"SQC" (space) message & send to 7575

’’نان ایشو‘‘

سیاسی ایشوز پر بات کرنا ایک فیشن ہے ۔ اخبارات سے لے کر ٹی وی چینلز تک، تبصروں اور تجزیوں کے پروگرام صرف اور صرف سیاست پر بات کرکے یا لکھ کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی کوئی معاشرتی مسئلہ ایسا بھی سامنے آجاتا ہے جس پر بات کیے بغیر رہا نہیں جاسکتا، پیشہ ور بھکاریوں کا پھیلتا ہوا نیٹ ورک بھی ایسا ہی ایک مسئلہ ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگ، ایسے ایشوز کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں مگر معاشرے کے ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے سماج کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر غوروفکر کرنا، پھر اس کے سدباب کی اجتماعی کوشش کرتے رہنا بہت ضروری ہے۔ پچھلے دنوں موڑ بھیکے وال کی کراسنگ پر سرخ بتی کے اشارے پر گاڑی رکی تو جیسے انواع واقسام کے بھکاریوں نے رکی ہوئی ٹریفک پر یلغار ہی کردی۔ یوں تو یہ معمول کی بات ہے مگر اس روز، سخت گرمی میں بھکاری عورتوں نے شیرخوار بچوں کو گود میں اٹھارکھا تھا۔ جسمانی طورپر صحت مند نوجوان بھکاری عورتیں، ننھے بچوں کو گاڑیوں کے شیشوں کے آگے کرکے، ہمدردی حاصل کررہی تھیں۔ لوگ بھی ان معصوم بچوں کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ خیرات انہیں دے رہے تھے۔ شیرخوار بچوں کو گود میں اٹھائے ہوئے ان پیشہ ور بھکارنوں کا مشاہدہ کریں تو یہ عجیب انکشاف ہوتا ہے کہ تمام دن یہ عورتیں بچوں کو برائے نام ہی کھانے کو دیتی ہیں۔ بچوں کو کوئی نشہ آور دوائی پلا کر بالکل بے سدھ کردیا جاتا ہے۔ دھوپ، گرمی، سردی یا بھوک کا، ان بچوں کواحساس نہیں ہوتا۔ چند سال پہلے اپنی ایک صحافی کولیگ کے ساتھ شہر کی معروف شاہراہ پر ایک بھکارن کو دیکھا ۔جنوری کا مہینہ تھا، اور اس نے چند ماہ کا بچہ گود میں اٹھا رکھا تھا۔ بچے کو سخت سردی میں برائے نام کپڑے پہنا رکھے تھے تاہم خود موسم سے بچنے کے لیے مناسب گرم کپڑوں کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ سردی میں ٹھٹھرتے بچے کو دیکھ کر لوگ ترس کھاتے اور بھکارن کو کچھ نہ کچھ دے کر آگے بڑھ جاتے۔ میرے کولیگ کو اس بچے پر اتنا ترس آیا کہ فوراً گرم کپڑے خرید کر واپس اسی جگہ آکر اس بھکارن کو دیے، ساتھ دودھ کے لیے پیسے بھی دیے۔ اگلے روز وہ بھکارن پھر اسی جگہ اس سردی میں بچے کو صرف بنیان پہنا کر لوگوں سے پیسے مانگ رہی تھی، اس پر ہم نے اس کو ڈانٹ ڈپٹ کی کہ کل تو تمہیں بچے کے لیے گرم کپڑے لے کر دیے ہیں آج تم پھر اسے سردی میں بغیر کپڑوں کے لے آئی ہو۔ وہ بھکارن ہمیں پہچان کر پہلے تو کچھ کنفیوژ ہوئی پھر جھگڑنے لگی۔ بی بی ہمارا پیشہ ہے، ہمیں تنگ نہ کرو۔ جب اسے کہا گیا کہ اچھا ابھی ہم ایک ادارے ( چائلڈ پروٹیکشن بیورو) کو فون کرتے ہیں وہ یہ بچہ اپنے پاس لے جائیں گے۔ اس دھمکی پر اگلے روز وہ بھکارن وہاں نظر نہ آئی۔ اسی طرح ایک روز مارکیٹ میں ایک بھکارن کو شیر خوار بچہ گود میں اٹھائے دیکھا۔ ہاتھ میں خالی فیڈر پکڑا ہوا تھا۔ لوگوں کو یہی خالی فیڈردکھا کر بچے کے دودھ کے لیے پیسے مانگ رہی تھی۔ بھیک ملنے کے باوجود نہ وہ بچے کے لیے دودھ خریدتی نہ اسے دودھ ملتا۔ بچہ بے سدھ سا اس کی گود میں لٹکا ہوا تھا۔ شیر خوار بچوں کو گود میں اٹھا کر بھیک مانگنے والی بھکارنوں کے بارے میں ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ سامنے آئی تھی کہ یہ بھکارنیں شیرخوار بچے کرائے پر حاصل کرتی ہیں۔ افیم یا کوئی نشہ آور دوا پلا کر بچے کو نیم بے ہوش کرکے سارا دن اسے گود میں اٹھائے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے ہزاروں روپیہ بھیک اکٹھی کرتی ہیں۔ چند سو روپے پر اسے بچے بآسانی کرایے پر مل جاتے ہیں۔ ان بچوں کا مستقبل کیا ہوتا ہے ؟ یہ کن کے بچے ہیں؟ کیا یہ بچے نشہ آور ادویات کے زیراثر صحت مند رہ سکتے ہیں یا پھر بڑے ہونے پر ایک نشئی بن کر معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں؟ یہ تمام سوال جواب طلب ہیں ۔ ہم بچوں کے حقوق کی بات تو کرتے ہیں، مگر ہم نے کبھی ایسے بچوں کے بارے میں سوال نہیں اٹھایا جو بھیک مانگنے کے لیے ایک ٹول (Tool)کے طورپر استعمال ہوتے ہیں۔ ان ننھے شیرخواروں کو پیشہ ور بھکاری مافیاز اپنے مقاصد کے لیے بے دردی سے استعمال کرتے ہیں اور یہ سب کچھ ہم سب کے سامنے ہوتا ہے۔ کبھی یہ سوچیں کہ جن بچوں پر ترس کھاکر، ہم اور آپ بھیک دیتے ہیں، ان پیسوں سے ان کے حصے میں دودھ کی چند بوندیں بھی نہیں آتیں۔ جانوروں کے حقوق کے لیے بھی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ ان سے بدسلوکی پر بھی کوئی آواز ضرور اٹھتی ہے مگر بھکاریوں کے شکنجوں میں پھنسی ہوئی ان معصوم جانوں کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا نہیں، کبھی آواز نہیں اٹھائی۔ یہ قابل رحم ہیں کہ پوری طرح آنکھیں کھولنے سے پہلے ہی یہ بے رحم دنیا ان سے کیا سلوک کرتی ہے ، شاید یہ بچے شیرخوارگی ہی میں مر جاتے ہوں اور ان کی جگہ ایسے ہی دوسرے بچے استعمال ہوتے ہوں ۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس ایشو پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔ پیشہ وربھکاریوں کے خلاف مربوط اور منظم ایکشن ہونا چاہیے۔ ان کے پیچھے طاقتور مافیاز کام کررہے ہیں۔ ان پر ہاتھ ڈالنا چاہیے۔ شہر کی اہم اور معروف شاہراہوں اور چوکوں کی باقاعدہ نیلامی کی جاتی ہے پھر یہ مافیاز اپنے گروہوں کو مختلف بہروپوں میں بھیک مانگنے کے لیے کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمیں ان پیشہ ور ظالم بھکاریوں کی سخت حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ صدقہ وخیرات حقیقی ضرورت مندوں تک پہنچانا چاہیے۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ شہر میں بھکاریوں کی یلغار ہوگی ۔ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ اس معاشرتی برائی سے نجات کا کوئی بندوبست کرے۔ بچوں کو بھیک مانگنے کا ذریعہ بنانے والے بھکاریوں کو سخت سزائیں دے۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو جیسے مزید اداروں کی ضرورت ہے جہاں ایسے لاوارث بچوں کو رکھا جائے۔ بڑے بچوں کو ہنر سکھائے جائیں تاکہ وہ کل کو روزگار کما کر کارآمد شہری بن سکیں۔ پیشہ ور بھکاریوں کے شکنجے سے ان بچوں کو نجات دلانا شاید ہمارے معاشرے کا ہاٹ ایشو نہ ہو، لیکن ایک تہذیب یافتہ اور انسانی حقوق سے باخبر اکیسویں صدی کے اس معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے ’’نان ایشو‘‘ پر بھی انسانیت کے ناطے کچھ توجہ ضروردی جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں