اسی محرم کی بات ہے، ریڈیو پاکستان لاہور پر دس محرم کے حوالے سے‘ محفلِ مسالمہ کی ریکارڈنگ تھی۔ اس پروگرام کی پروڈیوسر عفت علوی تھیں۔ تمام شعراء وقت پر پہنچ گئے‘ مگر ممتاز شاعر خالد احمد کا انتظار ہوتا رہا۔ کافی دیر انتظار کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ محفلِ مسالمہ کی ریکارڈنگ کا آغاز کردیا جائے‘ خالد صاحب آئے تو ان کا کلام علیحدہ سے ریکارڈ کرکے ساتھ شامل کردیا جائے گا۔ خیر پروگرام شروع ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد ریڈیو کی ایک اور پروڈیوسر روم کی طرف آئیں اور عفت علوی سے کہا خالد احمد آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان کی طبیعت بہت خراب ہورہی ہے۔ پروگرام کی پروڈیوسر خالد احمد کو لے کر ریکارڈنگ روم کی طرف آئیں۔ انہیں پانی پیش کیا گیا۔ شاعر کو سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی اور مسلسل کھانسی سے ان سے بولا نہیں جارہاتھا۔ پروگرام کی ریکارڈنگ روک دی گئی اور خالد صاحب سے درخواست کی گئی کہ آپ آرام کریں‘ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے مگر وہ مصّر ہوئے کہ نہیں میں کلام ضرور پڑھوں گا‘ بہرحال طبیعت ذرا سنبھلنے کے بعد اپنے وقت کے کمٹڈ شاعر خالد احمد نے نواسۂ رسولؐ اور اہلِ بیتؓ کی شان میں نذرانۂ عقیدت پیش کیا اور اس کے ساتھ ہی ان پر کھانسی کا ایک شدید دورہ پڑا۔ دوست شعراء اسی وقت خالد احمد کو ہسپتال لے گئے۔ پھر ان کی طبیعت سنبھلی نہیں۔ انہیں پھیپھڑوں کا کینسر تشخیص کیا گیا اور بالآخر یہی بیماری چپکے سے شاعر کو وادیِ عدم کی طرف لے گئی۔ 19 مارچ 2013ء کو خالد احمد وفات پاگئے۔۔۔! مذکورہ بالا واقعے کی راوی عفت علوی ہیں‘ جو خود بھی بہت اچھی شاعرہ ہیں‘ بتاتی ہیں کہ یہ خالد احمد کی ریڈیو پر آخری ریکارڈنگ تھی اور غالباً یہ ان کی زندگی کا آخری مشاعرہ بھی تھا۔ عفت کا کہنا ہے کہ خالد احمد سے اس آخری ملاقات کا نقش ہمیشہ تازہ رہے گا۔ اپنے کام اور شاعری کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ کتنی حیران کن ہے کہ طبیعت کی خرابی کے باوجود وہ اپنے وعدے کی پاسداری میں ریکارڈنگ کے لیے ریڈیو پہنچے۔ یقیناً انہی چھوٹی چھوٹی مگر اہم خصوصیات سے ان کا کردار سامنے آتا ہے۔ خالد احمد سر تا پا ایک شاعر تھے، شاعری سوچتے رہے، شاعری اوڑھتے رہے، شعر کہتے اور شعر بُنتے رہے۔ دنیا کے دوسرے کام تو سب اضافی تھے وگرنہ ان کی رگوں میں لہو کی جگہ نظمیں رقص کرتی تھیں۔ شعر بولتے اور مصرعے دھمال ڈالتے تھے۔ برصغیر کے اس گھرانے میں جنم ہوا جو بعد ازاں ادب کا نامور گھرانہ ثابت ہوا۔ خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور جیسی ادب کی محترم اور ممتاز افسانہ نگار خواتین خالد احمد کی بہنیں تھیں۔ تمام عمر احمد ندیم قاسمی کی سرپرستی بھی حاصل رہی اور اس دولت کو اس طرح سے لوٹایا کہ پھر خود تین نسلوں کی ادبی سرپرستی کی۔ ماہنامہ ’’بیاض‘‘ کا آغاز کیا تو پھر کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرا جب بیاض مہینے کی پہلی تاریخوں میں چھپ کر ادبی ذوق رکھنے والوں کے ہاتھوں تک نہ پہنچا ہو۔ ادبی ماہنامہ نکالنا کبھی بھی منافع بخش کاروبار نہیں ہوتا بلکہ کاروبار ہوتا ہی نہیں‘ یہ تو عشق اور کمٹمنٹ کا کھیل ہے۔ یہ ادبی ماہنامہ ایک ایسے فورم کی صورت اختیار کرگیا جہاں نو آموز شعراء بلا جھجک اپنا کلام بھیجتے۔ خالد احمد کی ادارات میں، ان کے کلام کی خامیاں بھی درست ہوجاتیں اور انہیں چھپنے کو ایک ایسا ماہنامہ ملتا جہاں ظفر اقبال، خورشید رضوی اور امجد اسلام امجد جیسے بڑے بڑے نام چھپتے۔ نعمان منظور اور عمران منظور کی ہمراہی میں خالد احمد اور بیاض کا یہ سفر بائیسویں برس میں داخل ہوچکا تھا۔ مجھے اُمید ہے کہ خالد احمد کے بعد بھی نعمان اور عمران اس سفر کو کامیابی سے جاری رکھیں گے۔ یہاں اس بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ صلے اور ستائش کی پروا کیے بغیر، ماہنامہ بیاض، برسوں سے پڑھنے والوں کو مل رہا ہے۔ ان بامروت لوگوں نے تو کبھی شکریہ کی رسید کی بھی پروا نہیں کی۔ خالد نے تمام عمر کتاب اور حرف کی محبت میں گزاری۔ شعر کہے۔۔۔کالم لکھے، ڈرامے لکھے۔۔۔ حکومت کی طرف سے صدارتی ایوارڈ بھی ملا۔۔۔ تشبیب، ہتھیلیوں پہ چراغ، پہلی صدا پرندے کی، ایک مٹھی ہوا، نم گرفتہ۔۔۔کتابوں کے نام ایسے‘ جیسے ایک مصرعے کی نظمیں۔ اس کی باکمال ادبی شخصیت کی وفات کی خبر اخبارات میں کہیں اندر کے صفحات پر ایک کالمی چھپی اور ٹی وی چینلز کی 24/7 کی نشریات کے دوران شاید چند سیکنڈ کا ٹائم بھی مشکل ہی ملا ہو۔ ادب کی دنیا کا ایک ایسا شخص جس کے رخصت ہوجانے سے ادبی محفلوں کی ویرانی مزید بڑھ گئی ہے۔ وہ شخص جو ادب کے نو آموز قبیلے کی سرپرستی کرتا، ان کے لیے ایک تحریک اور مہمیز کی حیثیت رکھتا تھا جس نے اردو ادب کے دامن کو بہت کچھ دیا۔ اس کی وفات کو میڈیا نے افسوسناک انداز میں نظر انداز کیا۔ اہلِ علم، اہلِ کتاب، علماء، ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ یہی سلوک ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا وتیرہ ہے۔ ابھی چند ہفتے بیشتر معروف سینئر شاعرہ شبنم شکیل کی وفات ہوئی تو بھی ایسی ہی بے خبری اور پہلو تہی کا رویہ سامنے آیا۔ ادب کے ایک ممتاز نقاد ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی وفات پر بھی خبر ڈھونڈنا مشکل تھا جبکہ اس کے برعکس ڈرامہ اور فلم سے تعلق رکھنے والے فنکاروں اور کامیڈین کی وفات پر لائیو نشریات پیش کی جاتی ہیں۔ ان کی برسیوں پر خصوصی پروگرام پیش ہوتے ہیں۔ یوں نئی نسل ان کے نام اور کام سے باخبر رہتی ہے جبکہ علم کی دنیا کے باسیوں کے ناموں پر فراموشی کی گرد پڑتی رہتی ہے۔ چند ایک ناموں کے سوا، لوگ بھول جاتے ہیں کہ کس عہد میں کون سے ایسے خاک بسر تھے جنہوں نے تمام عمر، احساس کے پتھریلے راستوں پر سفر کیا، حرفوں کی آبیاری کی، شعر بننے کو ہنر کیا، کہانی لکھی اور پھر خود کہانی بن گئے۔ یقیناً میڈیا کو ادب اور ادیبوں کے کاموں پر ڈاکومنٹریز بنانی چاہئیں۔ دلچسپ پروگرام ترتیب دینے چاہئیں تاکہ ہم اپنے اہلِ علم کو نئی نسلوں کے سامنے زندہ رکھ سکیں اور معاشرے میں ادب دوستی کو فروغ مل سکے۔ خالد احمد جیسے لوگ اب کم کم ہیں۔ ان کی رخصت سے ادبی منظر نامہ بہت اداس اور ویران ہے۔ عفت علوی نے سرتا پا اس شاعر کے لیے دو شعر کہے انہی پر اختتام تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے ہم ایسے لوگ زمانے میں پھر کہاں ہوں گے چلے گئے تو پکارے گی ہر صدا ہم کو…! نہ جانے کتنی زبانوں سے ہم بیاں ہوں گے