مئی کے مہینے سے وطن عزیز میں طویل موسم گرما کا آغاز ہوجاتا ہے۔ دھوپ کا سنہری پن کچھ اور سنہرا ہوجاتا ہے اور ہوائوں میں تپش بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے ہاں موسم کی شدت، حدت اور طوالت کی بناپر اس کی پسندیدگی سرما کی نسبت کم ہوتی ہے اور بیشتر لوگ گرمیوں سے نالاں نظر آتے ہیں ،مگر مجھے مئی کا مہینہ بہت پسند ہے اس لیے کہ مئی کی گرم ہوائیں املتاس کے درختوں پر پیلے پھولوں کی بہار کھلادیتی ہیں۔ لاہور میں کئی سڑکوں کے کنارے املتاس کے درختوں کی قطاریں کھڑی ہیں خصوصاً نہر کنارے اور ریس کورس پارک میں تو ایک پورے واکنگ ٹریک کے ساتھ ساتھ املتاس کے درخت لگے ہیں۔ مئی کے مہینے میں اس ٹریک پر سیر کرنے کا لطف ہی الگ ہے۔ جب املتاس کے ان درختوں پر سبزپتوں سے زیادہ پیلے پھولوں کے گچھے لٹکتے دکھائی دیتے ہیں تو منظر پُرلطف ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتاہے کہ یہ پھول بھی انگریز شاعر ورڈزورتھ (Words worth)کے پسندیدہ ڈیفوڈلز کی طرح شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں بھی دیکھو، ہم کتنے خوبصورت ہیں۔ مگر آج کے مصروف انسان کے پاس اتنا وقت کہاں کہ چند گھڑی ٹھہر کر قدرت کی حسین فیاضی سے لطف اندوز ہوں۔ بات مئی کے مہینے کی ہورہی ہے تو اس بار ہمارے لیے یہ مہینہ اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ صرف نودن بعد تاریخ کو املتاس کے پھولوں سے مہکتے اسی مہینے میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ ماضی میں ہونے والے الیکشن کی نسبت اس بار کے عام انتخابات کئی لحاظ سے مختلف اور منفرد ہیں۔ دہشت گردی نے انتخابی ماحول کو لہولہان کردیا ہے۔ ووٹر اور امیدوار دونوں خوف اور بے یقینی کی صورت حال سے دوچار ہیں۔اس کے باوجود عام انتخابات کے کچھ پہلو بہت حوصلہ افزا اور خوش آئندبھی ہیں۔ کئی دہائیوں کے بعد ملک میں ایک تیسری سیاسی قوت پاکستان تحریک انصاف کی صورت میں موجود ہے، جس نے انتخابی منظر نامے پر ہلچل پیدا کررکھی ہے۔ دوسری خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بار پاکستان کے نوجوان سیاسی اور انتخابی عمل میں باقاعدہ شریک ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار الیکشن کے حوالے سے جن پہلوئوں پر غوروخوض ہورہا ہے اور بحثیں ہو رہی ہیں، ان میں سرفہرست یہی موضوع ہے کہ اس بار الیکشن میں یوتھ فیکٹر کتنا فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں کل ووٹرز کا 47فیصد نوجوان ہیں۔ ان کی تعداد کم وبیش چار کروڑ بنتی ہے۔ یہ چارکروڑ نوجوان ووٹر جن کی عمریں 18سے 35سال کے درمیان ہیں، اس سے پہلے کبھی بھی انتخابی عمل میں اس طرح شریک نہیں ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوان ووٹرز کو تحریک دینے میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ عمران خان کی شخصیت کا کرزما ہی ہے کہ آج کے نوجوان اکسٹھ سالہ عمران خان کو اپنی نسل کا لیڈر قرار دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما نوجوان ووٹرز کو اپنی طاقت قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ ملک میں نصف ووٹرز نوجوانوں پر مشتمل ہے اس لئے اس بارکے الیکشن میں پہلی دفعہ دوسری تمام سیاسی جماعتیں بھی یوتھ فیکٹر پر اپنی توانائیاں صرف کر رہی ہیں۔ مثلاً مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت نے لیپ ٹاپ اسکیم اور سولر انرجی سسٹم طلبا میں تقسیم کر کے نوجوانوں کو اپنی جماعت کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔ میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی اس بار سیاسی میدان میں ہیں۔ نوجوان اور تعلیم یافتہ مریم نواز شریف کی سیاسی عمل میں شرکت اور ووٹروں سے براہ راست خطاب بھی نوجوان ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ وہ یقینا ہمارے سیاسی منظرنامے پر تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہیں۔ حال ہی میں کرکٹر شاہد آفریدی کی نواز شریف سے ملاقات اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت انہیں بھی اپنے ساتھ سیاسی عمل میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے پیچھے یہ حکمت عملی ہوسکتی ہے کہ عمران خان کے کرکٹ فینز کو تقسیم کیا جائے۔ لیکن یہ حکمت عملی کامیابی سے ہمکنار ہونے والی نہیں کیونکہ شاہد آفریدی کتنے ہی عمدہ کرکٹر کیوں نہ ہوں ان کی شخصیت عمران خان کی شخصیت کے دائرہ اثر کو نہیں چھو سکتی۔ مجھے یقین ہے کہ آفریدی خود بھی کپتان ہی کے پرستار ہوں گے۔ الیکشن میں یوتھ فیکٹر کی اہمیت کا اندازہ لگائیے کہ اس بار جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) نے چند ایسے نوجوانوں کو بھی امیدوار بنایاہے جو کلین شیو ہیں اور جدیدتعلیم یافتہ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اس بار الیکشن میں یہ چارکروڑ ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے؟ کیا آج کا نوجوان پاکستان کے سیاسی اور انتخابی عمل میں اتنی دلچسپی رکھتا ہے یا اس کی تمام تر سیاست، سوشل میڈیا ،فیس بک اور ٹوئٹر کے استعمال تک محدود ہے؟ کیا واقعی نوجوان ووٹر عمران خان کی جیت میں اہم کردار ادا کریں گے؟ ان تمام سوالات کے صحیح جوابات کے لیے ہمیں 11مئی تک انتظار کرنا ہوگا۔ مگر ایک بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آج کا نوجوان صرف سرکار کاٹی وی دیکھنے والا پاکستانی شہری نہیں بلکہ وہ بیسیوں نیوز چینلز دیکھتا ہے۔ سوشل میڈیا متحرک ہے، انٹرنیٹ کو روزمرہ استعمال میں لانے والے ایک گلوبل ویلج کا شہری ہے اور وہ اس بات سے بھی واقف ہے کہ کرپشن کرنے والے کون ہیں۔ پاکستان ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں کرپشن کے عفریت کو سخت قانون سازی سے قابو کیا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا حکومتوں کا اولین فرض ہے۔ کاروبار سیاست، ریاست اور ریاست کے شہریوں کی فلاح اور بہبود کے گرد گھومتا ہے۔ یہ کل کی بات ہے کہ نوجوان ایسے جذباتی شعروں پر یقین رکھتے تھے: سو جائو عزیزو! کہ فصیلوں پہ ہر ایک سمت ہم لوگ ابھی زندہ و بیدار کھڑے ہیں آج کا باشعور نوجوان جب ملک کی زوال پذیر صورت دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے : ہوا کے رخ پر کوئی دریچہ نہیں بنایا میرے بزرگوں نے سوچ کر گھر نہیں بنایا اسی لیے وہ سبھی پرانے چہروں سے یہ کہتا ہے : شب کو اجالنے کا ہنر ہم پہ چھوڑ دو تم تھک چکے ہو اب یہ سفر ہم پہ چھوڑ دو 11مئی قریب ہے۔ انشاء اللہ املتاس کے پیلے پھولوں کی بہار میں نوجوان ووٹر ایک بہتر اور اجلے پاکستان کی بنیاد ضرور رکھیں گے۔