"SAC" (space) message & send to 7575

28 مئی کا تاریخی دن

پاکستان نہیں‘ یہ بھارت تھا جس نے 1974 میں اپنے پہلے ایٹمی تجربے کے ذریعے اس خطے کے غیرمستحکم سکیورٹی ماحول میں نیوکلیئر معاملات کو شامل کیا‘ جسے مغرب کے کچھ لوگوں نے ''مسکراتا بدھا‘‘ کا نام دیا۔ یہ نیوکلیئر عدم پھیلائو کے معاہدے کے تحت قائم نظام کو پہنچنے والا حقیقتاً پہلا بڑا دھچکا تھا۔ اس کے بعد بھارت نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ دنیا نے بھارت کے دعووں میں چھپے اس فریب کو بھی جلد ہی دریافت کر لیاکہ نہرو کے دور میں اس کا جوہری پروگرام خصوصی طور پر پُرامن استعمال کیلئے تھا اور یہ کہ جوہری ہتھیاروں کا پروگرام شاستری حکومت نے 1964 میں چین کے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد شروع کیا تھا۔
اب اس امر کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں کہ نہرو کی منظوری سے بھارت اپنے سویلین جوہری پروگرام کے سٹرکچرل فریم ورک میں پہلے ہی خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا تھا۔ سوویت یونین سمیت بڑی طاقتوں کی واضح اور خفیہ حمایت کے ساتھ، بھارت نے دھوکہ دہی سے‘ درپردہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام جاری رکھا۔ مغربی طاقتوں نے نیوکلیئر عدم پھیلائو کے اصولوں کا چنیدہ نفاذ کیا۔ پاکستان کیخلاف ان اصولوں کو بروئے کار لایا گیا جبکہ بھارت کے نیوکلیئر پھیلائو کو عملی طور پر نظرانداز کیا گیا۔ یہی وہ عامل ہے جس سے شہ پاکر بھارت نیوکلیئر عدم پھیلائو کے عالمی معیارات سے انحراف کا مرتکب ہوتا رہا۔
1974 کے بھارتی ایٹمی تجربات‘ جو صحرائے سندھ میں پاکستان کی سرحد کے قریب کئے گئے‘ نے پاکستان کو مجبور کردیا کہ وہ بھی نیوکلیئر صلاحیت حاصل کرے۔ پاکستان کو دہرے خطرے کا سامنا تھا۔ ایک طرف ہم بھارت کے ایٹمی عزائم کا سامنا کر رہے تھے جو پاکستان کی سلامتی اور بقا کیلئے براہ راست خطرہ تھے‘ دوسری طرف ''جوہری عدم پھیلاؤ‘‘ کے نام پر ہمیں دوستوں اور اتحادیوں کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کے پاس اپنی سلامتی کیلئے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔
1968 میں جب ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے کو حتمی شکل دی جارہی تھی تو ہم نے اس کی حمایت کی تھی‘ تاہم ہم نے اس معاہدے پر دستخط اس لئے نہیں کیے تھے کہ بھارت نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا اور وہ ایٹمی ہتھیاروں کے اپنے بے لچک پروگرام پر عمل پیرا تھا۔ تب سے ایٹمی عدم پھیلاؤ کا ہر اقدام پاکستان نے کیا۔ 1974 میں ہم نے اس خطے میں ایٹمی پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ایک بڑی سفارتی مہم چلائی تھی اور ایسی تجاویز پیش کی تھیں جن کا مقصد جنوبی ایشیا میں ایک غیرامتیازی نظام کے قیام کی کوشش تھا۔ ان میں بیک وقت این پی ٹی اور آئی اے ای اے کے سیف گارڈز سے وابستہ رہنے اور جنوبی ایشیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک زون قرار دینے جیسی تجاویز بھی شامل تھیں۔ ان تجاویز کو بھارت نے مسترد جبکہ عالمی طاقتوں نے نظرانداز کر دیا تھا۔ خدشات بے بنیاد نہیں تھے۔ بھارت نے مئی 1998میں کئی ایٹمی تجربات کرکے این پی ٹی کے نظام کو ایک اور شدید دھچکا پہنچایا۔ مارچ 1998 میں برسراقتدار آنے کے فوراً بعد ہی بی جے پی کی حکومت نے ایٹمی آپشن استعمال کرنے اور جوہری ہتھیاروں کو فروغ دینے کے عزم کا اعلان کر دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اپریل 1998 میں وزیر اعظم پاکستان نے جی ایٹ کے سربراہان مملکت و حکومت کے نام ایک خط میں ان کی توجہ بھارت کے خطرناک ایٹمی منصوبوں اور جوہری ہتھیاروں کی طرف مبذول کرائی تھی۔ ہمارے اس انتباہ پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔
11 اور 13 مئی 1998 کو بھارت کے پانچ ایٹمی تجربات، جو ایک بار پھر ہماری سرحدوں کے قریب تھے، نے ہمارے خدشات کو مکمل طور پر درست ثابت کر دیا۔ ہم نے اس کا جواب فوراً نہیں دیا، حالانکہ ہمیں ایسا کرنے کا قانونی اور سیاسی حق حاصل تھا۔ بھارت نے ہمارے اس تحمل کا غلط نتیجہ اخذ کیا اور یہ تصور کیاکہ ہمارے پاس ایٹمی صلاحیت کبھی بھی نہیں تھی۔ بی جے پی کی حکومت اور اس کے قائدین نے دھمکی آمیز بیانات داغنا شروع کر دیئے۔ یہ بیانات ایٹمی بلیک میلنگ کی حد تک بڑھ گئے۔ اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے 20 مئی کو علی الاعلان کہا ''بھارت اپنی نئی طاقت کو استعمال کرنے سے نہیں ہچکچائے گا‘‘۔ اگلے ہی روز، انہوں نے دھمکی دی ''ہم نے پاکستان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے‘ ہمارے دھماکوں نے سقوط ڈھاکہ جیسی صورتحال پیدا کردی ہے‘‘۔
یہ پریشان کن اور انتہائی غیرذمہ دارانہ بیانات تھے، چاہے وہ داخلی تناظر میں ہی کیوں نہ تھے۔ اس جارحانہ طرزِ عمل کے محرکات جو بھی ہوں، ہم تب جان چکے تھے کہ جنوبی ایشیا میں امن ایک نازک دھاگے سے لٹکا ہوا ہے۔ ہم نے دنیا کی توجہ بھارتی جنونیت کی طرف مبذول کرائی‘ لیکن کوئی ردعمل نہ آیا۔ درحقیقت، ہمیں مشورہ دیا گیا تھاکہ بھارت کا جواب نہ دے کر ''اعلیٰ اخلاقی بنیاد‘‘ حاصل کر لیں اور یوں ایٹمی عدم پھیلاؤ کے نام پر، آزاد قوم کی حیثیت سے قائم رہنے کا اپنا حق ضبط کروا لیں۔ فوری جواب نہ دینے پر بھارت میں ہمارے تحمل کا غلط مطلب اخذ کیا جا رہا تھا۔ بھارت کے ایٹمی تجربات کے بعد 17 روز تک ہم نے عالمی برادری کا انتظار کیا کہ وہ ایٹمی خطرات کے حوالے سے کچھ کرے۔ عالمی سطح پر کچھ ہوتا نظر نہ آیا تو پاکستان نے 28 مئی کو پانچ ایٹمی تجربات اور پھر 30 مئی کو مزید ایک ایٹمی دھماکا کیا۔ ہم ایسا نہ کرتے تو بھارت مہم جوئی کر سکتا تھا۔ اس اقدام نے ہمارے لئے کم سے کم قابلِ بھروسہ جوہری روک تھام کا بندوبست کر دیا تھا۔
کوئی شک نہیں کہ یہ ایک مشکل لیکن ناگزیر فیصلہ تھا‘ جس کیلئے رہنمائی ہمارے اہم قومی مفادات نے کی۔ توقع کے مطابق امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی جانب سے منفی ردعمل آیا۔ بھارت کے ایٹمی تجربات پر ایسا ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ ان ممالک کا خیال تھا کہ پاکستان ان کے سیاسی اور معاشی دباؤ میں آ جائے گا‘ لیکن پاکستان نے قومی مفادات کے تحت ایٹمی دھماکے کئے۔ جنوبی ایشیا میں ان ایٹمی تجربات پر بین الاقوامی برادری‘ خصوصاً بڑی طاقتوں کی جانب سے روایتی ردعمل 6 جون 1998 کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر1172 کی صورت میں سامنے آیا۔ اس قرارداد میں ایٹمی تجربات کی مذمت کرتے ہوئے دونوں ممالک سے اپنی جوہری صلاحیتوں کو رول بیک کرنے، سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے، ایف ایم سی ٹی پر پیشرفت کرنے اور میزائل ڈلیوری سسٹمز پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کونسل نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا کہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور صورتحال کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے فوجی چالوں یا دیگر اشتعال انگیزی سے گریز کریں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایٹمی تجربات پر ترتیب وار پہلے بھارت اور پھر پاکستان کی مذمت کی گئی جو پاکستان کیلئے ایک اہم سفارتی کامیابی تھی‘ کیونکہ اس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ ایٹمی تجربات پہلے بھارت اور پھر پاکستان نے کئے۔ اس طرح دنیا نے جوہری تجربات کرنے میں دونوں ممالک کے محرکات میں ایک تصوراتی فرق کو قبول کیا۔ بہرحال جوہری ہتھیار اب جنوبی ایشیا میں ایک حقیقت ہیں۔ عالمی برادری کیلئے ضروری یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے سٹریٹیجک تناظر کو سمجھے۔ بھارت کے ایٹمی تجربات نے خطے میں سکیورٹی کے ماحول کو غیرمستحکم کر دیا تھا جبکہ پاکستان کے ٹیسٹوں نے اس جوہری توازن کو بحال کیا۔ اب دونوں ممالک کو باہمی ضبط اور ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ انہیں اب مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی تلاش کرتے ہوئے امن کو ایک موقع دینا چاہئے۔ اس سے انہیں موقع ملے گا کہ اپنے وسائل کو اپنے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کر سکیں۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں