"SQC" (space) message & send to 7575

ہوا بھی برائے فروخت ہے

نوّے کی دہائی کا ذکر ہے، نیویارک کا رہنے والا ایک معروف بزنس مین چھٹیاں گزارنے کی غرض سے شہر سے دور کسی چھوٹے سے گائوں میں گیا۔ چند ہفتوں کے بعد واپس آیا تو اس نے اپنے چند دوستوں کو چائے پر بلا کر کہا میں وہاں سے ایک نایاب تحفہ لایا ہوں۔ ایک ایسی چیز جو نیویارک میں ہمیں میسر نہیں۔ دوست حیران ہوئے کہ آخر ایسی کیا چیز ہے جو نیویارک میں نہیں ملتی جبکہ دنیا کی ہر شے اس شہر میں خریدی جاسکتی ہے۔ ایک دوست پرُشوق لہجے میں بولا کہ آخر وہ کیا چیز ہے؟ جلدی سے دکھائو۔ بزنس مین اٹھا۔ ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈ لایا، کیسٹ لگائی اور اسے آن کردیا۔ اسے غور سے سنو۔ بزنس مین بولا۔ کمرے میں چڑیوں اور پرندوں کی چہکار گونج اٹھی۔ چند منٹ کی اس ریکارڈنگ میں صرف پرندوں کی آوازیں تھیں۔ ہوا کا شور تھا اور بس! دوستوں کے چہروں پر سوالیہ تاثرات دیکھ کر بزنس مین بولا۔ کیا تم نہیں سمجھتے کہ شہروں میں یہ ایک نایاب چیز ہے۔ جب میں نے گائوں میں پہلی صبح گزاری تو میری آنکھ پرندوں کی چہکار سے کھلی۔ یقین جانور ،مجھے لگا کہ برسوں سے میری سماعت اس نغمگی سے محروم ہے۔ نیو یارک کی صبحیں اور شامیں ٹریفک کے بے ہنگم شور میں ڈوبی رہتی ہیں۔ یہی ہے وہ نایاب تحفہ جو میں گائوں سے تمہارے لیے لایا ہوں۔ یہ چھوٹا سا واقعہ میں نے بہت پہلے ریڈرز ڈائجسٹ میں پڑھا ، جس میں لائف از لائیک دیٹ (Life is like that) کے عنوان سے لوگ اپنی زندگی کی کوئی یادگار، دلچسپ اور انوکھی سی بات شیئر کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بڑے شہروں کے باسی اگر زندگی کی بے شمار سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو بہت سی ایسی خوشیوں اور خوب صورتیوں سے محروم بھی ہورہے ہیں جو قدرت نے انسان کو عطا کی ہیں۔ شہروں میں بڑھتے ہوئے ٹریفک کے شور میں پرندوں کی آواز تک گم ہوجاتی ہیں۔ چند سال پہلے اپنے سابقہ اخبار کے دفتر سے چند دوستوں کے ساتھ باغ جناح جانا ہوا۔شام کے اس پہر باغ جناح کی فضا پرندوں کی آوازوں سے گونج رہی تھی۔ میں نے موبائل میں ان خوب صورت چہکاروں کو ریکارڈ کرلیا۔ بالکل نیویارک کے اس بزنس مین کی طرح ایک نایاب شے اپنے پاس محفوظ کرلی۔ ڈیوس روڈ اور باغ جناح کی فضا میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ بڑھتی ہوئی ٹریفک سے جہاں فضا میں بہت سارے زہریلے مادے شامل ہو کر انسانی صحت کے لیے خطرہ بن رہے ہیں، وہیں رکشوں، موٹرسائیکلوں، گاڑیوں، ٹرکوں اور بسوں کی آوازوں سے مل کر جو بے ہنگم شور جنم لیتا ہے وہ انسانی نفسیات پر بھی برے اثرات ڈالتا ہے۔ انسانی مزاج کو چڑچڑا کرتا ہے۔ آپ نوٹ کریں کہ اگر کوئی شخص اندرون شہر کسی ایسی جگہ کا رہائشی ہے، جہاں شور سے کان پڑی آوازیں سنائی نہیں دیتیں، وہ آہستہ آہستہ اونچی آواز میں بات کرنے کا عادی ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر خاموشی کے ماحول میں بھی وہ بلند آواز میں بات کرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ شور اس کی نفسیات کا حصہ بن جاتا ہے۔ مسلسل شور میں رہنے والے لوگ مزاجاً چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ ٹریفک سے صرف شور و غل میں ہی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ گاڑیوں کے دھوئیں سے فضا آلود ہو کر مہلک بیماریوں کا باعث بھی بنتی ہے۔ کاربن اور لیڈ، فضا میں شامل ہو کر سانس کے راستے پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ فضائی آلودگی اور ماحولیات سے متعلقہ دوسرے مسائل صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں پوری دنیا کا ایشو ہے۔ ہوا کی آلودگی سے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک متاثر ہیں مگر اس کا خمیازہ پوری دنیا کے امیر اور غریب ملکوں کو بھگتنا پڑتا ہے ، کیونکہ ہوا اور فضا سرحدوں کی قیدی نہیںہوتی۔ صنعتی ملکوں کی فیکٹریوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں، گلوبل وارمنگ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے، جس سے پوری دنیا میں موسموں میں ڈرامائی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ فضائی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں چین سرفہرست ہے۔ ماحولیات کے سائنس دان چین کے بڑے شہروں کی فضا کو انسانی صحت کے لیے خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حال ہی میں ایک چینی ارب پتی CHEN GUAGBIAO نے صاف ہوا کو بوتلوں میں بند کرکے بیچنے کا پراجیکٹ شروع کیا ہے ،یعنی اب صاف ہوا اگر چاہیے تو وہ بھی بوتل میں خریدنی پڑے گی۔ Chen کا کہنا ہے کہ ’’صاف ہوا برائے فروخت‘‘ دراصل صنعت کاروں کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ پیسے کی دھن میں اتنے خود غرض نہ ہوجائیں کہ فضا انسان کے رہنے کے قابل ہی نہ رہے۔ صاف ہوا اور آلودگی سے پاک ماحول ہمارے بچوں کی ضرورت ہے۔ اس ارب پتی صنعت کار نے ہوا کو بیچنے والے کین اور بوتلوں پر اپنی ہی تصویر کا لوگو دیا ہے۔ ایک کین پانچ یوآن میں فروخت بھی ہورہا ہے۔ 5جون کو دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس بار بھی یہ دن منایا گیا مگر چند سوال ایسے اٹھے جن کا جواب فی الحال دینا مشکل ہے۔ مثلاً یہ کہ آج اگر صاف ہوا بھی بوتلوں میں بند ہوکر فروخت ہونے لگی ہے تو یہ سوچنا پڑے گا کہ بڑھتی ہوئی صنعت کاری کو کیسے بریک لگائی جائے یا پھر ایسے اقدامات کیے جائیں کہ فضا کی آلودگی کو مزید بڑھنے سے روکا جائے۔! 2009ء میں، میں نے صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ، ڈبلیو ڈبلیو ایف کی طرح سے ماحولیات کے حوالے سے ایک مطالعاتی دورہ کیا۔تین روزہ اس دورے میں یہ کھلا کہ اندرون سندھ میں واقع جھیلیں، گوٹھ، اور جنگلات بھی رفتہ رفتہ سکڑتے جارہے ہیں۔ آس پاس کے گوٹھوں میں رہنے والے ان درختوں اور جنگلوں سے لکڑیاں کاٹ کر بیچ رہے ہیں جن سے قدرتی ماحول متاثر ہورہا ہے۔ بیالوجی کی زبان میں اسے ایکو سسٹم کہتے ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی طرف سے اب کئی دیہات میں لوگوں کے لیے روزگار کے دوسرے مواقع پیدا کیے جارہے ہیں تاکہ جنگلات محفوظ رہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ درختوں کو ماحول اور قدرت کا اثاثہ قرار دے کر انہیں کاٹنے پر پابندی لگانی چاہیے۔ برسوں کی ریاضت سے موسم کی سختیاں سہہ کر ایک تناور درخت، سو بچوں کو آکسیجن مہیا کرتا ہے۔ 5 جون ماحولیات کا عالمی دن آیا اور گزر گیا۔ کم از کم اس بار یہ وعدہ تو ہونا چاہیے تھا کہ ہم سب اپنے گھروں، گھر کے باہر گلیوں، سڑکوں، شاہراہوں پر پودے، درخت لگائیں گے۔ ماحول جتنا سرسبز کریں گے، فضا میں موجود آلودگی کے اثرات انسان پر اتنے ہی کم ہوجائیں گے۔ درخت کٹنے سے انسان ہی کو نقصان نہیں ہوتا چڑیاں بھی اداس ہوجاتی ہیں۔ پروین شاکر نے ایسی ہی نازک بات کو اس خوبی سے بیان کیا ہے۔ اس بار جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں