظام اور اشرافیہ کے زیر تسلط اقتدار سے نجات حاصل کرنے کے لیے ملک کے موجودہ نقائص سے بھرپور نظام میں فوری طور پر بنیادی تبدیلیاں لانا ناگزیر ہوچکا ہے۔ اس مقصد کے لیے عوامی تحریک کی ضرورت ہے جو ایک نئے، مضبوط اور مستحکم پاکستان کے لیے چلائی جائے، ایسا پاکستان جو استحصال اور خوف و ہراس سے پاک ہو اور اس قابل ہو جوعدم مساوات، کرپشن، جاگیرداری اور اشرافیہ کی حکمرانی کا خاتمہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ جمہوری روایت میں مایوس کن ریکارڈ رکھنے کے باعث ہمیں بحیثیت قوم اس آزمائش کا سامنا ہے کہ ہم کس طرح پاکستان کے رہنما اصول بحال کرتے اور اپنے عہد کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ (کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)