بدھ 22مئی کے روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے صفحہ نمبر 9پر ایک تصویر نے توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ سکول یونیفارم کی نیلی قمیض میں ملبوس سفید دوپٹہ اوڑھے ہوئے پرائمری لیول کی ننھی بچیوں کا ایک گروپ، پرنسپل کے رویے کے خلاف احتجاج کررہا ہے۔ بچیوں کے چہروں کو غور سے دیکھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ جس بھی ایشوزپر انہیں احتجاج کے لیے باہر سڑک پر لایا گیا ہے وہ اپنی کم عمری کے باعث اس سے آگاہ نہیں ہیں۔ وہ تو بس کھیل کھیل میں اکھٹی ہوگئیں تو کسی بڑے کے حکم پر نعرے بلند کرنا شروع کردیئے۔ چند بچیوں کے چہروں پر معصوم اور بے ساختہ مسکراہٹ بھی ہے۔ چند لمحے تصویر دیکھنے کے بعد ایک ہی سوچ نے سراٹھایا کہ آخر ہمیں بحیثیت قوم ، اپنے ہر مسئلے کے حل کے لیے احتجاج، نعرہ بازی، جلسے جلوس کا اہتمام کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ کیا ریاست کا نظام ناکام ہوچکا ہے یااس نظام میں موجود افراد کی بے حسی نے صورت حال خراب کردی ہے۔ سکول یونیفارم میں ملبوس ننھی معصوم بچیوں کی‘ احتجاج کرتے ہوئے یہ تصویر ایک اور سوال بھی ہمارے سامنے رکھتی ہے کہ آخر معاملات ، مسائل اور ایشوز کے حل کے لیے، ہرمحکمے میں ایک سسٹم موجود ہے۔ کیا وہ ناکام ہوچکا ہے۔ کہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر اب ہم اپنے بچوں کو بھی احتجاج اور مظاہروں کی راہ پر ڈال رہے ہیں۔ ریاست کے نظام میں، رشوت، اقربا پروری، دھاندلی، دھونس، اس قدر پیوست ہوچکی ہے کہ معاملات کے حل کے لیے سیدھے، راستے پر کوئی بھی جانا پسند نہیں کرتا۔ لوگ اپنے جائز اور ناجائز کاموں کے لیے غیر قانونی ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ ابھی ہمارے ملک میں عام انتخابات کے بعد ہرجانب دھاندلی کا شور ہے۔ جیتنے والے بھی دھاندلی کا الزام لگارہے ہیں اور ہارنے والے بھی دھاندلی دھاندلی پکار رہے ہیں۔ احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ دھرنوں کی سیاست میں پی ٹی آئی اس وقت سب سے آگے ہے۔ الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پی ٹی آئی کے پرجوش کارکنوں کا ڈیفنس میں دھرنا کئی روز تک جاری رہا جسے بعد میں پارٹی کے چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر ختم کردیا گیا۔ کراچی میں تحریک انصاف کی رہنما زُہرہ شاہد حسین کے بہیمانہ قتل کے خلاف احتجاج اور دھرنوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ۔ عمران خان نے اپنی پارٹی کی سینئر خاتون رہنما زُہرہ آپا کے قتل کا ذمہ دار ایم کیوایم کو ٹھہرایا ہے برسوں کے بعد ایم کیوایم کے ووٹ بنک کو کراچی میں تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے دھچکا پہنچا ہے۔ ادھر ایم کیوایم نے عمران خان کو جہاں اس الزام کے خلاف 50ارب کا ہرجانے کا نوٹس بھیجا وہیں ایم کیوایم کے کارکنوں نے بھی دھرنے دیئے جلسے جلوس نکال کر اپنی طاقت اور احتجاج کا مظاہرہ کیا۔احتجاج اوردھرنوں کا سلسلہ لندن تک جاپہنچا۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے سینکڑوں کارکنوں نے برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10ڈائوننگ سٹریٹ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اور خبر یہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم کیمرون نے چند منٹ تک مظاہرین کو دیکھا بھی مگر کوئی بیان دینے سے گریز کیا۔ سو پاکستان مارکہ دھرنے، اور احتجاج اب سرحد پار بھی پہنچ چکے ہیں۔ اگرچہ کچھ ایشوز ضرور ایسے ہوتے ہیں جن کی اہمیت اور سنگینی اجاگر کرنے کے لیے مظاہرے یا احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے ۔ مگر ہمارے ہاں لوگوں کو چھوٹے چھوٹے مسائل پر بھی مظاہرہ کرنا پڑتے ہیں۔ کسی رہائشی علاقے میں پانی نہیں آرہا۔ تو لوگ بالٹیاں اور لوٹے اٹھاکر سڑک پر آجاتے ہیں۔ سڑک بلاک ہوتی ہے۔ ٹریفک کا رش بڑھتا ہے۔ لوگوں کو سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لاہور پریس کلب تو خاص طورپر شہر میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں آئے دن احتجاج اور مظاہرے، ٹریفک کے نظام کو درہم برہم کردیتے ہیں۔ سڑکوں پر بلاک ہونے والی ٹریفک میں معصوم بچے بھی متاثر ہوتے ہیں اور کسی ایمبولینس میں موجودمریض کی تکلیف کا اندازہ تو آپ خود لگاسکتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے بنیادی حقوق کا احساس ریاست کو دلانے کے لیے عوام کو کیوں سڑکوں پر آنا پڑتا ہے؟ اس لیے کہ ریاست کا وہ نظام جو انسانوں کی مدد، فلاح ،بہبود اور آسانی کے لیے بنایا گیا ہو ، بدقسمتی سے، ہم ایسے فلاحی نظام سے محروم ہیں۔ کیونکہ یہ نظام، رتبے، رشتے داری اور رشوت کو سلام کرتا ہے۔ پیسے اور پگڑی والے کا غلام ہے۔ غریب اور بے وسیلہ لوگوں کا حریف اور دھونس اوردھاندلی کرنے والوں کا دوست ہے۔ یہ نظام سیدھے راستوں سے آنے والوں کا مددگار نہیں ہے بلکہ مدد کے لیے دوسرے ذرائع استعمال کرنے والوں کے سامنے بچھ جاتا ہے۔ کیونکہ اس نظام کی بنیادیں کرپشن پر رکھی گئی ہیں۔ یہ اسی نظام کی کرشمہ سازی ہے کہ ٹریفک کا سگنل توڑنے والے کو دھر لیا جاتا ہے مگر آئین توڑنے والے کے لیے ’’محفوظ انخلاء‘‘ کے راستے مہیا کیے جاتے ہیں۔ سوروپے کی چوری کرنے والا چور کہلاتا ہے مگر قوم کے اربوں لوٹنے والے ڈاکو‘ قومی رہنما کہلاتے ہیں۔ اس نظام کو انسان دوست بنانا‘ عوام کی فلاح اور بہبود کے لیے نئے سرے سے استوار کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا آج امن، اور بجلی کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ کیونکہ اگر ریاست کا نظام انصاف، مساوات قانون کی پابندی اور حکمرانی پر مبنی ہوتا تو شاید مسائل اتنی سنگین صورت تک نہ پہنچتے۔ نہ ہی ہمیں چھوٹے چھوٹے ایشوز کے لیے ننھی بچیوں کو احتجاج اور مظاہروں کے لیے سکول کی چاردیواری سے باہر لانا پڑتا ۔ تصویر میں نیلی قمیض اور سفید دوپٹے میں ملبوس سکول کی معصوم بچیاں ایسے ہی کرپشن زدہ نظام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور اپنے بڑوں سے انسان دوست نظام کا تقاضا کررہی ہیں۔