"SQC" (space) message & send to 7575

کتاب کا سفر اور بوڑھا پروفیسر

حلیے سے وہ کسی کالج کے ریٹائرڈ پروفیسر لگتے تھے۔ سرپر بالوں کی جگہ سفید برف سی دھری تھی اور کالے رنگ کے موٹے موٹے چشموں کے پیچھے سوچ میں ڈوبی آنکھیں جھانکتی تھیں۔ خدوخال پر گزرے سالوں کی گرد پڑی تھی، اور خاص متانت جو اہل علم کا خاصہ ہوتی ہے پورے وجود سے جھلکتی تھی ۔ کمر قدرے خمیدہ جو عمر سے زیادہ بلند قامتی کی وجہ سے تھی ۔ پرانی قمیض اور پتلون میں ملبوس وہ اکثر شام کو اس پارک میں دکھائی دیتے کچھ دیر چہل قدمی کرتے ۔ پھر ایک قریبی بنچ پر بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگتے۔ یا کبھی کبھی پارک میں شرارتیں کرتے بچوں کو دیکھتے اور زیرلب مسکراتے رہتے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ایک انیس بیس سالہ نوجوان، نیلے رنگ کا ٹریک سوٹ پہنے ہوئے، اپنی جوگنگ کے بعد ان کے ساتھ ہی بنچ پر بیٹھ جاتا۔ وہ ہمیشہ انہیں سرکہہ کر مخاطب کرتا۔ دونوں میں بات چیت سلام دعا سے آگے کبھی نہیں بڑھی تھی۔ نوجوان جوگنگ کرنے کے بعد بنچ پر بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لیتا رہتا اور کچھ دیر بعد پھر سے ایکسرسائز کرنے لگتا۔ ایک روز یوں ہوا کہ نوجوان اپنی روٹین کی ایکسرسائز کرنے کے بعد اسی مخصوص بنچ پر آکر بیٹھا تو وہاں ارنسٹ ہمینگوے کی کتاب دی اولڈ مین اینڈ دی سی (The old man and the sea)اور ڈیل کارنیگی کی کتاب دی لیڈر ان یو (The Leader in you)پڑی تھیں۔ نوجوان نے سوچا بھلکڑ پروفیسر صاحب آج اپنی کتابیں پارک ہی میں بھول گئے ہیں۔ کوئی بات نہیں میں انہیں لوٹا دوں گا۔ نوجوان یہ کتابیں اپنے ساتھ گھر لے آیا۔ ایسے ہی ورق گردانی کرتے ہوئے کتابوں کو پڑھنا شروع کیا تو اسے دلچسپی محسوس ہوئی۔ ڈبل کارنیگی کو پڑھنا قدرے آسان تھا۔ وہ پڑھتا چلا گیا۔ اسے ایسے لگا کہ کتاب کے اندر کوئی جادوگر بیٹھا ہے جو اس کی شخصیت کے اندر موجود اندیشے اور خوف کسی ایریزرکی طرح مٹاتا جارہا ہے۔ نوجوان کو یہ موٹی ویشنل کتاب پڑھ کر اپنے اندر ایک قوت اور عزم محسوس ہوا اگلے روز وہ ارادتاً کتابیں پارک میں ساتھ لے کر نہیں گیا کیونکہ وہ ایک دوروز اپنے پاس رکھ کر انہیں پڑھنا چاہتا تھا۔ اسی طرح ہفتہ گزرگیا۔ اس نے دونوں کتابیں پڑھ لی تھیں۔ کتابوں کی ہمراہی میں کچھ روز گزار کر اسے ایسا لگا جیسے اس نے کسی دانا شخص کے پاس یہ وقت گزارا ہو۔ جو اسے سمجھاتا رہا کہ زندگی میں امید اور عزم ہی کامیابی کی کنجی ہیں۔ وہ عمر کے جس دور میں تھا، اس کے خواب بلند تھے مگر پھر بھی سوطرح کے معاشی اور سماجی اندیشے اسے گھیرے رہتے اور کمزور کرتے تھے۔ مگر اسے ایسا لگا کہ ان کتابوں نے اسے ایک مضبوط اور ناقابل شکست انسان کی حیثیت سے مسائل سے لڑنا سکھادیا ہے۔ کتنی ہی ایسی صلاحیتیں ہیں جن کی ہمیں خبر نہیں ہوتی اور وہ ہمارے اندر کسی خزانے کی طرح چھپی رہتی ہیں یہ صلاحیتیں ہمیشہ مشکل حالات میں انسان دریافت کرتا ہے۔ اگر ہمت ہاردی جائے تو پھر یہ خزانہ کبھی دریافت نہیں ہوتا۔ کیونکہ ستارے تو ہمیشہ اندھیرے میں چمکتے ہیں۔ ایک ہفتے کے بعد نوجوان دونوں کتابیں پروفیسر کو لوٹانے کی غرض سے ساتھ پارک لے آیا اور اپنی معمول کی ایکسرسائز کرنے کی بجائے، اسی مخصوص بنچ پر بیٹھ کر پروفیسر کا انتظار کرنے لگا۔ چندہی لمحوں کے بعد دورسے پروفیسر صاحب آتے دکھائی دیئے۔ اس نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور کہا،’’ سر آپ ایک ہفتہ پہلے اپنی یہ کتابیں اس بنچ پر بھول گئے تھے۔ میں اس غرض سے اپنے ساتھ گھر لے گیا کہ اگلے روز آپ کی امانت آپ کو لوٹا دوں گا۔ مگر پھر میں نے ان کو پڑھنا شروع کردیا اور ایک ہفتہ اسی میں گزرگیا۔ میں شرمندہ ہوں کہ آپ کی امانت دیر سے آپ کو دے رہا ہوں۔‘‘ خمیدہ کمر پروفیسر مسکرایا۔ اپنی عینک درست کی اور نوجوان کا کندھا تھپتھپایا اور کہا۔ ’’مجھے خوشی ہے برخوردار کہ تم نے یہ کتابیں پڑھیںاور یقینا تمہیں ان کتابوں نے بہت کچھ دیا ہوگا کیونکہ کتاب پڑھنے والے کو کبھی خالی نہیں لوٹاتی۔ مگر یہ کتابیں میری امانت نہیں ہیں مگر یہ تمہارے پاس امانت ضرور ہیں کہ تم ان کو کسی دوسرے قاری تک پہنچائو۔ اپنے جیسے کسی دوسرے طالب علم کو پڑھنے کو دو‘‘۔ ’’جی؟‘‘ نوجوان نے حیرت سے بوڑھے پروفیسر کو سوالیہ انداز میں دیکھا۔ پروفیسر نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا’’ ہاں بالکل ایسے ہی جیسے میں نے یہ کتابیں تم تک پہنچائی ہیں۔ تم بھی کسی روز کسی پارک کے بنچ پر، بس کی سیٹ پر، بس سٹاپ کے بنچ پر یہ کتابیں جان بوجھ کر بھول جانا۔ تاکہ تم جیسا کوئی اور کتاب کا قاری ان کتابوں کو اٹھائے۔ اپنے گھر لے جائے اور انہیں پڑھے۔ بیٹا شاید تم نے اس کتاب پر لکھا ہوا نوٹ نہیں پڑھا ‘‘، پروفیسر نے کتاب کا آخری صفحہ کھولا تو اس پر لکھا تھا۔ ’’برائے کرم یہ کتاب پڑھنے کے بعد کسی پارک، بس سٹاپ، ریلوے سٹیشن کے بنچ پر رکھ دیجئے۔ تاکہ آپ جیسا کوئی اور قاری اسے پڑھ سکے۔ کتاب کے سفر میں کتاب کا ساتھ دیں۔‘‘ نوجوان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں حیرت تھی۔ پروفیسر نے خاموشی توڑی اور کہا،’’ برخوردار تم جانتے ہو میں پچھلے کچھ سالوں سے ایسا ہی کررہا ہوں۔ میں جان بوجھ کر کتابیں پبلک مقامات پر بھول جاتا ہوں تاکہ کوئی اور ہاتھ اس کے صفحات کے اندر چھپے قیمتی خزانوں کو تلاشے۔ کوئی اور ذہن اس کی روشنی سے مستفید ہو۔ میں اسی طرح اپنی لائبریری کی ڈھیروں کتابیں نامعلوم پڑھنے والوں تک پہنچا چکا ہوں۔ میرا فلسفہ یہ ہے کہ الماری میں رکھی کتاب پر گرد پڑنے سے کہیں بہتر ہے کہ کتاب کسی قاری تک پہنچ جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ اب تم بھی اس مشن میں میرا ساتھ دوگے۔ ‘‘ یہ کہہ کر بوڑھا پروفیسر آگے بڑھ گیا۔ اور نوجوان کو حیرت زدہ چھوڑ گیا۔!! قارئین ! کتاب کے سفر کی اس کہانی میں اگر ہم سب شریک ہوجائیں تو کڑاہی گوشت اوربرگرزدہ یہ معاشرہ کچھ نہ کچھ تو کتاب سے محبت کرنے لگے گا۔ مجھے پائلو کوئلو کی ایک بات یاد آرہی ہے جس نے کہا تھا کہ میری لائبریری میں بمشکل چند سو کتابیں رہتی ہیں کیونکہ میں کتابیں پڑھ کر انہیں آگے پڑھنے کے لیے دے دیتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ کتاب کو ہمیشہ سفر میں رہنا چاہیے۔ کتاب کو دوسرے قاری تک پہنچانے کا بوڑھے پروفیسر کا یہ خوب صورت انداز کیا آپ بھی اختیار کریں گے… کیا آپ بھی اپنی کتاب کسی پارک میں جان بوجھ کر بھول جائیں گے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں