"SAC" (space) message & send to 7575

اوباما کی دلّی یاترا

بھارت کے سالانہ یوم جمہوریہ پر غیر معمولی دھوم دھام سے منائی جانے والی تقریبات کے موقع پر‘ صدر اوباما نے اپنا انتہائی علامتی دو روزہ دورہ مکمل کر لیا۔ انہوں نے 2010ء میں بھی بھارت کا دورہ کیا تھا۔ وہ امریکہ کے پہلے حاضر سروس صدر ہیں جنہوں نے دوسری دفعہ اس ملک کا دورہ کیا۔ وہ امریکہ کے پہلے صدر ہیں جو بھارت کے یوم جمہوریہ کی پریڈ میں چیف گیسٹ کے طور پر شریک ہوئے۔ گزشتہ برس مئی میں بھارت کے قومی انتخابات کے بعد برسر اقتدار آنے والے وزیر اعظم نریندر مودی سے یہ صدر اوباما کی پہلی ملاقات نہیں تھی۔ 
دونوں لیڈروں کی ستمبر میں واشنگٹن ڈی سی میں ملاقات ہوئی اور پھر آسٹریلیا میں جی20- کے سربراہی اجلاس اور اس کے بعد نومبر 2014ء میں میانمار میں منعقدہ مشرقی ایشیا کے سربراہی اجلاس میں بھی دونوں کی ملاقات ہوئی تھی۔ اوباما انتظامیہ کی طرف سے مودی کی بلیک لسٹ میں شمولیت ختم ہونے کے بعد سال پورا ہونے سے بھی پہلے امریکی صدر نے یہ دورہ کیا۔ اس سے پہلے امریکہ اور یورپی یونین نے 2002ء میں گجرات میں ہونے والے ہلاکت آفریں فسادات میں 2000 سے زیادہ مسلمانوں کے قتل کا ذمہ دار ہونے پر مودی پر اپنے ہاں سفر کرنے پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ 
دہلی آمد پر صدر اوباما کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔ دونوں طرف سے گرمجوشی کا غیرمعمولی مظاہرہ ہوا جس کا بظاہر مقصد، ان کے اِدّعا کے مطابق، اکیسویں صدی کی ایک فیصلہ کن پارٹنرشپ کو مستحکم بنانا تھا۔ بلاشبہ دونوں لیڈروں میں ایک چیز مشترک ہے... معمولی پس منظر۔ لیکن دونوں اپنی ''کم مرتبہ‘‘ اساس کی بنا پر نہیں بلکہ تبدیلی کے علمبردار بن کر منتخب ہوئے۔ دونوں ممالک کے عوام ان کے پیش روئوں کی کار گزاریوں سے تنگ آ چکے تھے... یعنی امریکہ میں نوقدامت پسند ری پبلکن صدر اور بھارت میں نہرو خاندان کے اطالوی طرز کی کانگرس حکمرانی سے۔ 
اس میں تعجب نہیں کہ دونوں لیڈر اس وقت شاداں و فرحاں ہوں گے جب انہوں نے اپنے مشترکہ ''معمولی‘‘ پس منظر کے ساتھ دو طرفہ‘ علاقائی اور عالمی معاملات پر خوشگوار ماحول میں تعمیری تبادلہ خیال کیا۔ مبینہ طور پر گفتگو کے ایجنڈے میں فوجی تعاون میں اضافہ‘ باہمی تجارت‘ موسمی تبدیلی اور بھارت کے سویلین نیوکلیئر سیکٹر میں سرمایہ کاری جیسے امور سر فہرست تھے۔ اس دوران عرصہ دراز سے جاری وہ تعطل ختم کرنے کا معاہدہ بھی طے پا گیا جو ایک مقامی قانون کے تحت غیرملکی نیوکلیئر کمپنیوں کو بھارتی مارکیٹ میں شامل ہونے سے روکتا ہے۔ بظاہر‘ مودی کی طرف سے ''چائے کے سپیشل کپ‘‘ نے اس معاہدے پر اوباما کی رضامندی میں کردار ادا کیا۔ 
وزیر اعظم مودی اور صدر اوباما کے مابین رابطے کے لیے اب ایک ہاٹ لائن قائم کرنے کے علاوہ اوباما مودی بات چیت کا کوئی نیا غیر معمولی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ امریکہ بھارت دوسری سربراہی ملاقات صرف 2005ء کے دس سالہ ڈیفنس پارٹنرشپ معاہدے کی تجدید اور 2002ء کے بھارت امریکہ نیوکلیئر معاہدے پر عملدرآمد کے فیصلے پر منتج ہوئی، جسے دونوں ممالک کے تعلقات کے ضمن میں مودی نے ''مکمل طور پر ایک نئی سطح‘‘ اور صدر اوباما نے ''معنویت کے ساتھ ایک طاقتور علامت‘‘ قرار دیا۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوریتیں ''سٹریٹجک پارٹنرشپ‘‘ کا آغاز متنازع کردار کے حامل نریندر مودی جیسے شخص اور ایک ایسے نوبیل انعام یافتہ امریکی صدر کی سربراہی میں کر رہی ہیں‘ جنہوں نے امن کی خاطر جنگوں کا جواز پیش کیا۔ 
ان کی پارٹنرشپ کے پہلے قدم کے طور پر، طرفین نے دنیا کے لیے وحشتناک‘ ایک نئے ''ڈیفنس سٹریٹجک‘‘ فریم ورک پر دستخط کیے جس میں بڑے پیمانے پر فوجی تعاون بشمول نام نہاد ''دفاعی تجارت کے لیے ٹیکنالوجی کا آغاز‘‘ (Defence Trade Technological Initiative) جس کے تحت چار ''پاتھ فائنڈر پروجیکٹس‘‘ کی مشترکہ پیداوار‘ ایئرکرافٹ کیریئرز اور جیٹ انجن ٹیکنالوجی کے مطالعے میں تعاون اور فوجی و بحری مشترکہ مشقوں کا درجہ بڑھانا شامل ہے۔ گرمجوشی کی چمک دمک میں دونوں ''پارٹنر‘‘ اب اربوں ڈالر کی نیوکلیئر ٹریڈ کے منصوبوں کا آغاز اس توقع کے ساتھ کریں گے کہ وہ اپنی سٹریٹجک پارٹنرشپ کی اساس کے طور پر فوجی تعلقات کو عمیق تر کریں گے۔ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ عالمی سطح کے دیرپا امن اور ہم آہنگی کے لیے یہ کس نوعیت کی 'ٹھوس‘ بنیاد ہے؟ 
عالمی سطح پر یک قطبیت کی شکل میں آج یہ طاقت کا نیا ارتکاز ہے جو اپنے اپنے مفادات کی خاطر نئی سٹریٹجک پارٹنرشپ کے فریم ورک بنا رہی ہے تاکہ اس طرح اپنے عالمی اثر کو زیادہ سے زیادہ وسعت دی جا سکے۔ ظاہر ہے کہ نئی پارٹنرشپ کی تشکیل میں امریکہ کی اپنی ترجیحات ہیں جو چین کو نظر میں رکھتے ہوئے اس کے وسیع تر ایشیائی ایجنڈے کا حصہ ہیں اور ان کا نصب العین دنیا بھر پر سیاسی اور اقتصادی غلبے کا حصول ہے۔ فریقین اپنے اپنے مقاصد کے لیے کوتلیہ یا چانکیہ کے گیم پلان پر عمل پیرا ہیں جس کا مشترک عنصر ابھرتے ہوئے چین (Rising China) سے نمٹنا ہے۔ 
اس حکمت عملی کے مستقبل کا انحصار صرف فریقین کی خواہشات پر نہیں بلکہ اس تعلق سے متاثر ہونے والے فریقوں کے ردعمل پر ہوگا۔ یہ ایک اور سرد جنگ کا آغاز ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار بھارت سرد جنگ کے زمانے کی اپنی پوزیشن کی دوسری جانب کھڑا ہے۔ اگر تاریخ کوئی سبق دیتی ہے تو (یاد رکھیں) حالات غیر متغیر کبھی نہیں رہتے‘ یہ دنیا اور اس کی حرکیات تبدیل ہونے سے بدلتے رہتے ہیں؛ تغیر کا یہی عمل ہمیشہ اقتدار کے عروج و زوال میں کارفرما رہتا ہے۔ اس وقت سکیورٹی کے وہ منحوس سائے اس خطے پر سایہ فگن ہیں جو سرد جنگ کے زمانے میں دنیا پر چھائے ہوئے تھے اور جو آج کے تازہ پیدا ہونے والے حالات میں بھی دنیا کے امن اور سلامتی کو درپیش ہیں۔ 
برصغیر کی واشگاف جوہریت (nuclearization) کے باعث جنوبی ایشیاء کے مسائل صرف اس خطے تک محدود نہیں رہے‘ اب اس کی عالمی سطح پر بھی پریشان کن جہتیں سامنے آرہی ہیں‘ جن کی وجہ سے دنیا کے اس حصے کے امن و سلامتی میں بڑی طاقتوں کے بھی خدشات وابستہ ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے‘ اس خطے میں واشنگٹن کی اپنی ترجیحات ہیں لیکن اسے لازمی طور پر سمجھنا ہو گا کہ جنوبی ایشیا کے امن و سلامتی سے متعلق معاملات بنیادی طور پر بھارت اور پاکستان کی عداوت اور تصادم سے ظہور پذیر ہوتے ہیں اور ان تمام مسائل کی جڑ کشمیر کا تنازع ہے جو کئی بار ان کے مابین جنگوں کا سبب بن چکا ہے۔ 
اگر اس شورش زدہ خطے کی سیاسی تاریخ میں کوئی سبق مضمر ہے تو امریکہ کی توجہ جوہری ہتھیاروں کے حامل اس علاقے میں تزویراتی توازن کو بگاڑنے کے بجائے اسے فروغ دینے پر مرکوز ہونی چاہیے تھی۔ دنیا کے بڑے دارالحکومتوں کے پالیسی سازوں کو بھارت اور پاکستان کی جوہری مساوات کے ضمن میں امتیازی پالیسیوں سے گریز کرنا چاہیے تھا، کیونکہ یہ دنیا کی واحد جوہری مساوات ہے جو سرد جنگ کے نتیجے میں نہیں بلکہ سنگین نوعیت کے باہمی تنازعات کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ لیکن (انہوں نے) ایسا کبھی نہیں کیا۔ اس کے بجائے امریکہ نے بھارت کو ایک مخصوص ملک کا درجہ دے کر اسے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) تک نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے رسائی دلوائی‘ جو مساوات کے معیارات کی خلاف ورزی ہے۔ 
ایسے اقدامات جو جوہری ہتھیاروں کے حامل دو ہمسایہ ممالک کے مابین اسلحہ کی دوڑ کو ہوا دیں وہ اس خطے کے عوام کے مفاد میں نہیں ہو سکتے۔ ہمیں جنوبی ایشیا کے لیے نیوکلیئر سکیورٹی کا ایک مستحکم نظام درکار ہے۔ صرف مساوات اور عدم امتیاز پر مبنی معیارات ہی مؤثر ثابت ہوں گے۔ بھارت کے ساتھ ایک مخصوص ملک والا امتیازی سلوک روا رکھنے سے، جس کے تحت اُسے ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، نیوکلیئر ٹیکنالوجی تک رسائی اور بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت دی جا رہی ہے‘ اس سے نہ صرف خطے میں جوہری عدم توازن کی خلیج وسیع ہو گی بلکہ اس کے بھارت اور پاکستان کے مابین برداشت اور استحکام کے امکانات بھی مدھم پڑ جائیں گے۔ 
بین الاقوامی برادری کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف بھارت اور پاکستان کے لیے امتیازی پالیسیوں پر عمل کرنے سے احتراز کرے بلکہ ایسے اقدامات کرے جن کی بدولت اس خطے میں دیرپا امن کے امکانات روشن ہوں۔ جب تک کشمیر ، بھارت کے فوجی تسلط میں ہے، جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ دنیا کو باور کرنا چاہیے کہ کشمیر کا منصفانہ‘ شفاف اور قانونی حل صرف وہی ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں پیش کیا گیا تھا اور جنہیں بھارت اور پاکستان دونوں نے تسلیم بھی کر لیا تھا۔ 
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں