اس حقیقت سے کوئی انکار نہیںکرسکتا کہ آج مسلم دنیا بحران کی زد میں ہے۔ پوری دنیا کا پانچواں حصہ مسلم آبادی پر مشتمل ہے، وسیع و عریض رقبے پر پھیلے ہوئے 57 ممالک میں مسلمانوں کی حکومت ہے، دنیا میں موجود 70فیصد توانائی اور50 فیصد قدرتی وسائل بھی مسلمان ممالک کے پاس ہیں۔ اتنی بڑی آبادی، رقبے اور وسائل کی مالک مسلم دنیا کو سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے دنیا کی بہت بڑی طاقت ہونا چاہیے تھا؛ لیکن افسوس ، صورت حال اس کے بالعکس ہے۔۔۔۔تمام نعمتوں سے مالا مال مسلم دنیا ہراعتبار سے کمزور ہے۔ دنیا کی جی ڈی پی میں اس کا حصہ صرف 5 فیصد ہے۔ اس کی حیثیت نہیںناقابل ذکر ہے، اس کا نہ صرف عالمی سطح کی فیصلہ سازی میں کوئی کردار ہے بلکہ یہ خود اپنے معاملات طے کرنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہوچکی ہے۔
اس کا اپنا کوئی مضبوط ڈھانچہ ہے نہ موثرادارے ، حتیٰ کہ اس کے پاس جو دولت ہے، اسے عملی طور پر مغرب استعمال کرتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا، بلااستثنیٰ اپنی سیاسی قوت اور بقا کے لیے امریکہ کے رحم و کرم پر ہے۔ مسلم دنیا کے حکمران ہی اپنے ممالک کے سیاسی،اقتصادی اور فوجی اعتبار سے مغرب کے زیر دست ہونے کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے ملکوں کی زمین اور وسائل ان کے ''آقائوں‘‘ کی '' حفاظتی تحویل‘‘ میں ہیں اور وہی ان کے تیل اور سرمائے سے براہ راست استفادہ کرتے ہیں۔ اگرچہ تیل اورگیس کے سب سے بڑے ذخائر کچھ مسلمان ممالک کے پاس ہیں لیکن مسلم دنیا کے بیشتر ممالک دنیا کے سب سے زیادہ غریب اور پسماندہ ہیں۔ بلاشبہ طویل نو آبادیاتی تسلط سے نجات پانے والے اکثر ممالک غریب اور بے وسیلہ تھے ، آزاد ہونے کے بعد وہ مکمل خود مختار ریاستیں بن سکتے تھے لیکن انہیں آج تک حقیقی سیاسی و اقتصادی آزادی نصیب نہیں ہوپائی۔ ان کی تجارت، ان کی تیل کی آمدنی، سرمایہ کاری کے لیے مختص فنڈز، بینکنگ سسٹم ، بچتیں اورامیرمسلمان ممالک کی ہر چیز مغرب کے زیر تسلط ہے۔ معمولی استثنیٰ کے ساتھ تمام مسلمان حکمران سیاسی اعتبار سے نااہل ہیں اور اپنی مطلق العنان حکمرانی کے سوا ملک کے اداروں کو مضبوط بنانے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
حکومتی نظام یا ملکی پالیسیوں اور ترجیحات کاتعین کرنے کے لیے ان کے پاس مضبوط روایات نہیں ہیں، لہٰذا ان نام نہاد خود مختار ریاستوں کی سیاسی زندگی کا ہرپہلو ناپائیدار اور غیر حقیقی ہے۔۔۔۔ان کی خود مختاری حقیقی خود مختاری نہیں، پارلیمنٹ صحیح معنوں میں پارلیمنٹ نہیں، قانون کو قانون نہیںکہا جاسکتا اور اپوزیشن کی جماعتیں حکمران پارٹیوں کی طرح کرپٹ اور اچھی روایات سے تہی دامن ہیں۔ دراصل نو آبادیاتوں طاقتوں نے مقامی حکمرانوں کو اقتدار تو سونپ دیا مگر حقیقی آزادی نہیں دی۔ نوآزاد مسلم ممالک کی حیثیت اقوام متحدہ کا رکن ہونے کے باوجود مغرب کی کالونیوں جیسی ہے اورآج تک انہیں حقیقی آزادی اور قومی وقار نصیب نہیں ہوسکا۔
امن و سلامتی اسلام کی روح ہے لیکن مسلمان اقوام کے پاس اس کا حصہ نہایت قلیل ہے، خصوصاً دوسری جنگ عظیم کے بعدان میںانتشاربڑھ گیا ۔ کچھ مسلمان ممالک میں بیرونی ممالک کے فوجی اڈے قائم ہیں اورکچھ نے بیرونی فورسزکو اپنی سرزمین استعمال کرنے اور اپنی مرضی کے آپریشنز جاری رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو غیروںکے ایما پر پراکسی وار لڑرہے ہیں اور ان میں سے بعض اپنے ہی لوگوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ فلسطین، کشمیر، عراق اور افغانستان کے المیے دنیا میں مسلمانوں کی بے بسی کا مظہر ہیں۔ نائن الیون کے بعد خود اسلام کا چہرہ ایسے افراد یا گروپوں کے مذہب کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جو دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں پیش آنے والے ہر غلط کام کاذمہ دار اسلام کو قرار دے دیاجاتا ہے۔ دنیاکی طاقتوراقوام تشدد اورانتہاپسندی کی لعنت کی آڑ میں مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کو ''عسکریت اور دہشت گردی‘‘ کانام دے کر مسلمان عوام کی تحاریک آزادی کوفوجی غلبے کے ذریعے کچلنے کے درپے ہیں۔
کئی دہائیوںسے مسلمانوں کے مسائل اور معاملات پر توجہ نہیں دی جارہی۔ فلسطین کو نظراندازکردیاگیا ہے، عراق ابھی تک جل رہا ہے، افغانستان قیام امن کا منتظر ہے، مسئلہ کشمیرکا حل خواب و خیال بن چکا ہے، لبنان کے حالات بدستورکشیدہ ہیں، لیبیا کو مفلوج کردیاگیا ہے اور مصرکو ایک نئی مطلق العنان حکومت کی تجربہ گاہ بنایا جارہا ہے۔ شام میں حکومت کی برطرفی اگلا ہدف ہے۔ ایران سے نمٹنے کا لائحہ عمل تیاری کے مراحل میں ہے اور پاکستان انتہائی نگہداشت کے وارڈ (ICU)میں ہے۔ مسلم دنیاکواس زیادہ بحران زدہ اور بے بس نہیں کیاجاسکتا۔ یقیناً یہ وقت مسلم دنیا کے لیے انتہائی پریشان کن اور سنگین ہے۔ اس ابتر صورت حال کو جو چیز مزید المناک بنارہی ہے وہ مسلم دنیا کی بحیثیت ایک بلاک اپنے مسائل کے حل اورکمزوریوں پر قابو پانے میں نااہلی ہے۔
ہم مسلم دنیا میں اداروں کی ناکامی، علم کی کمی اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کا سارا الزام مغرب کو نہیں دے سکتے، اس کی تمام تر ذمہ داری مسلمان حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی سکیورٹی اور خود مختاری بلکہ اپنے ملکوں کا سیاسی اور اقتصادی مستقبل بھی مغرب کے ہاتھوں میں گروی رکھ چھوڑا ہے۔ مسلم دنیا کے وہ چند ممالک جو تیل کی دولت سے مالامال ہیں، وہ بھی سیاسی اور اقتصادی آزادی سے محروم ہیں۔ اسلام کے ماضی کی عظمت اور''گم شدہ ‘‘ شان و شوکت کے ناسٹلجیا میں زندہ رہنا مناسب نہیں، ہماری بھرپور توجہ اس امر پر مرکوز رہنی چاہیے کہ اسلامی دنیا اقتدار سے کیونکر محروم ہوئی، وہ کون سے اسباب ہیں جن کی بنا پرمسلم دنیا مغرب کی نو آبادیاتی تسلط میں آگئی اور اب جبکہ ہم صنعتی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں انتہائی پسماندہ ہیں، سیاسی ، اقتصادی اور فوجی اعتبار سے بھی مغرب کے دست نگر ہوچکے ہیں، مسلم لیڈر شپ اپنی تاریخی ناکامیوں کا ادراک کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ٹھوس تدابیر اختیارکرے۔
بدقسمتی سے ہماری حالت انیسویں صدی کے فرانسیسی بحریہ کے جہاز ''میڈوسا‘‘ کے مشابہ ہے جس کا اناڑی کپتان اپنی حماقتوں اور دوسروں کی تکنیکی مہارت پر انحصار کرتے ہوئے ادھر ادھر بھٹکتا رہا اور بالآخر اپنے پیچھے بے بسی ، موت اور مایوسی کی ایک المناک کہانی چھوڑ گیا۔ میڈوسا مغربی افریقہ کے ساحل آرگوئن سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا تھا۔ آج مسلم دنیا کی حالت اپنے مفاد پرست اور نااہل قائدین کی وجہ سے میڈوسا کے کپتان سے مختلف نہیں جومحکمہ کسٹم کا ایک افسر تھا لیکن فرانسیسی بادشاہ کا ذاتی دوست ہونے کی بنا پر جہازکا کپتان بن گیا ۔ ہمارے قائدین نے بھی اپنے ''آقائوں‘‘کی آشیرباد سے اقتدار تو حاصل کرلیا لیکن وہ نہیں جانتے کہ مسلم دنیا کو کس طرف لے جانا ہے۔
جب تک مسلم دنیا بذات خود اپنی بنیادیں اوراندرونی معاملات درست نہیں کرتی،اس میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئے گی۔کوئی فرشتہ ان کی مدد کے لیے آسمان سے نہیں اترے گا، وہ اس وقت مغرب کی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ مسلم دنیا کو متحد اور منظم ہوکر اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگی۔ اپنے وسائل اور دولت جسے مغرب استعمال کررہا ہے، اپنی طاقت بڑھانے اور اپنی سماجی و اقتصادی حالت بہتر بنانے پرخرچ کرنا ہوںگے۔ مسلم دنیا کی نجات اور فلاح ہر مسلمان ملک کی پالیسیوں اور ترجیحات میں پوشیدہ ہے، لیکن اس کا انحصار مسلم قائدین اور حکومتوں پر ہے کہ وہ نہ صرف اپنی سکیورٹی اور آزادی کو یقینی بنائیں بلکہ اپنی سیاسی ، اقتصادی اور سماجی استحکام کا بھی اہتمام کریں۔
مسلم دنیا کا مستقبل بہتر بنانے کی کلید سیاسی و اقتصادی آزادی اور فوجی طاقت ہے۔ اس مقصد کے لیے ہر مسلمان ملک کو امن ، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے حصول کو ترجیحِ اوّل بنانا ہوگا۔ ہر ملک کو اپنی موجودہ پالیسیوں اور ترجیحات کا از سر نو تعین کرتے ہوئے قیام امن اور اچھی جوابدہ حکومت قائم کرنے کی جانب پیشرفت کرنا ہوگی۔ مسلم دنیا کو عزت، وقار اور ترقی کے راستے پر ڈالنے کی ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے اور وہی مسلم ملت کو سیاسی،ادارہ جاتی اور ذہنی پسماندگی سے نکال سکتی ہیں۔
پاکستان مسلم دنیا میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسے مسلمان ممالک میں سیاسی، اقتصادی اور تزویراتی تعاون کو فروغ دینے کے لیے انہیں تقسیم کرنے کے بجائے باہم مربوط کرنے کی حکمت عملی اختیارکرنی چاہیے۔ اسے اپنے آپ کو بھی مسلم دنیا کے لیے معیاری تعلیم، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے حصول اور جدیدیت کے اعتبار سے شاندار مثال بننا چاہیے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)