"SQC" (space) message & send to 7575

رشید مستری اور منگو کوچوان

رشید کا تعلق اندرون لاہور سے ہے۔ عمر یہی کوئی چالیس پینتالیس سال ہوگی۔ پیشے کے لحاظ سے مستری‘ مگر ذہنی طورپر ایک مفکر اور تجزیہ کار۔ کسی بھی سیاسی تجزیہ کار سے زیادہ سیاسی وسماجی حالات پر بحث و مباحثہ کرنے والا ۔ ہرشے کو دیکھنے کے لیے اس کا ایک اپنا انداز ہے۔ وہ اپنے ساتھی راج مزدوروں سے اس لیے مختلف ہے کہ رشید کالج تک گیا۔ بارہ جماعتیں پڑھیں ضرور مگر پاس نہیں کرسکا۔ پڑھا لکھا ہونے کا یہ زعم اسے اپنے خاندان میں بھی اہم حیثیت دیتا ہے۔ یوں وہ اپنی فیملی میں بھی اہم فیصلے کرنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ طبیعت کا انتہائی سادہ اور ویسے ہی سادہ لوح ! خوشی کی ذرا سی بات پر بھنگڑا ڈالنے والا اور غم کی پرچھائیں پر بجھ جانے والا۔ رشید، خود کو ملک کے حالات سے باخبر رکھنے کے لیے دوپہر کا اخبار دیکھتا اور ٹی وی پر خبریں باقاعدگی سے سنتا ہے۔ چند ٹی وی ٹاک شوز کا بھی دیوانہ ہے۔ پھر جو معلومات اس تک پہنچتی ہیں اسے اپنی سادہ لوجی کا تڑکا لگا کر آگے تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ محلّے کے تھڑے پر مجلس لگاکر ملکی حالات سے بے خبر محلے داروں، کو باشعور بنانے کی کوشش کرتا ہے مگر اس کا اصل ٹارگٹ اس کے مزدور ساتھی ہیں۔ اگرچہ راج مزدوری کا کام تھکادینے والا ہے مگر وہ بھی بہت جفاکش ہے۔ کام کے دوران وہ اپنے ساتھی مزدوروں کو سیاسی مسائل اور سیاسی حالات سے آگاہ کرنا نہیں بھولتا۔ رشید چونکہ باتونی ہے سواس کی زبان کام کے دوران بھی چلتی رہتی ہے۔ رشید کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کسی ایک سیاسی پارٹی کا سپورٹر نہیں۔ اپنی سادہ لوحی کے باعث وہ سیاسی تقریروں میں کیے گئے وعدوں پر یقین کر لیتا ہے۔ جس پارٹی کے وعدے اور دعوے اسے اچھے لگیں وہ اسی کا ہو جاتا ہے۔ اس بار الیکشن میں وہ شیر کا بیج لگاکر کام پر نکلتا اور ہر شام کسی نہ کسی جلسے میں ضرور شریک ہوتا۔ نعرے لگاتا‘ بھنگڑے ڈالتا کہ بس اب اس کے سارے مسئلے حل ہونے والے ہیں۔ ن لیگ کی جیت پر رشید نے محلے میں جلیبیاں تقسیم کیں۔ مبارکبادیں دیتے ہوئے اس کا سانولا چہرہ خوشی سے سرخ ہورہا تھا۔ ’’لوجی! اب نئی حکومت آگئی ہے، سارے مسئلے حل ہوں گے‘ کاروبار میں ترقی ہوگی‘ کام زیادہ ملے گا‘ کاکے کو نیا سائیکل لے دوں گا‘ اور ہاں بجلی بھی نہیں جائے گی تو سارا دن بجلی والی مشین پر کپڑے سینا‘ پیسے کمانا۔ اس نے ہنس کر اپنی بیوی کنیز کی طرف دیکھا جو مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے گھر میں لوگوں کے کپڑے سیتی تھی۔ پھر اپنے چھوٹے بھائی سے مخاطب ہوا ’’لے بھئی بوٹے تیری فیکٹری بھی اب خوب چلے گی۔ گیس ، بجلی سب پورا ملے گا۔ کوئی دیہاڑی نہیں ماری جائے گی۔ رشید نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا۔ اور گھر سے باہر نکل گیا۔ رشید جیسے سادہ لوح لوگوں کو دیکھ کر ہمیشہ منٹو کے شہرۂ آفاق افسانے ’’نیا قانون‘‘ کا دلچسپ کردار منگو کوچوان یاد آجاتا ہے جس کے بارے میں منٹو افسانے کے آغاز میں لکھتا ہے ’’منگو کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا‘ گوکہ اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی سکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے‘ وہ استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔ سادہ لوح منگو کوچوان انگریز سے نفرت کرتا ہے۔ ایک روز وہ اپنے تانگے میں بیٹھی سواریوں کی گفتگو سنتا ہے جو نئے انڈیا ایکٹ پر بات کررہے ہوتے ہیں۔ ’’ سنا ہے پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیاقانون چلے گا۔ ہرچیز بدل جائے گی‘‘۔ بس اتنا سن کر منگو کوچوان خود سے ہی خوابوں کا ایک شیش محل تیارکرتا ہے کہ مارچ کے اکتیس دن گزریں گے اور پہلی اپریل کو ہندوستان میں نیاسورج طلوع ہوگا۔ نیا قانون نافذ ہوگا۔ اسی خیال میں وہ یکم اپریل کی صبح، منہ اندھیرے اپنا تانگہ لے کر سڑکوں پر نکلتا ہے۔ شہر وہی پرانا ہے مگر منگو سوچتا ہے ابھی نیا قانون نافذ ہوجائے گا، ہرشے بدل جائے گی۔ اسی خیال میں وہ ایک انگریز سواری سے جھگڑپڑتا ہے۔ سادہ لوح منگو سوچتا ہے کہ نیا قانون آچکا ہے اور اب اس گورا صاحب کو پھینٹی لگاسکتا ہے ۔ مگر گورے کو مارنے کی پاداش میں بیچارا منگو پکڑا جاتا ہے وہ حوالات کے پیچھے چیختا جاتا ہے۔ نیا قانون ‘ نیاقانون۔ ایک آواز آتی ہے۔ نیاقانون؟ کیا بک رہے ہو؟ قانون وہی پرانا ہے۔ رشید مستری بھی، منٹو کے اس کردار کی طرح سادہ لوح ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ حکومت بدلتے ہی اب وہ تمام وعدے اوردعوے پلک جھپکتے ہی پورے ہوجائیں گے جن کی دھن پر وہ جلسوں میں تالیاں پیٹتا رہا ہے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ ایک رشید مستری پر ہی کیا موقوف۔ حالات نے عوام کو اتنے گمبھیر مسائل سے دوچار کردیا ہے کہ امیدوں پر ایمان لانے اور خوابوں پر یقین کرنے کے سوا اب کوئی چارا ہی نہیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں حکومتیں آتی جاتی رہی ہیں، کبھی فوجی حکمران آئے تو کبھی جمہوریت کے نام پر حکمرانی ہوئی‘ مگر عوام کا حال منگو کوچوان جیسا ہی ہوا۔ ہرنئی بننے والی حکومت کے پہلے تین ماہ میں کیے گئے ہنی مون دور کے وعدوں اور دعوں پر سادہ لوح پاکستانی بھی نیا قانون کہانی کی طرح لفظوں کے ہیرپھیر کا شکار ہوکر مسائل کی حوالات میں بند رہے۔ اب ایک نئی حکومت بن رہی ہے، دعا ہے کہ رشید مستری جیسے لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کی امیدوں اور خوابوں کا انجام منٹو کی کہانی جیسا نہ ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں