"SQC" (space) message & send to 7575

ایک بہترین انتخاب

اقتدار واختیار کی سیاست میں ملک کے تیسری بار وزیراعظم بننے والے میاں نوازشریف نے بلوچستان سے کسی سردار یا کسی سابق وزیر کو وزارت اعلیٰ کا منصب دینے کے بجائے ایک پڑھے لکھے بلوچ، ڈاکٹر عبدالمالک کا انتخاب کرکے صرف بلوچوں کے ہی دل نہیں جیتے بلکہ ہر اس پاکستانی سے تحسین حاصل کی ہے جو پاکستان کے اس اہم صوبے میں امن دیکھنا چاہتا ہے۔ جو چاہتا ہے کہ خوبانی، سیبوں اور انگوروں کی سرزمین پر آگ اور لہو کا شیطانی کھیل بند ہونا چاہیے۔ بلوچ دھرتی سے جنم لینے والے لوگ تو سادہ دل اور مہمان نواز ہیں مگر ان غیرت مند بلوچوں کے ساتھ ایک عرصہ سے جو سنگین ناانصافیاں ہورہی ہیں اس کی تلافی اب بہت ضروری ہے۔ کتنے ہی گھر ایسے ہیں جہاں گمشدہ پیاروں کی آس میں، آنکھیں گھر کی دہلیز پر انتظار کرتے کرتے پتھر ہوچکی ہیں۔ کہیں ناراض بلوچوں کے دھڑے ہیں‘ کہیں پڑھے لکھے بلوچ نوجوان بے روزگاری اور قابلیت کے مطابق نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے دل میں رنجشیں پالے ہوئے ہیں۔ بظاہر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے بلوچوں کے کئی گروپ نبرد آزما ہیں۔ آپس کی کمزوری کو دیکھ کر، بیرونی طاقتیں بھی اس آگ کو ہوا دینے میں پیش پیش ہیں۔ پھر بلوچستان کی سرزمین صرف بلوچ قوم کے وجود سے ہی آباد نہیں۔ یہاں پشتون اور پنجابی بھی صدیوں سے آباد ہیں۔ بلوچستان کی دھرتی سے ان کی وابستگی محبت کو کسی طور پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اسی دھرتی پر امن پسند ہزارے بھی رہتے ہیں جو بلوچستان کی سرزمین پر رہنے کی قیمت میں اب تک سینکڑوں لاشیں دفنا چکے ہیں۔ بلوچستان کی سر زمین زخم زخم بھی ہے اور یہ زخم گہرے بھی ہیں۔ ایک ایسے صوبے میں جہاں الیکشن سے پہلے الیکشن کا انعقاد ہی ایک سوالیہ نشان اور ایک چیلنج ہو، وہاں اب ضروری ہے کہ الیکشن کے بعد حالات کو حکمت اور دانشمندی کی عینک سے دیکھا جائے اور پھر رب العزت کی مدد مانگ کر فیصلے کیے جائیں تاکہ یہاں خوشحالی اور امن کا بسیرا ہو۔ انتخابات کے بعد اکثریتی پارٹی ہی حکومت بناتی ہے۔ بلوچستان میں ن لیگ حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی۔ اسرار اللہ زہری وزیراعلیٰ کے مضبوط امیدوار تھے۔ یہ وہی بلوچ سردار ہیں جنہوں نے بلوچستان کے شہر نصیرآباد میں لڑکیوں کے زندہ دفنائے جانے والے مبینہ واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ غیرت کے نام پر ایسے واقعات بلوچ روایات کا حصہ ہیں۔ خیر‘ یہ ایک اضافی بات درمیان میں آگئی۔ سیاست میں اپنے سیاسی حلیفوں اور اپنی جماعت کے سرکردہ رہنمائوں کو مطمئن رکھنا بہت ضروری بھی ہوتا ہے اور مجبوری بھی‘ کیونکہ نظریات کی سیاست کے برعکس اقتدار کی سیاست کی روایات یہی ہیں کہ ہر شخص اقتدار و اختیار میں اپنا حصہ چاہتا ہے۔ بلوچستان میں ن لیگ اکثریتی جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی تو اسراراللہ زہری کا وزارت اعلیٰ کی خواہش رکھنا عین فطری امر تھا۔ پارٹی قائد میاں نوازشریف کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک تو مروجہ راستہ تھا کہ اپنی پارٹی کی حکومت صوبے میں بناتے مگر اس صورت میں ایسی گرد اٹھنے کا امکان تھا کہ بلوچستان کے مسائل حل کرنے کا سچا اور واحد راستہ پھر کسی زرد جنگل میںگُم ہوجاتا۔ دوسری جانب میاں نوازشریف کے سامنے ایک ایسا راستہ تھا جو ہماری سیاست میں مروج نہیں۔ ایسی کوئی روایت یہاں کی سیاسی تاریخ میں موجود نہیں کہ ہاتھ میں آیا ہوا۔ اقتدار اس لیے قربان کردیا جائے کہ اس دھرتی پر لہو اور آگ کے کھیل کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ مری کی ٹھنڈک میں اس گرما گرم ایشو پر اجلاس ہوا اور پھر پارٹی قائد کا ایک حکمت آمیز فیصلہ لوگوں نے سنا۔ ن لیگ نے اپنے اقتدار کی قربانی دے کر بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کا قلمدان نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے سپرد کردیا۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ ہمیں بلوچوں کے زخم پر مرہم رکھنے پر فخر ہے۔ میر حاصل بزنجو نے کہا کہ یہ بلوچوں کے لیے ایک اہم فیصلہ ہے۔ اسرار اللہ زہری بظاہر خاموش مگر بجھے ہوئے سے تھے۔ تجزیہ نگاروں نے میاں نوازشریف کے اس بڑے فیصلے کو سراہا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست کا شوق رہا۔ ایک مڈل کلاس پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مالک پر عزم ہیں کہ بلوچستان کے سارے زخموں کو رفوکریں گے: مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا اقتدار کی مسند کے گرد طواف کرتی پاکستانی سیاست میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ ن لیگ کی قیادت نے ایک بڑے ظرف کے ساتھ قومی مفاد میں اہم فیصلہ کیا اور سیاست کے زرد جنگل میں ایک ایسا راستہ ہموار کیا جہاں سیاست، ذاتی مفاد اور پارٹی کی سطح سے بڑھ کر صرف دھرتی کے لیے کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا راستہ ہے جس پر اس سے پہلے کوئی نہیں گیا تھا۔ رابرٹ فراسٹ کی نظم The Road not taken کی آخری چند لائنیں اسی فیصلے کی تحسین کی نذر: \"Two Roads diverged in a wood and I took the one less travelled by and that has made all the difference\".

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں