"SQC" (space) message & send to 7575

April is the cruelest month?

ہرسال جب اپریل کا مہینہ آتا ہے تو ذہن میں ٹی ایس ایلیٹ کی یہ دولائنیں ضرور گونجنے لگتی ہیں۔ \"April is th cruelest month, breeding Lilacs out of the dead land, mixing memory and desire, stirring dull roots with spring rain.\" ٹی ایس ایلیٹ کی شہرۂ آفاق طویل نظم ،دی ویسٹ لینڈ کا آغاز انہیں لائنوں سے ہوتا ہے۔ اگرچہ اپریل کے حوالے سے انگریزی زبان میں کئی ایک نظمیں ایسی موجود ہیں جس میں اپریل کی بہار‘ موسم کی تبدیلی، کوموضوع بنایا گیا ہے۔ انگریزی زبان کے قدیم شاعر جیفری چوسر کی نظم کنٹربری ٹیل‘ میں ہی اپریل کو ایک ایسا مہینہ قرار دیا گیا ہے جو بہار کا مژدہ سناتا ہے۔ مگر ٹی ایس ایلیٹ نے جس ایک خاص تناظر میں اپریل کو یادوں، خوابوں، خواہشوں اور پچھتاووں کا مہینہ قرار دیا ہے، موسم سرما اور گرما کے سنگم پر موجود اس مہینے کی نرم گرم ہوائیں، یادوں کو مہمیز لگاتی ہیں۔ سوچ کو تحریک دیتی ہیں۔ اس کی بارشوں سے زمین میں زندگی سے عاری بے جان جڑیں پھوٹ پڑتی ہیں۔ یہ ملے جلے جذبات اور ملی جلی یادوں کا مہینہ ہے ۔ ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی نظم ویسٹ لینڈ کا آغاز ان لائنوں سے کیا۔ اس نظم میں بنیادی طورپر وہ انسان کی اقدار اور اخلاقیات سے دوری کا ماتم کرتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب یورپ میں مشینوں کی حکومت سے، احساس مروت کچلے جارہے تھے روحانی بالیدگی سے دور جدید دور کا انسان مادیت پرستی کی دوڑ میں دیوانہ وار بھاگ رہا تھا۔ بہرحال جس دوڑ کا 20ویں صدی کے شروع میں آغاز ہوا تھا وہ تو اب بھی جاری ہے۔ جسم اور روح کی کشمکش کا عمل ہرسوچنے اور غورکرنے والے شخص کے اندر موجود ہے۔ بات اپریل کے مہینے کی ہورہی تھی ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں بھی اس بار کا اپریل واقعی کچھ لوگوں کے لیے بڑا ظالمانہ ہے۔ کچھ کے لیے یادوں سے بھرا ہے، کچھ کے لیے خواہشوں اور خوابوں کی پنیری بورہا ہے تو کچھ کے لیے بہار کی بارش جیسا ہے جس میں مردہ اور بے جان شاخوں سے بھی شگوفے پھوٹنے کی امید پیدا ہونے لگتی ہے۔ ذرا سوچئے کہ اپریل کن لوگوں کے لیے بھاری ہے۔ جی ہاں وہی جو میری اور آپ کی نمائندگی کرنے اسمبلیوں میں جانے کے خواہش مند ہیں اور ان کے کاغذات نامزدگی کی الیکشن کمیشن میں بے رحمانہ سکروٹنی کا عمل جاری ہے۔ بہت سے چہروں سے نقاب اتررہے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایسی سیاسی جماعتیں جو سیاست میں اصول اور قاعدے کی بات کرتی ہیں ان کی چھتری تلے بھی جعلی ڈگری لینے والے لوگ موجود ہیں۔ جعلی ڈگری اور دہری شہریت پرچارسابق ارکان اسمبلی کو سزائیں اور جرمانے ہوچکے ہیں۔ پاکستانی عوام کی نمائندگی کرنے والے یہ سابق ارکان اسمبلی جنہیں حرف عام میں سیاسی رہنما کہا جاتا ہے۔ جھوٹ دھوکہ دہی اور بدیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ دوکو جیل بھیج دیا گیا اور خبر ہے ایک قومی رہنما فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اپریل ان کے لیے بھی بھاری مہینہ ہے جس کے عوام دوست چہروں سے نقاب اتر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو ٹیکس ادا نہیں کرتے مگر ملک کی محبت کا دم بھرتے ہیں۔ ملک کے بینکوں سے قرضہ لینا اپنا قومی فرض سمجھتے ہیں اور کروڑوں کے قرضوں کو معاف کروانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق تقریباً چارہزار ایسے امیدوار سامنے آتے ہیں جنہوں نے اپنے ذمے واجب الادا ٹیکس جمع نہیں کروایا۔ طفیلیے کی طرح ملک کے وسائل کو چمٹے ہوئے ان قومی مجرموں نے سیاسی رہنمائوں کے لبادے اوڑھ رکھے ہیں۔ پانچ سال تک سیاست کے مزے لوٹنے والے ارکان اسمبلی میں سے بیشتر نے پارلیمنٹ لارجز چھوڑتے ہوئے، اپنے ذمے واجب الادا رقم، جمع نہیں کروائی۔ اور سنا ہے کہ کچھ عوامی نمائندے تو نائو اور نیور(Now or Never)کی پالیسی پر گامزن اپنے دفاتر سے قیمتی کمپیوٹر اور دیگر اشیا بھی اٹھا کر ساتھ لے گئے ہیں۔ یہ ہیں ان کے اصل چہرے جنہیں عوام نے منتخب کرکے پانچ برس کے لیے اسمبلیوں میں قانون سازی کرنے کے انتہائی اہم مقصد کے لیے بھیجا تھا اور ایسے ہی لوگ اب آئندہ الیکشن میں دوبارہ سے منتخب ہونے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن یقینا تعریف کا مستحق ہوگا اگر سیاسی دبائو کے باوجود ہرقسم کی ریاستی وابستگی سے بالاتر ہوکر کاغذات نامزدگی کی سکروٹنی کا عمل سرانجام دے۔ یہ یقینا قوم پر احسان ہوگا اور اگر اسی طرح کی بے رحمانہ سکروٹنی جاری رہی تو ہوسکتا ہے کہ کل کو امیدواروں کی قطار میں چند ہی چہرے پرانے دکھائی دیں۔ ویسے ہی اگر یہ امیدوار باسٹھ، تریسٹھ کی چھلنی سے گزارے جائیں تو پھر ہمیں انتخابات کے لیے امیدوار ڈھونڈنا مشکل ہوجائے گا۔ یہ شق حقیقت سے ذرا دور ہے ۔ اب ذرا دیکھیں کہ کون ایسا ہے جس کے لیے اپریل ،یاد ، خواہش اور پچھتاوے کا مہینہ ہے۔ سردست تو ایک ہی نام ذہن میں آرہا ہے ۔اور وہ ہے ملتان کے سید یوسف رضا گیلانی، جی ہاں وہی جن کے نام کے ساتھ اب سابق وزیراعظم کا سابقہ موجود ہے۔ ملک سے زیادہ شاہ کی وفاداری کرنے پر عدالت عالیہ کی طرف سے نااہل قرار دیئے گئے۔ اپنے دور حکومت میں بھی کوئی لائق تحسین کام نہیں کیا کہ عوام انہیں یادرکھیں یہاں تک کہ ان کی نااہلی کے فیصلے پر پیپلزپارٹی کا ورکر مطمئن اور خاموش رہا۔ ایک ہی خوبی ان میں ایسی تھی جس کی بنیاد پر انہیں یاد کیا جاسکتا ہے اور وہ ان کی خوش لباسی ہے۔ ان کے شاندار ٹائیاں، اعلیٰ ترین برانڈ ڈسوٹ، دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ قومی خزانے پر کیا بیتی ہوگی۔ بہرحال یہ اعزاز ان سے کوئی نہیں چھین سکتا کہ وہ اس ملک کے خوش لباس وزیراعظم رہے ہیں، جس کی چالیس فیصد آبادی خط غربت کے نیچے سانس لیتی ہے۔ جن کے وجود پر ان کی تشنہ آرزؤں کے چیتھڑے لٹک رہے ہیں۔ ان کی نیم لباسی بھی شاہد ہے اور بھوک سے زرد چہرے بھی وہی ہیں۔ روٹی‘ کپڑا اور مکان کے ان نعروں کی طرح جو نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی ویسے ہی کھوکھلے ہیں۔ وعدے جو کبھی پورا کرنے کے لیے کیے ہی نہیں جاتے۔ صرف الیکشن کے موسم میں غریب شہر کی آنکھوں میں جھوٹے خواب سجانے کے لیے یہ کھوکھلے نعرے اور جھوٹے وعدے کام آتے ہیں۔ مگر ہاں اپریل بہار کی اس بارش کا مہینہ بھی تو ہے جو بے جان، مردہ جڑوں کو نمو کی طاقت دیتی ہے۔ کاش ہم سب کے لیے، پاکستان کے لیے اپریل ایسا ہی بار آور مہینہ ثابت ہو ، جو نئے موسم کی نوید لائے۔!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں