آج کے داراشکوہ اور عالمگیر

خاندان شریفیہ کا دور دور تک خاندان مغلیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ نہ تو کوئی قرابت داری ہے اور نہ ہی وہ شاہانہ ٹھاٹ باٹ، ہے جو خاندان مغلیہ کی داستانوں سے متعلق مشہور ہے مگرخاندان شریفیہ کے سربراہ میاں نوازشریف کو ہندوستان کی تاریخ اور خاندان مغلیہ کے عروج و زوّال سے گہری دلچسپی رہی ہے اسی لیے انہوں نے مغلیہ خاندان کے برعکس اپنے قریبی عزیزواقارب کے اندر کسی بھی دراڑ‘ کسی بھی درز کو پیدا نہیں ہونے دیا۔ میاں شریف کی وفات کے بعد جب وہ خاندان کے سربراہ بنے تو انہوں نے دونوں بھائیوں شہباز اور عباس سے محبت اور شفقت کو اور بڑھا دیا کئی بار ذاتی اور مالی قربانیاں دیں۔ جائیداد کی تقسیم عدلیہ سے وابستہ ایک ریٹائرڈ جج سے کروائی۔ بھتیجوں اور بھتیجیوں کو اولاد کے برابر جانا۔ مرحوم عباس شریف کے بیٹوں کو ایک دو سال پہلے تک اپنا کاروباری شریک کار بنائے رکھا‘ ان کی شادیاں بال بچے ہو گئے تو انہیں الگ کیا۔ حد تو یہ ہے کہ ایک بار حامد میر اور میں نے میاں نوازشریف سے ٹی وی انٹرویو کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ آپ کے بیٹے حسین اور حسن تو سیاست میں نہیں ہیں پھر آپ کا وارث کون ہو گا؟ تو انہوں نے ایک لمحہ توقف کئے بغیر جواب دیا کہ میرا سیاسی جانشین حمزہ شہبازشریف ہو گا۔ 
وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ 2013ء کے انتخابات کا گجر بجا تو چھوٹے بھائی شہبازشریف نے بڑے بھائی کے زندگی بھر کے احسانات کا بدلہ اس طرح چکایا کہ ملک کی وزارت عظمیٰ کا تاج طشتری میں رکھ کر میاں نوازشریف کو پیش کیا۔ پنجاب میں بھرپور اکثریت کی منصوبہ بندی‘ امیدواروں کا انتخاب‘ 92 ارب روپے کے فنڈز کی تقسیم اور درست پینل کا چنائو‘ سب کچھ شہبازشریف کی نگرانی میں ہوا۔ چھوٹے بھائی اکثر کہتے ہیں کہ وہ صرف میرے بڑے بھائی نہیںبلکہ والد کی جگہ پر ہیں۔
وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا‘ حالات بدلے تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل راحیل شریف کے ساتھ معاملات میں خرابی آئی تو دبائو بڑھا۔ ڈیمانڈ کی گئی کہ مدت ملازمت میں توسیع کی جائے شہبازشریف نے لندن میں بھائی کے کان میں سرگوشی کی ہمیں توسیع دے دینی چاہیے اور اپنے ترقیاتی کاموں پر فوکس کرنا چاہیے ابھی وہ طاقتور ہے کل ہم ہونگے مگر میاں نوازشریف اڑ گئے کہ نہ تو توسیع دینی ہے اور نہ ہی اس معاملے پر مذاکرات کرنے ہیں۔ پانامہ لیکس کامعاملہ شروع ہوا تو نوازشریف کے بیٹے حسین اور بیٹی مریم بھرپور دفاع کرتے رہے۔ انٹرویو دیتے رہے مگر تختِ لاہور کی طرف سے خاموشی رہی وجہ شاید یہ تھی کہ معاملہ پیچیدہ تھا سمجھنا اور سمجھانا مشکل تھا ایسے میں خاموشی بہتر تھی کہیں کچھ بولنے سے معاملہ مزید نہ الجھ جائے مگر یہ طویل خاموشی اسلام آباد کے دَرِ اقتدار پر گراں گزرنے لگی۔ مرکز کا میڈیا کا محاذ کمزور تھا نوازشریف نے مریم کو انچارج بنایا تو پارٹی توازن بہتر ہونے لگا ۔ساتھ ہی مریم مخالفوں کا ہدف بنتی گئی مگر جب جانفشانی سے کام کیا تو جانشین کے طور پر بھی سامنے آنے لگی۔
تاریخ صرف ماضی کا حوالہ نہیں ہوتی بلکہ حال کی بنیادیں بھی ماضی کے واقعات پر ہی تعمیر ہوتی ہیں۔ عاقل کہتے ہیں کہ سلطنتِ مغلیہ کا اصلی زوّال شاہ جہاں کے آخری دنوں میں شروع ہو گیا تھا شاہ جہاں کے دو بیٹوں اورنگزیب عالم گیر اور داراشکوہ کی لڑائی نے سلطنت کی بنیادیں ہلا ڈالی تھیں۔ اورنگزیب نے اپنے والد شاہ جہاں کو قید کر ڈالا‘ داراشکوہ اور دوسرے بھائیوں مراد اور شجاع کو شکست دے کرہاتھیوں کے پائوں تلے مسل کر مروا ڈالا۔ 
اگر تاریخ تسلسل کا نام ہے تو آج کے شاہ جہاں‘ داراشکوہ اور اورنگزیب عالم گیر پھر سے اقتدار اور جانشینی کی جنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ خاندان شریفیہ کی اعلیٰ روایات اور خاندانی اقدار کے باعث کبھی بھی جانشینی کا مسئلہ زیربحث نہیں آیا ہو گا نہ ہی مغلیہ خاندان کی طرح اس مسئلہ پر جنگ ہو گی۔ میاں نوازشریف نے دو حقدار جانشینوں یعنی حسین نوازشریف اور حسن نوازشریف کو بیرون ملک بسا کر پہلے ہی یہ عندیہ دیا تھا کہ ان کے بیٹوں میں سے کوئی سیاست نہیں کرے گا البتہ مریم‘ والد کی حقیقی شاگرد کی طرح 5 سے 6 گھنٹے ان کے ساتھ گزارتی رہیں۔ والد کے لیے کھانوں کے انتخاب کے ساتھ ساتھ وہ دن بھر کی ملکی سیاست اور بین الاقوامی امور پر بھی والد کی مشورہ بین بن گئیں۔ دوسری طرف شہبازشریف کو اقتدار کی راہداریوں میں پھرتے اور گورننس کرتے کرتے 3 دہائیاں گزر چکی ہیں وہ اپنے تجربے کے باعث جانشینی کے اہل نظر آتے ہیں۔ کہا یہ جا رہا تھا کہ اگر پانامہ لیکس کا فیصلہ میاں نوازشریف کے خلاف آئے تو میاں شہبازشریف کو وزیراعظم بنا دیا جائے یوں نون لیگ کا اقتدار جاری رہے اور مریم کو مشیر خارجہ بنا دیا جائے تاکہ اس کی مزید تربیت ہوتی رہے۔ تجویز تو یہ بھی تھی کہ 2018ء کا الیکشن میاں نوازشریف خود لڑیں اور اپنی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کے بل بوتے پر الیکشن جیتیں اور پھر ایک سال بعد ٹونی بلیئر کی طرح سیاست سے ریٹائر ہو کر اقتدار اپنے بھائی میاں شہبازشریف کے حوالے کر دیں تا ہم یہ سب ہو نہ سکا۔ تخت لاہور کی طرف سے پانامہ لیکس پر طویل خاموشی نے مریم اورنگزیب سے کہلوا دیا کہ اب وزارت عظمیٰ کی امیدوار مریم نوازشریف ہونگی گویا نقشہ بدل چکا ہے اور شاید جانشین کا فیصلہ بھی بدل چکا ہے...
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کئی سال پہلے شریف خاندان کے ایک فرد نے مجھ سے خاندان کے سیاسی جانشین کے بارے سوال پوچھا تو میں نے جواب دیا تھا کہ اگر تو نوازشریف حکومت کا خاتمہ ہنگامی صورتِ حال میں ہوا تو مریم اپنے والد کے جمہوری اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ نظریات کی وجہ سے سیاسی وراثت کی جائز دعویدار ثابت ہونگی لیکن اگر سب کچھ ٹھیک چلا، بھائیوں میں پرانی محبت برقرار رہی تو پھر پرامن حالات کا فائدہ شہبازشریف اور ان کے خاندان کو ہو گا۔ یہ خام سا تجزیہ ظاہر ہے کسی کو بھی پسند نہیں آیا ہو گا۔
لاہور کو شالامار باغ دینے والا مغل شہنشاہ شاہ جہاں آرکیٹکٹ حکمران کہلاتا ہے۔ شاہ جہاں نے تاج محل بنوایا تو نوازشریف نے اسلام آباد پرائم منسٹر سیکرٹریٹ جیسی شاہکار عمارت مکمل کروائی۔ 90 شاہراہ قائداعظم کو ایسا سجایا کہ شاہ جہاں کی یاد تازہ ہو گئی۔ نوازشریف کو بھی شاہ جہاں کی طرح عمارتیں اور موٹرویز بنانے کا شوق ہے ،گریٹر اقبال پارک اسی شوق و جذبے کی زندہ مثال ہے۔ شاہ جہاں کو اپنی اور ممتاز محل کی اولاد میں سب سے زیادہ عزیز بڑا بیٹا داراشکوہ تھا اس لیے اسے ہی ولی عہد بنانے کا اعلان کیا۔ اگر شاہ جہاں کے واقعات کو آج کے حالات پر منطبق کیا جائے تو آج کی داراشکوہ مریم نواز ہیں۔ والد کی پسندیدہ اولاد۔ انہی کے نظریات پر کاربند اور آئیڈیلسٹ۔ دوسری طرف شہبازشریف آج کے اورنگزیب عالم گیر ہیں شہباز صاحب پروٹوکول سے ہٹ کر سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ تنخواہ نہیں لیتے‘ خادم اعلیٰ کہلوانا پسند کرتے ہیں‘ کھدر کی شرٹ ان کا پسندیدہ پہناوا ہے۔ عالم گیر کی طرح علماء کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔ اورنگزیب عالم گیر ذاتی خرچ کے لیے شاہی خزانے سے کچھ نہ لیتاتھا بلکہ قرآن پاک لکھ کر اور ٹوپیاں سی کر ان کی اجرت اپنی ذات پر خرچ کرتا تھا حتیٰ کہ اس نے وصیت کی تھی کہ اسے کھدّر کے کفن میں دفن کیا جائے۔
آج کے شاہ جہاں نے گو فیصلہ نہیں کیا کہ اُس کے سیاسی وارث شہبازشریف ہونگے یا پھر مریم نواز اور حمزہ شہبازشریف میں سے کوئی ایک حقدار ٹھہرے گا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایسے فیصلے آسانی سے نہیں ہوتے حالات کا جبر ہی انہیں طے کرتا ہے۔ اسلام آباد کی فضائوں میں داراشکوہ اور لاہور کی ہوائوں میں عالم گیر کا نام گونج رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تقدیر ماضی کا فیصلہ دہرائے گی یا پھر اس دفعہ نئی تاریخ لکھی جائے گی۔ پانامہ نے پلڑا مریم کے حق میں جھکا دیا ہے‘ دیکھیں فیصلے کا اعلان کب ہو؟؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں