"SAC" (space) message & send to 7575

ہماری خارجہ پالیسی کون چلاتا ہے؟

کسی قوم کی خارجہ پالیسی کا انحصار ہمیشہ اس بات پر ہوتا ہے کہ ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر اس کا نصب العین کیا ہے۔ ایک ملک کی خارجہ پالیسی کا بنیادی تعین اسی سے ہوتا ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے‘ آزادی کے وقت سے ہی ہم Alice in Wonderland کی سی کیفیت میں ہیں (انگریز ناول نگار چارلس لٹویج ڈجسن کا 1865ء میں تحریر کردہ ناول جس میں ایلس نامی لڑکی خرگوش کے بل میں گھُس کر ایک عجیب و غریب دنیا میں پہنچ جاتی ہے جہاں اس کا واسطہ مختلف قسم کی مخلوق سے پڑتا ہے) ہمیں اپنی منزل کا پتہ نہ چل سکا اور یہی چیز ہماری خارجہ پالیسی کا پہلا المیہ ثابت ہوئی۔ 
ہماری خارجہ پالیسی کون چلاتا ہے؟ آج پاکستان کئی اعتبار سے نہایت اہم ملک ہے لیکن اس کا وزیر خارجہ کوئی نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ یقیناً ایسا اس لیے نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں خارجہ امور کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ اصل صورت حال اس کے برعکس ہے۔ دراصل وزیر اعظم نے خارجہ امور کا منصب اس لیے اپنے پاس رکھا ہوا ہے کہ یہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن انہوں نے خارجہ امور کو اس قدر اہمیت کیوں دے رکھی ہے‘ یہ ایک دوسری بات ہے، اس کا خارجہ پالیسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ 
این آر او کی تاریخ ذہنوں میں تازہ ہے‘ اس لیے ہمارے اندرونی معاملات میں بیرونی کردار پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ آج پاکستان میں ہر حکمران جانتا ہے کہ اقتدار میں رہنے کے لیے اس کا بڑی طاقتوں کے ساتھ‘ وہ جو بھی ہوں‘ تعلقات استوار رکھنا ضروری ہے۔ کوئی بھی سیاسی حکمران ایک ایسا وزیر خارجہ مقرر کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا جو واشنگٹن‘ لندن اور شاید سعودی عرب کے ساتھ ملک کے خارجہ امور نمٹائے لیکن وہ اس (حکمران) کے ذاتی اہمیت کے معاملات میں ''قابلِ اعتماد‘‘ نہ ہو۔ سابق صدر زرداری کے تجربے میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ بعض اوقات ایک ہوشیار وزیر خارجہ آپ پر حاوی ہو جاتا ہے۔ 
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں حکمران کے لیے ہمیشہ یہی بہتر ہوتا ہے کہ اس کے ارد گرد اہم عہدوں‘ حتیٰ کہ منصبِ صدارت پر کمتر اہمیت کے حامل افراد متمکن ہوں۔ پیچیدگیوں بھرا یہ مرض صرف ہمارے موجودہ حکمرانوں تک محدود نہیں‘ ماضی کے حکمران بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں۔ اس لیے مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کون چلاتا ہے، کسی بھی دوسرے ملک کی طرح ہماری خارجہ پالیسی بالعموم ہمارا دفتر خارجہ ہی چلاتا لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی بناتا کون ہے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے ہاں فردِ واحد کے ذریعے کوتاہ اندیشی پر مبنی خارجہ پالیسی کے فیصلے کرنے کی ایک تاریخ ہے، اسی طرح کے فیصلوں میں سے بعض پریشان کن حالات‘ یہاں تک کہ ملک ٹوٹنے تک پر منتج ہوئے۔ 
ہر ملک میں خارجہ پالیسی کے بارے میں فیصلے حکومت کی ایگزیکٹو برانچ کرتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن خارجہ پالیسی اس قدر پیچیدہ معاملہ ہے کہ اسے ہرگز کسی فرد یا اتھارٹی کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سرکاری طور پر تو وزارت خارجہ ہی حکومت کی خارجہ پالیسی وضع کرنے کی ذمہ دار ہے لیکن اس میں ملک کی سلامتی اور دفاعی امور سے متعلق وزارتیں اور ادارے بھی شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں خارجہ پالیسی بنانے کے سلسلے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر ہم خارجہ پالیسی کے حقائق کا درست ادراک نہیں رکھتے، پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد کرنے میں فوج یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے بارے میں مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر ملک کی خارجہ پالیسی لازمی طور پر اس کی نیشنل سکیورٹی سے منسلک ہوتی ہے اور یہ نیشنل سکیورٹی کے اداروں کی جانب سے ملنے والی معلومات کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کے مخصوص حالات اور ہمسایہ ممالک کی پیہم دھماکہ خیز صورت حال کے پیش نظر خارجہ پالیسی سے متعلق بیشتر امور پر‘ جن میں قومی سلامتی کے اہم معاملات بھی شامل ہیں‘ وسیع تر مشاورت کے لیے فوج اور خفیہ اداروں سمیت تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی شمولیت لازم ہوتی ہے۔ 
اس عمل میں کچھ بھی معمول سے ہٹ کر نہیں، ہر اُس ملک میں یہی طریقِ کار اپنایا جاتا ہے جسے نیشنل سکیورٹی کے چیلنجوں کا سامنا ہو۔ کسی بھی ملک کے دفتر خارجہ کے پاس انٹیلی جنس اور تجزیہ کاری کا اپنا سیٹ اپ نہیں ہوتا، وہ اپنے خارجہ پالیسی کے اہداف کے حصول کے لیے انٹیلی جنس اور سکیورٹی سے متعلق اطلاعات کے بغیر خلا میں کام نہیں کر سکتا۔ اس لیے یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں کہ نیشنل سکیورٹی کے معاملات پر ہمارے جی ایچ کیو اور انٹیلی جنس ایجنسیوں خصوصاً آئی ایس آئی کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارت کا معاملہ ہو یا افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ کا ایشو‘ ان کے ملک کی سکیورٹی پر براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ اس لیے ان کے بارے میں فیصلے متعلقہ ایجنسیوں کی رائے حاصل کیے بغیر علیحدہ بیٹھ کر نہیں کیے جا سکتے۔
میں اپنے تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ نیشنل سکیورٹی سے متعلق ایشوز کے حوالے سے دفتر خارجہ فوج اور انٹیلی جنس کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے بغیر کام نہیں کر سکتا۔ ہر ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ امریکہ کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بھی اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک کی معاونت کے بغیر کام کر سکتا ہے نہ کرتا ہے۔ امریکہ میں بھی پینٹاگان اور سی آئی اے کی شکل میں اسٹیبلشمنٹ کا وجود ہے جس کا خارجہ پالیسی کے معاملات میں نمایاں کردار ہے‘ ان میں علاقائی اور عالمی سطح کے نیشنل سکیورٹی مفادات شامل ہوتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں ملک کی خارجہ پالیسی کا ایجنڈا سول ـ ملٹری پاور سٹرکچر کی ایک مخصوص شکل طے کرتی رہی ہے جس میں ہماری حکمران اشرافیہ اور خصوصی مفادات کے حامل گروپوں کی نمائندگی نمایاں ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں سول اور ملٹری بیوروکریسی کے مابین طاقت کا توازن تبدیل ہوتا رہا ہے لیکن بھارت‘ چین‘ امریکہ اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور جوہری معاملے پر پالیسیاں انہی کے کنٹرول میں رہی ہیں۔ یہ بات لازمی طور پر تسلیم کر لینی چاہیے کہ ہمارے جیسے محل وقوع والے ملک کے سکیورٹی معاملات میں اہم ترین کردار دوسرے مہذب ممالک کی طرح منتخب حکومت کی اجتماعی نگرانی میں اسٹیبلشمنٹ ہی ادا کرتی ہے۔
ہمارے ہاں کئی بار خارجہ پالیسی پر فوج کی بالادستی رہی‘ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے تمام سویلین سیٹ اپ ایسے سیاسی افراد پر مشتمل رہے ہیں جو سٹریٹیجک وژن یا مطلوبہ ٹیلنٹ سے محروم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلہ فوجی کردار کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ ہمارے سیاستدانوں کا دیوالیہ پن ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے ایک پرانے طبقے کو ہر حکومت میں بالادستی حاصل رہی ہے، یہ طبقہ سول ملٹری بیوروکریسی کی معاونت سے حکمرانی کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ حال ہی میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے بالآخر بیوروکریٹس کی پیشہ ورانہ قابلیت پر انحصار کرنا پڑا ہے۔
روایتی طور پر ہماری سفارت کاری مستحکم عالمی فضا اور اندرونی طور پر نسبتاً پُرسکون حالات اور ہموار اقتصادی ماحول میں بروئے کار آتی رہی ہے، لیکن اب دنیا بدل گئی ہے اور اس کے ساتھ ہم بھی۔ ملک کی دوسری بیوروکریسی کی طرح ہمارے دفتر خارجہ میں بھی خلا پیدا ہو گیا؛ اب یہ پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد کے لیے مطلوبہ پیشہ ورانہ مہارت سے عاری ہے۔ لیکن عوام میں تاثر یہ ہے کہ صرف دفتر خارجہ ہی خارجہ پالیسی چلا رہا ہے اور وہی اس کی کامیابی یا ناکامی کا ذمہ دار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل کھلاڑی پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور وہ نکتہ چینی اور احتساب سے بچ نکلتے ہیں۔ حکومت بھی دفتر خارجہ میں کسی فرد کو قربانی کا بکرا بنا لیتی ہے۔ اس روش کا نتیجہ یہ نکلا کہ دفتر خارجہ کا اثر بتدریج کمتر ہوتا چلا گیا جو آج ہماری خارجہ پالیسی سے صاف ظاہر ہے۔
قطع نظر اس کے کہ ہماری خارجہ پالیسی کون بناتا ہے‘ ایک بات واضح ہے، ہمیں جتنے بھی بیرونی مسائل کا سامنا ہے ان کا ہماری خارجہ پالیسی سے کوئی تعلق نہیں‘ یہ ہماری اندرونی ناکامیوں کا صرف بیرونی اظہار ہے۔ اندرونی طور پر کمزور اور معذور ملک کبھی بیرونی محاذ پر کامیاب نہیں ہو سکتا‘ حتیٰ کہ سوویت یونین جیسی سپر پاور بھی صرف اس وجہ سے سپر پاور نہ رہ سکی کہ وہ اندرون ملک سیاسی اور اقتصادی طور پر کمزور ہو چکی تھی۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں