"SAC" (space) message & send to 7575

غلط دروازوں پر دستک

آج کی دنیا میں کسی کو ’’لیڈر‘‘ کہہ دینا آسان مگر لیڈر کا ملنا بہت مشکل ہے۔ اب قوموں کی رہنمائی لیڈر نہیں کرتے۔ جمہوریت کے چیمپئن کہلانے والوں سمیت تمام ملکوں پر اخلاقی اصولوں کے تحت حکومت کرنے کے دن لد چکے ہیں۔ مسلم دنیا میں بطور خاص‘ جمہوری اور جوابدہ قیادت کے سوتے مکمل طور پر خشک ہو چکے ہیں۔ آج اہداف‘ ان کے حصول کے ذرائع کا تعین کرتے ہیں چاہے انہیں اختیار کرنے سے جمہوری روایات‘ بنیادی انسانی حقوق اور ان کی آزادیوں کا جو بھی حشر ہو جائے۔ تاریخی طور پر‘ قیادت اور حکمرانی کی مختلف شکلیں‘ مختلف سماجی نظام اور قانونی انتظام کی مناسبت سے وضع کی جاتی رہی ہیں۔ قیادت ہمیشہ سے ایک فرد کی شخصیت‘ سماج کی ضروریات و توقعات اور وقت کے تقاضوں کا ایک پیچیدہ سا آمیزہ ہوتی ہے۔ حقیقی دنیا میں مثالی ریاست وجود پذیر نہیں ہو سکتی لیکن رُوسو نے اپنے ’’سماجی معاہدہ‘‘ (Social Contract) میں ایک مثالی ریاست کا یہ تصور دیا ہے کہ اس کی بنیاد جمہوری نظام پر استوار ہو اور اختیار کا منبع عوام ہوں‘ کیونکہ ’’عمومی آرزُو‘‘ کے مالک و مختار صرف وہی ہوتے ہیں۔ ان کے نقطہ نظر سے ایک مقبول منتخب حکومت ہی عوامی خواہشات کو عملی جامہ پہنا سکتی ہے۔ صدیوں کی آزمائش کے بعد جمہوریت کو عالمی سطح پر ترجیحی نظام کا درجہ ملا اور آج ہمارے عہد میں اسی ماڈل کو قبول عام کی سند حاصل ہے۔ لیکن تاریخ ایسی سیاسی شخصیات کی داستانوں سے بھی پُر ہے جنہوں نے نہ صرف اپنی ذات کو ریاست کے مترادف قرار دے لیا بلکہ حکمرانی کو اپنی انا اور افتادِ طبع کے تابع رکھا۔ آج بھی من مانی کرنے والے حکمرانوں کی کمی نہیں۔ ان میں ہر قسم کے حکمران شامل ہیں… منتخب‘ غیر منتخب‘ سویلین اور فوجی… ان سب کے سائے دنیا بھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہمیں قیادت اور حکمرانی کے بحران سے کبھی چھٹکارا نہیں ملا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں کئی دہائیاں پارلیمانی نظام رائج رہا لیکن ہماری پارلیمنٹ نے کبھی ایک خودمختار ادارے کے طور پر کام نہیں کیا اور نہ ہی ملک کی فیصلہ سازی میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کیا۔ اس نے کبھی قانون سازی کی‘ نہ مختلف آمروں کی جانب سے آئین کے ساتھ کیے گئے کھلواڑ کو درست کیا۔ صد افسوس کہ ہمارے سیاستدانوں کا وتیرہ اقتدار میں آنے کے باوجود بھی یہی رہا اور اس وقت بھی وہی ہے۔ ہمارے پارلیمانی‘ صدارتی یا موجودہ طرزِ حکمرانی کی نظیر کسی سیاسی فلسفے یا ہمعصر تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہم نے محض پارلیمانی لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ دنیا میں واحد پارلیمنٹ ہماری ہے جو فرد واحد کے اشارۂ ابرو کے مطابق کام کرتی ہے۔ قانون سازی اس کی استعداد سے باہر اور ارکان کے مزاج سے ناشناسا ہے۔ انہوں نے کبھی اپنے ذاتی مفاد سے بالا ہو کر قانون سازی کی ہی نہیں۔ وہ جمہوریت کے نام پر ایسے کام کر رہے ہیں جن کا دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں تجربہ نہیں کیا گیا۔ ہمارے حکمرانوں کا اس سے بھی بدتر طرزِ عمل یہ ہے کہ وہ بیرونی دوروں کے بہت شوقین ہیں۔ وہ اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ملک کے مسائل اندرونی ہیں اور ان کا حل بھی ملک کے اندر موجود ہے۔ انہیں اس مقصد کے لیے ابوظہبی‘ بیجنگ‘ دبئی‘ لندن‘ ریاض‘ نیویارک یا واشنگٹن جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے اپنے نو سالہ دورِ اقتدار میں اپنا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ’’مارکو پولو‘‘ جیسے سربراہ مملکت کے طور پر درج کرایا۔ ان کے بعد جمہوری طور پر منتخب صدر آصف علی زرداری بھی بیرونی دوروں کے دلدادہ تھے۔ ان کے دور میں بھی مارکو پولو کلچر عروج پر رہا۔ اس سال کے انتخابات کے بعد اس نوعیت کی کچھ چیزوں میں تبدیلی آ جانی چاہیے تھی۔ کم از کم چیلنجوں کی جو سنگینی اور پیچیدگی مسلم لیگ ن کی حکومت کو درپیش ہے‘ اس کا تقاضا یہی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف جنہیں ’’آگ اور خون‘‘ ورثے میں ملا‘ اقتدار سنبھالنے کے بعد کم از کم ابتدائی چند مہینے ملک کے اندر رہ کر عوام کے دکھوں اور غموں کا مداوا کرنے کی کوشش میں گزارتے۔ انہیں باور کرنا چاہیے کہ اب یہ ملک وہ نہیں رہا جس پر انہوں نے 1990ء کی دہائی میں دو بار حکومت کی تھی۔ آج کے پاکستان کو غیر معمولی نوعیت کے چیلنجوں کا سامنا ہے جو یکسر نئے طرزِ حکمرانی کے متقاضی ہیں۔ نوازشریف کو جس دلدل سے ملک کو نجات دلانے کے لیے منتخب کیا گیا وہ اس قدر تشویشناک ہے کہ حکومتی اتھارٹی اور رٹ کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا۔ اس سنگین حقیقت کا اظہار خودکش حملوں اور بم دھماکوں کی صورت میں ہو رہا ہے۔ دہشت گرد مساجد‘ گرجا گھروں اور جنازگاہوں کو نشانہ بنا کر ہزاروں بے گناہ لوگوں کا خون بہا رہے ہیں۔ پشاور کا سانحہ وزیراعظم نوازشریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68 ویں اجلاس میں شرکت کی خاطر نیویارک روانگی کے چند گھنٹوں کے بعد پیش آیا۔ اس سے پہلے دو بڑے سانحے بھی جُون میں ان کے دورۂ چین اور ستمبر میں دورۂ ترکی کے موقع پر ہوئے۔ یقینا ان حملوں کے وقت کا چنائو کرنے میں کوئی پیغام پوشیدہ تھا۔ غم و اندوہ کے ان لمحات میں وزیراعظم نیویارک کا دورہ ترک کر کے واپس وطن آ سکتے تھے؛ خصوصاً اس لیے بھی کہ اس دورے کے دوران ان کی امریکی صدر اوباما سے ملاقات نہیں ہونی تھی۔ وہ اس ملاقات کے لیے رواں مہینے کے آخر میں دوبارہ واشنگٹن جائیں گے۔ چار ماہ میں یہ ان کا پانچواں غیر ملکی دورہ ہوگا۔ اگرچہ ہمارے موجودہ بحران کے حوالے سے واشنگٹن کے دورے کی اپنی اہمیت ہے‘ لیکن وزیراعظم نوازشریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے نیویارک کا دورہ چھوڑ سکتے تھے کیونکہ اس (اجلاس) کی حیثیت ایک رسمی سی سالانہ تقریب سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ہر سال اس اجتماع میں وہ سربراہانِ ریاست و حکومت شریک ہوتے ہیں جن کے ملکوں کو بڑے مسائل کا سامنا نہیں ہوتا اور وہ معمول کی مصروفیات میں وقفہ کرنا اور آرام و تفریح کے چند دن گزارنا چاہتے ہیں۔ نوازشریف ہرگز حکمرانوں کے اس طبقے سے تعلق نہیں رکھتے۔ پھر جنرل اسمبلی میں اپنی پندرہ منٹ کی تقریر میں انہوں نے عالمی اہمیت کے تقریباً تمام معاملات پر بات کی جن کا ان کی حکومت کو درپیش موجودہ چیلنجوں کی پیچیدگی اور سنگینی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے کشمیر‘ افغانستان‘ فلسطین‘ شام‘ اقوام متحدہ میں اصلاحات یا بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات کے بارے میں جو کچھ کہا وہ ان معاملات پر ہمارے جانے پہچانے موقف کا اعادہ تھا۔ ڈرون حملے واحد نیا ایشو تھا جن کا ملک کی موجودہ صورتحال سے براہِ راست تعلق بنتا تھا‘ لیکن جنرل اسمبلی کی تقریروں میں اس طرح کے رسمی حوالے عملی نتائج کا سبب نہیں بنتے۔ ہمارے ملک کی خوفناک صورت حال کے تناظر میں دنیا زیادہ دلچسپی سے یہ سننا چاہتی ہوگی کہ وزیراعظم نوازشریف اپنے ملک میں تسلسل سے ہونے والی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کون سا واضح روڈ میپ پیش کرتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے جنرل اسمبلی کی تقریر میں پوری ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے۔ انہوں نے یہ بات ہمارے وزیراعظم کی تقریر میں تنازع کشمیر کے تذکرے کے جواب میں کہی ہوگی‘ لیکن وہ سیاق و سباق سے یکسر دُور نہیں ہوئے۔ ہمیں یہ تلخ حقیقت قبول کرنے کے لیے اپنا جائزہ خود لینا چاہیے۔ آج دنیا میں کسی دوسرے ملک کو پاکستان سے زیادہ خطرناک نہیں سمجھا جاتا‘ اسے دنیا بھر میں سب سے زیادہ شورش زدہ ا ور غیر محفوظ ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے ملک کو اس رُسوا کن شہرت سے نجات دلائیں۔ ہمارے حکمران بالعموم‘ اپنے ملک کو لاحق امراض کے علاج کے لیے غلط دروازوں پر دستک دیتے ہیں؛ حالانکہ علاج کہیں اور نہیں گھر کے اندر موجود ہے۔ نوازشریف کو اپنی ترجیحات ازسرنو مرتب کر کے اور طرزِ حکمرانی بدل کر خود کو اپنے پیش روئوں سے ممتاز کر لینا چاہیے۔ جب تک ملک اندرونی طور پر کمزور رہے گا اسے بیرونی خطرات لاحق رہیں گے۔ پاکستان کو سیاسی طور پر مستحکم اور معاشی طور پر مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ خودکفیل بن کر بیرونی دبائو‘ پابندیوں اور استحصال سے محفوظ رہ سکے۔ (کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں