سیاسی منظرنامے پر وہی کچھ ہو رہا ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے خواب بیچنے کا موسم پھر سے آیا چاہتا ہے۔ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے کے قریب ہے۔ اُلٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ نئے الیکشن کے لیے قوم ذہنی طور پر تیار ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے اندر بھی ہنگامہ شروع ہو چکا ہے۔ ہمارے یہاں کی سیاست میں کامیابی کی ضمانت‘ نظریات اور سیاسی منشور نہیں‘ وہ شخصیات ہوتی ہیں‘ جنہیں میدانِ سیاست میں اُتارا جاتا ہے‘ تگڑے پس منظر کی مضبوط سیاسی شخصیات‘ جنہیں عرفِ عام میں جیتنے والے گھوڑے کہا جاتا ہے۔ اسی لیے ہر پارٹی زیادہ سے زیادہ جیتنے والے گھوڑے میدان میں اُتارنے کا عزم رکھتی ہے۔ سیاسی منظرنامے پر وہی کچھ ہو رہا ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ الیکشن کے قریب آتے ہی ہیجان کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جوڑ توڑ کی سیاست عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ‘ انتخابی اتحاد‘ ہوا کا رُخ دیکھتے ہوئے‘ پرانی وفاداریاں خیرباد کہہ کر نئے رشتے نبھانے کے عہد و پیمان… نئے سیاسی نظریات کے ساتھ وفاداری کے اعلانات… اور سب سے بڑھ کر مفاد پرستی کی اس سیاست کو ملک کے اعلیٰ ترین مفاد اور جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ حبُ الوطنی کے عظیم جذبے سے سرشار ہو کر ہی سب کچھ کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں پیپلز پارٹی کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 ارکان نے ن لیگ کے ’’دربار‘‘ میں جا کر بیعت کر لی۔ حیرت ہے کہ ان میں نوجوان سیاست دان خاتون عظمیٰ بخاری بھی شامل تھیں۔ عظمیٰ ہر فورم پر پارٹی نظریات کا پرچار بڑے جذبے‘ عزم اور لگن کے ساتھ کیا کرتی تھیں۔ ایک دو بار مجھے ان کا انٹرویو لینے کا اتفاق ہوا۔ پیپلز پارٹی اور شہید بے نظیر بھٹو کے ساتھ اُن کی جذباتی وابستگی دیکھ کر میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئی کہ پارٹی کی کوتاہیوں کے باوجود اُس کے پاس نئی نسل میں بھی گہری وابستگی رکھنے والے جیالے سیاستدان موجود ہیں۔ اس لیے جب یہ خبر آئی کہ عظمیٰ بخاری اور ان کے شوہرسمیع خان نے جو پنجاب میں پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی تھے‘ شہید بی بی کی پارٹی چھوڑ کر نوازشریف کی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی ہے تو نظریاتی سیاست پر یقین کو زبردست ٹھیس پہنچی۔ مان لینا چاہیے کہ ملک میں نظریاتی سیاست کرنے والے سیاستدان نایاب ہو چکے ۔ اب صرف مفادات کی سیاست ہوتی ہے۔ اس وقت اگر ق لیگ‘ پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر رہی ہے تو درحقیقت یہ دونوں پارٹیوں کے اپنے اپنے مفاد اور مجبوریاں ہیں۔ وگرنہ پیپلز پارٹی اور ق لیگ کی تاریخ اور سیاسی روایتیں دیکھیں تو اپنے تمام تر اختلافات کے ساتھ دونوں پارٹیاں دو مختلف سمتوں میں چلتی دکھائی دیتی ہیں۔ اپنے مفاد اور سیاسی مجبوریوں کے لیے دو مختلف نظریات کی پارٹیوں کے اہم رہنما تو اکٹھے ہو جاتے ہیں مگر نچلی سطح پر پارٹی کے عہدیدار اور عام ورکرز کبھی بھی ایسی تبدیلیاں دل سے قبول نہیں کرتے بلکہ سیاسی پارٹیوں کے ورکرز ایسی صورت حال میں زیادہ ابہام اور کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کا اپنے لیڈروں کی سیاست پر اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ق لیگ اور پیپلز پارٹی میں انتخابی اتحاد قائم رہتا ہے اور الیکشن میں دونوں پارٹیاں اکٹھا اُترتی ہیں تو سوچیے کہ کیا پیپلز پارٹی کا ایک جیالا ورکر‘ ق لیگ کے رہنما کی حمایت میں نعرہ بازی کرے گا۔ ہرگز نہیں۔ اسی طرح ق لیگ کے ورکر کا پیپلز پارٹی کے رہنما کے لیے جذباتی وابستگی کا اظہار کرنا مشکل ہوگا۔ کیونکہ سیاسی ورکرز وہ مخلوق ہیں جو غربت اور مسائل میں زندگی گزارتے ہیں‘ اپنی پارٹی سے اپنی وابستگی کی کوئی قیمت وصول نہیں کرتے ان کے لیے پارٹی سے اُن کی جذباتی وابستگی ہی سب کچھ ہے۔ نظریات کے اس اثاثے سے ورکرز کے لیے آسانی سے دستبردار ہونا مشکل ہوتا ہے۔ ساڑھے چار سال حکومت کا ساتھ دینے والی متحدہ قومی موومنٹ نے بھی الیکشن کے قریب آتے ہی ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی سے انتخابی اتحاد نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خیر اُن کی اس ’’سیاست‘‘ کی تو اور کئی تہیں دریافت کی جا رہی ہیں کہ متحدہ سندھ میں اپنی مرضی کا نگران سیٹ اپ لانے کے لیے حکومت سے علیحدہ ہو کر اپوزیشن میں بیٹھی ہے۔ ادھر ن لیگ نے جمعیت العلماء اسلام فضل الرحمن گروپ کے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیا ہے۔ جاتی امرا میں‘ حلوے اور دیسی مرغی کی شاندار دعوت کے دوران یہ تازہ ترین سیاسی اتحاد وجود میں آیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن جب وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو لوگ انہیں سنجیدہ نہیں لیتے‘ مگر مولانا کی سیاسی بصیرت پر تو سب کو یقین آ جانا چاہیے کہ ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں کی سیاست گری میں مولانا نے کس طرح اپنی شخصیت اور اپنی پارٹی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ جلد ہی وہ آل پارٹیز کانفرنس بلانے جا رہے ہیں جس کا مقصد خیبر پختونخوا اور فاٹا کے علاقوں میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے کوئی واضح حکمتِ عملی تیار کرنا ہے۔ سُنا ہے کہ ق لیگ نے بھی مجوزہ اے پی سی میں شرکت کی دعوت قبول کر لی ہے؛ تاہم عمران خان ابھی تک اپنے انکار پر قائم ہیں۔ جُوں جُوں اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے کے دن قریب آ رہے ہیں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں زور پکڑ رہی ہیں۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما کس آسانی سے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں۔ ساری توانائیاں جوڑ توڑ کی سیاست پر صرف ہو رہی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ عوام کے سامنے اپنا منشور اور اپنی پالیسی کھول کر بیان کریں۔ صرف عمران خان کی جانب سے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے۔ چند روز پہلے تحریک انصاف نے اپنی تعلیمی پالیسی عوام کے سامنے پیش کی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اب وہ سیاست کے پرانے ہتھکنڈے چھوڑ کر عوام کے سامنے اپنی اپنی پارٹی کا منشور ا ور پالیسیاں پیش کریں۔ عوام کی بھی بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ شخصیت پرستی کے آسیب سے نکل کر اپنا فیصلہ کریں اور بہتر لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور دیں تاکہ تبدیلی کی امید کے جو ننھے شگوفے‘ خزاں گزیدہ دلوں میں پھوٹ رہے ہیں‘ وہ مرجھا نہ جائیں۔ اگر ہمارے سیاست دان سیاست کا رنگ ڈھنگ تبدیل کرنے کو تیار نہیں تو کم از کم عوام ہی اپنا طرزِ انتخاب بہتر کر کے تبدیلی کی بنیاد رکھ دیں۔