بہتری کی خاطر اقدامات کرنے کے لیے ہم مزید حادثات کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟ کہیں ایک حادثہ ہوتا ہے، قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے، خبریں چیختی ہیں، چینلز پر شور مچتا ہے تو ارباب اختیار اور ذمہ داران یکدم غفلت کی نیند سے جاگ اٹھتے ہیں۔ بیانات کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے، حادثے کی مذمت کی جاتی ہے، اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ایسے حادثوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ چند دن یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پھر ایک نیا حادثہ، پرانے حادثے کی خبر کو دھندلا دیتا ہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس رویے اور انتظامی نااہلی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہتری کی صورت کہیں پیدا نہیں ہوتی۔ پورا سماج اس ڈگر پر گامزن رہتا ہے جس پر حادثے ہمارا مقدر بنتے رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں گجرات میں سکول جانے والی وین میں بچوں کا آگ میں جھلس کر موت کے منہ میں چلے جانا ایک ایسا ہی دلخراش حادثہ ہے جس نے ایک دفعہ تو ہرچیز کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور بہت سارے پہلوئوں پر ایک سوالیہ نشان لگادیا ہے کہ ننھے معصوم بچے کس طرح کی خطرناک اور غیرمعیاری ویگنوں اور بسوں پر روزانہ سفر کرتے ہیں۔ اگر ایسی گاڑیوں کا معائنہ کسی اچھی ورکشاپ سے کروایا جائے تو سڑکوں پر چلنے والی تقریباً تمام بسیں اور ویگنیں غیرتسلی بخش حالت میں ہونے کے باعث بند کردی جائیں۔ اپنی میعاد پوری کرلینے والی بسیں اور ویگنیں بھی سواریاں لادے سڑکوں پر دوڑتی نظرآتی ہیں اور پھر کسی روز حادثے کا شکار ہوکر قیمتی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہیں۔ تقریباً دوسال پہلے فیصل آباد کے بدقسمت سکول کے بچوں کو کلرکہار سے واپسی پر ایسا حادثہ پیش آیا تھا۔ بس کی غیرمعیاری بریکیں فیل ہوگئیں اور نتیجتاً بچوں سے بھری ہوئی بس گہری کھائی میں جاگری۔ اس حادثے میں 37کے قریب بچے جاں بحق ہوئے۔ یہ حادثہ اسلام آباد لاہور موٹروے پر ہوا۔ حادثے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ بس میں گنجائش سے کہیں زیادہ طالب علم اور اساتذہ سوار تھے۔ یوں کئی قیمتی جانیں اس حادثے کی نذر ہوئیں۔ حادثے کے بعد حسب معمول ایک شور اٹھا‘ ذمہ داران کو سزادینے کا‘ غیرمعیاری بسوں کو بند کرنے کا‘ سکولوں کے زیراستعمال بسوں اور ویگنوں کی بہترین دیکھ بھال کا‘ مگر یہ شور جلد ہی کسی دوسرے حادثے کی ہائوہومیں دب گیا۔ گجرات کی سکول وین میں جل کر مرنے والے 14بچوں اور سکول ٹیچر سمیعہ کی فرض شناسی کے جذبے میں جاں سے گزرنے والا حادثہ بھی چند روز کے بعد فراموش کردیا جائے گا۔ سکول وین میں استعمال ہونے والا غیرمعیاری گیس سلنڈر حادثے کا سبب بنا یا کچھ اور وجوہات آگ بھڑکنے کا باعث بنیں‘ ایک بات طے ہے کہ سکول وین کی حالت غیرمعیاری اور غیرتسلی بخش تھی۔ آج بھی سینکڑوں ایسی سکول بسیں، ویگنیں ننھے بچوں کو روزانہ گھروں سے سکول پہنچانے اور سکولوں سے گھرواپس لانے میں مصروف ہیں۔ اگر سکول بس کے مالکان اپنی گاڑیوں کی دیکھ بھال میں کوتاہی کررہے ہیں اور حادثے کا باعث بننے والی گاڑیاں سڑکوں پر موجود ہیں تو پھر والدین سے ہی استدعا ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کریں۔ انہیں دیکھنا چاہیے کہ ان کے بچے کس طرح کی گاڑیوں پر سکول آتے جاتے ہیں۔ جگہ کی کمی کے باعث بعض بچے ویگنوں کے ساتھ باہر کی طرف لٹکے ہوئے نظر آتے ہیں جوانتہائی خطرناک ہے۔ 2010ء اور 2011ء کے دوران چین میں بھی چند ایسے حادثات ہوئے جس میں سکول کی ویگن اور سکول بس حادثے کا شکار ہوئیں، طالب علم زخمی ہوئے، کچھ جاں سے گزرگئے۔ ان حادثات نے وہاں کی کمیونٹی اور حکومت کو ہلاکر رکھ دیا جس کے نتیجے میں سکول بس سیفٹی ریگولیشن کا قانون بنا۔ اگرچہ ایسا قانون وہاں پہلے بھی موجود تھا لیکن سکول بس کے حادثات کے پیش نظر انہیں مزید مؤثر بنایا گیا۔ اس کی کئی شقیں ہیں جن میں سے چند یہ ہیں: سب سے پہلے لوکل حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ بچوں کو گھروں کے قریب سکولوں میں داخل کیا جائے یا پھر بورڈنگ سکولوں میں داخل کروایا جائے تاکہ معصوم بچے سڑکوں پر ہونے والے ٹریفک حادثات سے بچ سکیں۔ سکول کی بسوں میں سکیورٹی سٹاف بھی تعینات کیا جائے۔ بسوں کی تکنیکی صحت کو یقینی بنایا جائے۔ سکول بس کے ڈرائیوروں کی قابلیت اور مہارت پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔ سکول کے بچوں کو لے جانے والی بسوں کو ایک مقررہ سپیڈ سے زیادہ تیز بس چلانے پر پابندی ہو۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سکول بسیں اوورلوڈنگ کی مرتکب نہ ہوں۔ سکول بسوں کی سیفٹی کے حوالے سے وہاں کی کمیونٹی میں تشویش کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس مسئلے پر چین کی ایک یونیورسٹی کے علم سیاسیات اور قانون کے پروفیسر نے ایک تھیسس تیار کیا اور بچوں کی سیفٹی کو یقین بنانے کے لیے چند عجیب اقدامات تجویز کیے جن میں سے ایک یہ تھا کہ سکول بس پر نمایاں درج ہوکہ یہ طالب علموں کو لے کر جارہی ہے اس لیے اس بس کو سڑک پر موجود دوسری ٹریفک پر امتیاز حاصل ہے۔ ٹریفک بلاک ہونے کی صورت میں تمام گاڑیاں سکول بس کو راستہ دیں گی۔ سکول بس زیادہ رش والے علاقے سے مخصوص لین سے گزریں گی تاکہ مستقبل کے ننھے چینیوں کو محفوظ طریقے سے ان کی درسگاہ پہنچایا جاسکے۔ چین میں سکول کے بچوں کی حفاظت کے لیے ہونے والے اقدامات اور قوانین عوام کی تشویش اور آراء کی روشنی میں ذرا اپنے ملک میں سکول جانے والے ہزاروں بچوں کی صورت حال ملاحظہ کریں تو ہمارا سریقیناشرم سے جھک جائے گا۔ سکول یونیفارم میں ملبوس ننھے بچے کسی معروف شاہراہ کو کراس کرنے کے لیے کھڑے ہوں تو لمبی لمبی گاڑیاں ہارن بجاتے ہوئے گزرتی چلی جاتی ہیں اور ننھے طالب علموں کوسڑک پارکرنے کے لیے کوئی راستہ دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ یہ منظر آپ شہر میں کسی بھی معروف شاہراہ کے کنارے کھڑے ہوکر روز روز دیکھ سکتے ہیں۔ ہم صرف تقریروں میں بچوں کو قوم کا مستقبل کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کبھی یہاں بچے سکول وین میں جل کرمرجاتے ہیں، کبھی قابل علاج بیماریوں کی ویکسین دستیاب نہ ہونے سے موت کے منہ چلے جاتے ہیں اور کبھی پیدا ہوتے ہی یہ ننھے پھول اسپتال کے نرسری وارڈ میں شارٹ سرکٹ سے لگنے والی آگ میں جھلس جاتے ہیں۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟