"SAC" (space) message & send to 7575

نیوکلیئر ڈائیلاگ: دھندلا منظر

ایران کے جوہری پروگرام پر سوئٹزرلینڈ کے شہر Montreux میں جاری طویل اور پیچیدہ مذاکرات رواں مہینے کے شروع میں ملتوی ہو گئے تھے۔ مذاکراتی سلسلہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے امریکی کانگریس سے معمول سے ہٹ کر خطاب کے بعد ٹوٹا‘ جس کا مقصد اس معاملے پر صدر اوباما کی پالیسی کی ملامت کرنا تھا۔ اب یہ مذاکرات سوئٹزرلینڈ ہی کے ایک دوسرے شہر Lausanne میں شروع ہو کر نازک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں، جس کا مقصد فریقین کا ایک دوسرے سے بڑی رعایات کا مطالبہ ہے۔ Montreux کے مذاکراتی دور کے اختتام پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف دونوں نے پیش رفت کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ اختلافات ابھی باقی ہیں۔
اس پیچیدہ معاملے کا منظر زیادہ واضح نہیں لگتا۔ کانگریس سے نیتن یاہو کے متنازع خطاب کا مقصد بظاہر یہ کوشش تھی کہ اوباما کے لیے مارچ کے آخر تک ابتدائی سمجھوتہ طے کرنے کی راہ میں مشکلات کھڑی کی جائیں، لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی نکلا کہ انہیں مذاکرات کے آخری دور میں سخت موقف اختیارکرنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے اوباما کو ایران کے جوہری پروگرام پر ''ایک بُرا سمجھوتہ‘‘ کرنے کا الزام عائد کیا جو ان کے بقول ایران کا جوہری پروگرام روکنے کے بجائے نیوکلیئر بم تیار کرنے کا راستہ کھولے گا۔ صدر اوباما نے کہا، نیتن یاہو کا یہ ڈرامہ 'سٹیٹس کُو‘ برقرار رکھنے کی وکالت کرنے کے سوا کچھ نہیں، اس سے کوئی معقول متبادل نہیں ملتا بلکہ یہ ایران کے لیے کسی پابندی یا نگرانی کے بغیر اپنے جوہری پروگرام پر عملدرآمد جاری رکھنے کا راستہ کھولے گا۔
نیتن یاہو کے مقاصد جو بھی ہوں، وہ ایران کے جوہری سوال پر امریکہ میں اندرونی اختلافات پیدا کرنے میں ضرور کامیاب ہوئے۔ واشنگٹن کے سیاسی کاریڈور میں ایک واضح تقسیم ظاہر ہو چکی ہے... کانگریس کے ری پبلکن ارکان اور اوباما انتظامیہ میں ایران کے حوالے سے سخت کشیدگی پائی جا رہی ہے۔ ڈیموکریٹس، نیتن یاہو اور سپیکر بوہنر کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ انہوں نے صدر کو کمزور کرنے کے لیے وائٹ ہائوس سے مشورہ کیے بغیر نیتن یاہو کے خطاب کا اہتمام کیا‘ جبکہ ری پبلکنز کا کہنا ہے کہ اوباما نے ''خطرے میں گھرے ہوئے ایک اتحادی کے جائز خدشات‘‘ پر مکمل بے حسی کا مظاہرہ کیا۔
ڈیموکریٹس، ایران کے ساتھ صدر اوباما کے مذاکراتی سمجھوتے کی کوشش کا دفاع کر رہے ہیں جبکہ ری پبلکنز کی پریشانی یہ ہے کہ ایران کی نیت ٹھیک نہیں اور مجوزہ ڈیل ایران کو جوہری ہتھیاروں کا حامل ملک بننے سے روکنے کے لیے ناکافی ہے۔
ری پبلکنز، ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتہ روکنے یا اسے کھٹائی میں ڈالنے کے لیے کئی تجاویز بھی دے رہے ہیں... ایران کے ساتھ کسی جوہری سمجھوتے کی سینیٹ سے منظوری سے ایران کے خلاف نئی پابندیوں کے احکامات جاری کرنے تک، حتیٰ کہ یہ تجویز بھی دی گئی کہ اس کے خلاف یک طرفہ جنگی کارروائی کی جائے۔ اوباما انتظامیہ کوشش کر رہی ہے کہ قانون سازوں کو ایسا قانون منظور کرنے سے باز رکھا جائے‘ جس کے تحت صدر کو ایران کے ساتھ سمجھوتہ کانگریس کی منظوری کے لیے پیش نہ کرنا پڑے۔
گزشتہ ہفتے یہ تنازع اس وقت عروج کو پہنچا جب 47 ری پبلکن سینیٹرز کے ایک گروپ نے ایرانی قیادت کے نام ایک کھلا مگر اشتعال انگیز خط لکھا، جس میں اسے متنبہ کیا گیا کہ اوباما نے ایران کے ساتھ کوئی جوہری تصفیہ کیا تو یہ 2017ء تک ان کے عہد صدارت سے آگے نہیں چل پائے گا۔ یقیناً یہ ایک ایسی حرکت ہے جس کی سفارت کاری کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی کہ قانون سازوں کا ایک گروپ مل کر ایک غیر ملک کے ساتھ اپنی حکومت کے اقدام کو ناکام بنانے کی کوشش کرے۔ اوباما انتظامیہ کے دعوے کے مطابق یہ امریکی قانون سازوں کی انتظامی شعبے میں براہ راست مداخلت کے مترادف ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے فوراً اس خط کو ''پروپیگنڈے کا ہتھکنڈا‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اس صورت حال میں یقیناً کسی بھی وزیر خارجہ کی طرف سے یہی سکہ بند پیغام ہو سکتا تھا۔ انہوں نے لکھا: ''میں اس خط کے مصنفین کی توجہ ایک اہم نکتے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ امریکہ دنیا نہیں ہے اور بین الریاست تعلقات کا طریق کار امریکی قانون نہیں، بین الاقوامی قوانین کے تحت طے پاتا ہے‘‘۔ جواد ظریف نے امریکی سینیٹروں کو یاد دلایا کہ ''بین الاقوامی قانون کی رُو سے کانگریس اپنے دعوے کے مطابق، کسی بھی وقت سمجھوتے کی شرائط تبدیل نہیں کر سکتی اور اگر کانگریس نے اس پر عملدرآمد میں رکاوٹ ڈالی تو وہ امریکی ذمہ داریوں کی بجا آوری میں رخنہ انداز ہونے کی مرتکب قرار پائے گی‘‘۔
حقیقتاً، ری پبلکن ارکان کا خط، اس پر دستخط کرنے والوں کی بین الاقوامی قوانین کے معاملات پر لاعلمی کا آئینہ دار ہے۔ اگر موجودہ مذاکرات کے نتیجے میں کوئی سمجھوتہ طے پاتا ہے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے اس کی توثیق کرانا ہو گی‘ جس کے بعد اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک پر اس کا اطلاق ہو گا۔ یہ صرف اسی معاملے کی قانونی پوزیشن نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تمام قراردادیں بشمول کشمیر و فلسطین‘ جن پر تاحال بھارت اور اسرائیل نے عملدرآمد نہیں کیا، اسی زمرے میں آتی ہیں۔ اگر کانگریس یا مستقبل کا امریکی صدر کسی بھی انتظام کے تحت یک طرفہ طور پر امریکی ذمہ داریاں نہیں نبھاتا تو یہ عمل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کے مترادف ہو گا۔
صدر اوباما اور وزیر خارجہ جان کیری، دونوں نے مذاکراتی عمل رد کرنے کا امکان مسترد کر دیا اور اس نکتے پر زور دیا کہ امریکہ کے مذاکراتی شراکت دار امریکہ کی سربراہی میں گزشتہ چند برسوں سے اختیار کیے گئے مذاکراتی موقف سے اچانک روگردانی کی حمایت نہیں کریں گے۔ یورپی سفارت کاروں نے بھی اتفاق کیا ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ منقطع کرنے سے چھ ممالک کا گروپ ٹوٹ جائے گا‘ جن کا اتحاد اب تک ایران پر دبائو ڈالنے کے ضمن میں مغرب کا سب سے بڑا تزویراتی اثاثہ ثابت ہوا ہے۔ اس معاملے پر ایرانیوں کا موقف بھی واضح ہے۔ اس کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے مطابق ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر تعطل غیر ضروری ہے، اس لیے کہ اسے حل کرنا آسان ہے۔ ان کے بقول تہران بم بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا اور وہ بین الاقوامی برادری کی ایک بار پھر یقین دہانی کی خاطر مجوزہ سمجھوتہ قبول کر لے گا۔
تاہم ایرانی پریشان ہیں کہ اگر کانگریس، نیتن یاہو کے ایما پر جامع جوہری تصفیہ رکوانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر دوبارہ باہمی تنائو کا امکان بڑھ جائے گا۔ ان کے مطابق اس صورت میں امریکہ اپنے دوسرے شراکت داروں کو ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر آمادہ نہیں کر پائے گا۔ یورپی یونین اور چین پابندیاں اٹھانے کے لیے پہلے ہی بے قرار ہیں۔ یوکرائن پر مغرب کے اختلافات کے دوران، روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ان (پابندیوں) کی مزید حمایت نہیں کرے گا۔ ایران بھی 2013ء کے جنیوا سمجھوتے کی طرز پر عبوری سمجھوتے کی تجدید قبول نہیں کرے گا‘ جس کی پہلے ہی دو بار تجدید ہو چکی ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ مزید تاخیر اس پر پابندیوں اور جوہری انجماد جاری رہنے کا موجب بنے گی۔
ایرانیوں کی خواہش ہے کہ جلد یک قدمی سمجھوتہ طے پا جائے جو این پی ٹی کے تحت اسے افزودگی کا حق دلائے گا اور اس پر بین الاقوامی پابندیاں بھی نرم ہو جائیں گی۔ دوسری جانب امریکہ اور اس کے شراکت دار چاہتے ہیں کہ 31 مارچ تک سمجھوتے کا ایک عمومی فریم ورک تشکیل پا جائے اور یکم جولائی تک حتمی سمجھوتے پر دستخط ہو جائیں۔ ان کا حتمی ہدف یہ ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار تیار نہ کرنے کا پابند بنایا جائے۔ بدلتی ہوئی اس صورت حال میں سوئٹزرلینڈ میں موجود ایرانی اور امریکی مذاکرات کار اس دبائو میں ہوں گے کہ وہ ایک دوسرے سے آخری بڑی رعایت حاصل کر سکیں۔
جواد ظریف کا دعویٰ ہے کہ ہم ''سمجھوتے‘‘ کے بہت قریب ہیں جبکہ جان کیری ''نصف گلاس خالی‘‘ کی تکرار کیے جا رہے ہیں۔ اس معاملے میں گوناگوں پیچیدگیوں کے باعث کوئی ڈیڈ لائن مقرر کرنا انتہائی دشوار ہے۔ یہ بحران بارہویں سال میں ہے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ فریقین بند گلی سے نکلنے کے لیے بقیہ اختلافات کی خلیج کیسے پُر کرتے ہیں۔ کوئی بھی راستہ اختیار کیا جائے، دیرپا سمجھوتہ طے پانے کے لیے کھڑکی تیزی سے بند ہو رہی ہے۔ (کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں