سیاست کی گرما گرمی اور انتخابات کے موسم کی تپش میں یہ موضوع بالکل الگ تھلگ دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک برف زار میں جان سے گزرنے والوں کی دلگدازداستان ہے ۔ وہی برف زار جو دنیا کا سب سے بلند محاذ جنگ ہے اور جہاں عام انسان ایک سیکنڈ گزارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جہاں کی برفیلی ہوائیں نشتر سے زیادہ کاٹ دار ہیں۔ جہاں موسم کی شدت، دشمن سے بڑھ کر دشمن ثابت ہوتی ہے۔ جہاں پہنچنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے خاص لباس خاص طرح کے Equipmentسے آراستہ ہوکر ہی محفوظ طریقے سے پہنچا جاسکتا ہے۔ اسی برف زارمیں گزشتہ سال، سات اپریل کو پاکستان کی فوجی تاریخ کا افسوسناک حادثہ پیش آیا۔ یہ حادثہ اس برف زار یعنی سیاچن گلیشئر کی سب سے اہم ملٹری بیس، گیاری ملٹری بیس میں پیش آیا‘ جہاں سکس نادرن لائٹ انفنٹری بٹالین کے جوان، وطن کی حفاظت کے مقدس ترین فریضے کے سلسلے میں اپنے ہیڈکوارٹر میں موجود تھے ۔ پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق، رات کے دوبجے، برف کے پہاڑوں پر تباہ کن لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں، ایک دیو ہیکل برفانی تودہ گیاری سیکٹر کے ملٹری ہیڈکواٹر پر گرتا ہے۔ جس کے بعد کئی فٹ برف کا پہاڑ ملٹری ہیڈکواٹر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس قاتل برف تلے ، کُل، 138عشاق وطن زندہ دب جاتے ہیں۔ ان میں سے 6سویلین ہیں اور باقی فوجی جوان۔ ٹی وی چینلز پر ایک خبر نمودار ہوتی ہے۔ سیاچن کے گیاری سیکٹر میں برفانی تودا گرنے سے 138فوجی اور سویلین برف تلے دب گئے۔ اس تشویشناک خبر کا فالو اپ آنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے کہ ٹی وی چینلز کے پر جوش رپورٹرز اور کیمرہ مینوں کا یہاں پہنچنا اور سٹوری کو کورکرنا، ممکن نہیں تھا۔ اگرچہ برف کے پہاڑتلے، زندگی کا بچنا محال تھا پھر بھی کسی مصلحت کے تحت یہ اعلان نہ کیا گیا کہ برف تلے دبنے والے سب اس فانی دنیا سے دائمی زندگی کی طرف رخصت ہوچکے ہیں۔ ریسکیو کی کارروائی کا آغاز ایک بڑا مرحلہ تھا۔ پاکستانی فوجیوں، انجینئرز کی ٹیم کے ساتھ امریکی، جرمن اور سوئس ماہرین نے ریسکیو کی کارروائی میں حصہ لیا۔ ان کے پاس ، زندگی کے آثار ڈھونڈنے والے آلات اور ایسے کیمرے تھے جوبرف کے اندر کی تصویر کھینچ سکیں۔ اس حادثے اور موسم کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اتنی اعلیٰ سطحی ریسکیو کے عمل کے باوجود، حادثے کے پچاس دن کے بعد برف کے پہاڑتلے ، سے پہلے شہید کا جسد خاکی نکالا گیا۔ اس کی وجہ موسم کی سختی تھی۔ اس وقت تک اعلان کیا جاچکا تھا کہ اس حادثے کا شکار ہونے والے افراد شہید ہوچکے ہیں۔ اس المناک حادثے کو اس برس، اپریل کی سات تاریخ کو پورا ایک سال گزرگیا۔ ابھی بھی انیس شہید اسی جگہ برف کی چادر اوڑھے سورہے ہیں۔ برف کے اس سمندر سے ان کے جسد خاکی باہر نہیں نکالے جاسکے۔ سوچتی ہوں ، اس حادثے کو پورا ایک سال گزر گیا۔ مگر بحیثیت قوم ہم نے کبھی ان عظیم لوگوں کی قربانی کو اس طرح سے محسوس نہیں کیا جیسے کرنا چاہیے تھا۔ ہمیں ان کے نام معلوم نہیں، ان کے چہرے کیسے تھے، ان کی آنکھوں میں کیسے خواب تھے، ان کے دل کی آرزوئیں اور حسرتیں کیا تھیں۔ وطن کے نام پر جان دینے والے ان عظیم شہدا کی گھریلو زندگی کیسی تھی؟۔کبھی ہم نے سوچا کہ برف کے اس منجمد صحرا میں وہ اپنے شب روز کیسے گزارتے تھے، اپنے پیاروں اور گھروں سے دور ہونے کی اداسی اور تنہائی کو وہ کیسے اپنی طاقت اور قوت میں بدلتے تھے۔ وہ بھی تو کئی انسانی رشتوں میں بندھے ہوں گے، کچھ بھی ہو، برف کے یخ بستہ ماحول سے دور، اپنے گھروں کی نرم گرم آسودگی کبھی ان کو بھی تو تڑپاتی ہوگی، وہ کسی کے باپ تھے، کسی کے بیٹے، کسی کے بھائی اور کسی کے شوہر، اپنے پیاروں کے انتظار کرتے چہرے ان کے دل میں بھی تو تصویر ہوتے ہوں گے مگر وہ توعشق کی راہ کے مسافرتھے۔ جس میں بڑے سخت مقام آتے ہیں۔ وہ سفر کی سختیوں سے آشنا تھے مگر فخراور خوشدلی کے ساتھ وطن کی حفاظت کا عظیم فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔ وہ خدا کی راہ کے مسافرتھے جو اپنے گھروں کو واپس لوٹتے تو غازی کہلاتے۔ دائمی گھروں کو رخصت ہوئے اس لیے شہید ٹھہرے۔ وہ شہید جو جان دینے کے بعد بھی خدا سے اپنا رزق پاتا ہے۔ وطن کے ان عظیم بیٹوں کو قوم کا سلام!ان کی ذات سے جڑے تمام رشتوں کو ہمارا سلام! گیاری سیکٹر کے شہدا سے ہمیں شرمندگی بھی ہے کہ انہوں نے وطن کی خاطر، سختیاں سہیں، گھروں سے دور رہے اور پھر جان بھی اسی راہ میں گئی۔ مگر ہم نے اُسی وطن کا کیا حال کردیا ہے۔ اس دھرتی پر حکمرانی کرنے والے کئی لوگ ایسے ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے، بینکوں سے قرضے معاف کرواتے ہیں، جعلی ڈگریوں پر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اور اربوں روپے کی کرپشن سے اپنے خزانے بھرتے ہیں۔ اب پھر سے وہی لوگ میدان میں ہیں۔ ایک بار پھر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اور شاید اس جرم میں ہم بھی شریک ہیں کیونکہ ہم ہی انہیں ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں۔ کاش اگر ایک بار یہ احساس ہمارے دلوں میں آجائے کہ اگر اس وطن سے محبت کرنے والے جان دے کر وطن سے محبت کا حق ادا کر سکتے ہیں تو کیا ہم ووٹ کا صحیح استعمال کرکے اس وطن سے محبت کا قرض ادا نہیں کرسکتے ! اس بار ووٹ دینے لگیں تو ایک بار گیاری سیکٹر کے شہداکی قربانی کو ضرور یاد کرلیجیے۔