"SQC" (space) message & send to 7575

بے بس مائوں کے غریب بچے

ایک بچے کی موت گھر کے لیے آخری واقعہ نہیں ہوتی! یہ ستیہ پال آنند کی نظم کے پہلے مصرعے ہیں۔ ستیہ پال آنند لفظوں سے تصویریں بناتے ہیں۔ وہ نظم کے عمدہ شاعر ہیں، الگ موضوعات پر، کہانی کی جنت، جیسی نظمیں لکھنا ان کا کمال ہے۔ آج میں نے ستیہ پال آنند کی نظم کو اس لیے منتخب کیا کہ میں یہ کالم ان بے بس مائوں کے لیے لکھنا چاہتی ہوں جن کے معصوم بچے علاج کی بہتر اور بروقت سہولت میسر نہ ہونے سے موت کی گہری وادی میں اتر گئے۔ خسرہ، اور گیسٹرو سے روزانہ ننھے بچوں کی اموات ہورہی ہیں۔ حال ہی میں سرگودھا سے یہ افسوسناک خبر آئی تھی کہ ایک غریب محنت کش کی تین ننھی بچیاں یکے بعد دیگرے خسرہ کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلی گئیں۔ آنکھیں موندے ، تینوں گڑیائیں، ساتھ ساتھ رکھی چارپائیوں پر بے جان پڑی تھیں اور یہ تصویر دیکھ کر، ایک ماں کی حیثیت سے میرا دل بھی کٹ کر رہ گیا۔ کیونکہ ایک ماں کی کیفیت، اس کی مامتا کی گہرائی، کو کوئی ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ بچے کی تو بیماری ہی پورے گھر پر اداسی کی چادر تان دیتی ہے، جھرنوں جیسی ہنسی کو چپ لگ جائے اور آنگن کی خاموشی کو اپنی زندگی بخش کلکاریوں اور شرارتوں سے اور ماحول کو رنگوں اور خوشبوئوں سے لبریز کر دینے والا ننھا بچہ بیمار ہوجائے تو سب والدین یہی چاہتے ہیں کہ ساری دولت لٹاکر بھی اپنے بچے کی ہنسی اور صحت خریدلیں۔ والدین بنک بیلنس کے مالک ہوں یا تہی کیسہ‘ اپنے بچوں کے لیے ان کی محبت، شفقت اور الفت کا پیمانہ ایک ہی ہے۔ ایسے میں ذرا سوچیں کہ بیمار بچے کو صاحب حیثیت والدین تو بہترین معالج کے پاس لے جاسکتے ہیں لیکن وہ غریب جن کے پاس کھانے کے پیسے بھی نہ ہوں، بچے کے علاج کے لیے ٹوٹکوں، پر ہی گزارا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حالت زیادہ بگڑنے پر کسی قریبی عطائی‘ ڈاکٹر یا ڈسپنسری پر لے جاتے ہیں اور یوں صحت اور علاج کی بروقت سہولتیں نہ ملنے پر اپنی زندگی بھر کی متاع لٹا بیٹھتے ہیں۔ خسرہ اور گیسٹرو کی بیماریاں ننھے بچوں کے لیے خطرناک ضرور ہیں لیکن قابل علاج ہیں، جان لیوا نہیں ہیں مگر ہمارے جیسے سنگ دل معاشرے میں روزانہ کئی ننھے بچے ان قابل علاج بیماریوں کے بگڑ جانے اور صحیح علاج نہ ہونے پر بن کھلے مرجھا جاتے ہیں۔ اس ماں کے دکھ کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا جس کی بھری ہوئی گوداُجڑجائے، جس کا ہنستا کھیلتا، کلکاریاں مارتا بچہ اچانک خاموش ہوجائے اور وہ معاشی عدم انصاف کی وجہ سے پیدا ہونے والی غربت کے باعث اپنے بچے کا علاج نہ کرواسکی ہو۔ وزیراعلیٰ کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے اور بچوں کی صحت کے حوالے سے صوبے میں صحت ایمرجنسی کا نفاذ کرنا چاہیے۔ جس طرح ڈینگی کے خلاف ایک مربوط جدوجہد نتیجہ خیز ثابت ہوئی‘ اسی طرح بچوں کی سب بیماریوں بشمول خسرہ اور گیسٹرو کے خلاف بھی ایسی ہی مہم کا آغاز ہونا چاہیے۔ صحت کے مراکز، سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی ایسی ایمرجنسی قائم کی جائے‘ جہاں ہربچے کو علاج کی سہولتیں حکومت کی طرف سے مفت فراہم کی جائیں۔ صحت ان بچوں کا بھی بنیادی حق ہے، جو خستہ حال، گھروں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے ان بیماریوں سے بچائو کے طریقے، بیماری کی علامات اور گیسٹرو جیسی بیماری سے بچنے کے لیے صاف پانی پینے کی ترغیب کے اعلانات کیے جائیں۔ ایسے علاقوں میں جہاں پینے کا صاف پانی نہیں آتا وہاں پینے کا صاف پانی پہنچانے کا انتظام ہو۔ شادمان جیسے پوش علاقے میں تو صاف پانی کا پلانٹ لگایا گیا ہے شہر کے خستہ حال علاقوں میں ایسے ہی صاف پانی کے پلانٹ لگانے کا کتنا اہتمام کیا گیا؟ پاکستان بدقسمتی سے ایسے ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔ ہماری حکومتوں نے کبھی اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا کیونکہ صرف غریبوں کے بچے ہی اچھے علاج کی سہولتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ پرائیویٹ اسپتالوں کی ہزاروں روپے کی فیس غریب والدین ادا نہیں کرسکتے، پیسے والے والدین بچوں کا بروقت اور بہترین علاج کروانے کی سکت رکھتے ہیں، رہے حکمران اور طبقہ اشرافیہ تو وہ اپنے علاج معالجے کے لیے پاکستانی صحت کے نظام پر بھروسہ کرنے کی بجائے بیرون ملک صحت کی بہترین سہولیات خرید لیتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک انقلابی قدم یہ ہوسکتا ہے کہ حکومت کی طرف سے پانچ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو علاج کی بہترین سہولیات مفت مہیا کرنے کا ایک مربوط نیٹ ورک قائم کیا جائے۔ پھر غریب والدین بھی اپنے بیمار بچوں کا بہترین علاج کروا سکیں گے اور کوئی بچہ علاج نہ ہونے سے موت کے منہ میں نہیں جائے گا‘ مائوں کی گود آباد رہے گی۔ جس گھرسے کوئی بچہ راہی ملک عدم ہو، اس گھر کے تو درودیوار بھی سوگ میں ڈوب جاتے ہیں۔ ستیہ پال آنند کی نظم ’’ایک بچے کی موت‘‘ ان تمام بے بس غریب مائوں کے نام‘ جن کے بچے ان سے بچھڑ گئے۔ ایک بچے کی موت گھر کے لیے آخری واقعہ نہیں ہوتی اس المناک سانحے کے بعد اور بھی واقعے ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں جن سے بچے کی موت کا سانحہ سدا کے لیے زندہ رہتا ہے بچے کی مانند گھر سے رخصت کبھی نہیں ہوتا گھر تو ہرحال چلتا رہتا ہے کھانا کھاتے ہیں، بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے ہیں کبھی کبھار کسی دوسرے بچے کے جنم دن پر ہنس بھی لیتے ہیں والدین مگر وہ جو بچہ تھا جس کی سالگرہ اگلے ماہ آئے گی جسے ماں نے تین پہیوں کی سائیکل دینے کو کہا تھا کہاں گیا ہے وہ …!! ایک بچے کی موت گھر کے لیے آخری واقعہ نہیں ہوتی!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں