"SQC" (space) message & send to 7575

حیرت یہ ہے …!!

مبارک ہو کہ وطنِ عزیز میں پہلی جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد رخصت ہوئی۔ اس رخصتی کے دلگداز مناظر اخبارات اور ٹی وی چینلز پر آپ نے بھی ضرور دیکھے ہوں۔ ان پانچ سالوں میں ہرطرح کی قربانیاں دے کر جمہوریت کو مضبوط بنایا گیا۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اصولوں کی قربانیاں دی گئیں۔ ضابطہ اخلاق فراموش کیا گیا۔ قانون اور قاعدے کو پسِ پشت ڈالا گیا۔ رہی بات عوام کے مسائل کی‘ تو اس کا پورا بندوبست کیا گیا کہ عوامی کراہیں، اقتدار کی سماعتوں تک نہ پہنچیں مبادا جمہوریت کی خدمت میں محوو مصروف اہلِ اقتدار اور اہلِ اختیار کی اس عظیم ریاضت میں خلل پڑے۔ یوں حکمران جمہوریت کی خدمت میں مصروف رہے اور عوام زندگی کو جبرِ مسلسل کی طرح کاٹتے رہے۔ کبھی سی این جی کے لیے لمبی قطاروں میں لگے رہے، کبھی گرمیوں کی تپتی دوپہروں اور مچھروں سے بھری راتوں میں گھنٹوں لوڈشیڈنگ کا عذاب سہتے رہے‘ سردیوں میں ان کے چولہے ٹھنڈے رہے‘ گیس کا بحران گھروں سے لے کر کارخانوں تک پھیل گیا۔ فیکٹریاں بند ہونے لگیں اور ہزاروں دیہاڑی دارمزدوروں کے لیے سانس کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا۔ جن پانچ سالوں میں جمہوریت مضبوط ہوتی رہی، ان پانچ سالوں میں ملک میں حالات اور غربت کے ہاتھوں خودکشی کی شرح میں اضافہ ہوا۔ ملک کے بنیادی اور اہم ادارے جن پر ملک کی معیشت اور خوشحالی کا انحصار ہے، تباہی کے دہانے پہنچ گئے۔ ریلوے، عوامی سفر کا قدرے سستا ، اور آرام دہ ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ چند سال پہلے ریلوے کو لوگ سفر کے لیے بہترین آپشن سمجھا کرتے تھے مگر اس حکومت نے ریلوے کی بہتری کے لیے اور تو کچھ کیا نہیں‘ یہ ضرور کیا کہ چلتی ہوئی ٹرینوں کو بند کردیا۔ ضرورت تو اس کے برعکس تھی کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر مزید ٹرینیں چلائی جائیں مگر اس طرح کے اقدامات سے شاید وزیر ریلوے کے ذاتی کاروبار کو دھچکا پہنچ سکتا تھا کیونکہ موصوف ایک بڑے ٹرانسپورٹر ہیں۔ مگر ان کی سچائی کی داد ضرور دینا پڑے گی کیونکہ انہوں نے دوسروں کی طرح لگی لپٹی رکھے بغیر تسلیم کیا کہ ریلوے کا ادارہ تباہ ہوچکا ہے اور ہمارے پاس اتنے فنڈز نہیں ہیں کہ اس کی بحالی اور خوش حالی کے لیے کچھ کرسکیں۔ وزارت کے پانچ سال مکمل ہونے پر ریلوے کے اعلیٰ افسران کی جانب سے ریلوے کے سابق وفاقی وزیر غلام احمد بلور کے اعزاز میں ایک شاندار الوداعی دعوت کا اہتمام کیا گیا‘ اور سنا ہے کہ موصوف نے پھر سے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر انہیں اگلی حکومت میں بھی موقع ملا تو وہ ریلوے کی خدمت کرنا چاہیں گے۔ (خدا ہمارے حالوں پر رحم کرے ) اعلیٰ، کلیدی عہدوں کے لیے حکومت کا معیار نہ جانے یہ کیوں رہا کہ نیب زدہ ، کرپٹ افسران کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا‘ اسّی ارب روپے کی کرپشن کے الزام میں عدالت کو مطلوب تو قیر صادق بھی اسی حکومت کی چوائس تھے۔ ایسے کرپٹ افسران کی موجودگی سے سٹیل ملز سے لے کر پی آئی اے تک، ادارے پھلنے پھولنے کی بجائے تباہ ہوگئے۔ کرپشن کا کلچر صحیح معنوں میں ملک میں رواج پا گیا۔ حکومت میں شامل وزراء پر کرپشن کے الزامات لگے اور ثابت بھی ہوئے۔ نوکریاں بکتی رہیں‘ یہاں تک کہ درجہ چہارم کی نوکریوں کے لیے بھی امیدواروں سے لاکھوں روپے بٹورے گئے۔ ملک میں روزگار کے مواقع تو کیا پیدا ہوئے توانائی کے شدید بحران نے پہلے سے موجود صنعتوں کو بھی تالے لگوا دیے۔ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس سے متعلقہ صنعتوں کے مالکان نے اپنا سرمایہ بنگلہ دیش منتقل کرنا شروع کردیا۔ یوں لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے۔ ہاں بے نظیرانکم سپورٹ سکیم میں اربوں روپیہ جھونک کر غریبوں کو بھکاری ضرور بنایا گیا ۔ فی خاندان صرف ایک ہزار روپے کی ماہانہ مالی مدد کرکے نہ جانے حکومت نے ان غریبوں کی غربت میں کیا کمی کی لیکن یہ ضرور ہے کہ اگر بے نظیر انکم سپورٹ میں استعمال ہونے والی خطیررقم سے چھوٹے چھوٹے انڈسٹریل یونٹ لگائے جاتے، گھریلو انڈسٹری کو فروغ دیا جاتا‘ غریبوں کو ہنر مند بناکر انہیں آسان شرائط پر قرضے دے کر زندگی میں اپنی روزی کمانے کے قابل بنایا جاتا تو پھر یقینا اس سکیم سے دوررس نتائج حاصل ہوتے مگر فی الحال تو فی کس خاندان ایک ہزار روپیہ ماہانہ دے کر صرف اپنے ووٹ پکے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاکر حکومت میں آنے والوں نے ایسی عوام کُش پالیسیاں بنائیں کہ غریب‘ غریب تر ہوگئے بلکہ وہ سفید پوش طبقہ جو کسی نہ کسی طرح عزت سے گزارا کرتا تھا‘ غربت کی دلدل میں دھنس گیا۔ اسی غربت کے پیٹ سے جرائم اور غیراخلاقی سرگرمیاں جنم لیتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ لوٹ مار کرنے والوں میں اب کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ طالبات بھی شامل ہیں۔ امن کا چہرہ داغدار رہا۔ ملک کے اہم ترین اداروں پر خودکش حملے ہوئے ۔ کوئٹہ سے لے کر کراچی اور پشاور تک معصوم بے گناہ لوگوں کا قتلِ عام ہوتا رہا۔ بم دھماکوں میں لوگ مرتے رہے مگر سیاسی مصلحتوں اور مفادپرستی نے اربابِ اختیار اور اہلِ اقتدار کو چین کی نیند سلائے رکھا‘ کیونکہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے یہ سب کچھ ناگزیر تھا۔ رخصت ہونے والی حکومت اس بات پر نازاں ہیں کہ وہ پاکستان کی پہلی جمہوری حکومت ہے جس نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ نگران سیٹ اپ کے لیے مشاورت ہورہی ہے۔ الیکشن کا نقارہ بھی بجنے والا ہے۔ انتخابی مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ پانچ سال حکومت کرکے، عوام کی جھولی میں غربت‘ خودکشی‘ بے چارگی‘ مہنگائی کی خیرات ڈالنے والے اب پھر سے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا ’’انقلابی‘‘ نعرہ لگاکر میدان میں اُترائے ہیں۔ ریلوے کی تباہی کرنے والے سابق وفاقی وزیر اگلی حکومت میں پھر سے ریلوے کی وزارت کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی مصلحتوں کی چھتری تلے کراچی میں روزانہ عوام کا قتلِ عام دیکھنے والی سیاسی جماعتیں نعرہ لگارہی ہیں کہ ہم کراچی کا امن بحال کریں گے۔!عوامی لٹیرے‘ قومی مجرم اور ملکی خزانے کو لوٹنے والے عوام کے غم میں پھر سے نڈھال ہیں۔ دکھ یہ نہیں کہ اس نے بھی وعدے بھلا دیے حیرت یہ ہے کہ اب بھی صفِ معتبر میں ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں