"SQC" (space) message & send to 7575

انسان سے قیمتی شیشے کا جگ

ہماری زندگی میں انسانی رویوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہی رویے اگر مثبت ہوں تو معاشرے میں سکون، امن اور فلاح کا دور دورہ ہوتا ہے اور اگر انسانی رویے منفی ہوجائیں تو تمام تر آسائشوں کے باوجود زندگی سے سکون اور امن چلا جاتا ہے۔ دین اسلام کی تمام تر تعلیمات کو اگر مختصر ترین الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ یہی ہے کہ ایسا اجلا اور ستھرا معاشرہ جہاں رہنے والے انسان ایک دوسرے کے فلاح، آسانی اور خیر کا باعث ہوں۔ دین اسلام کے مطابق کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان ہی نہیں ہوتا جب تک اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ رہیں۔ اور پھر کہا گیا تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق بہتر ہیں۔ ہمارا دین انسان کی تربیت بہترین انداز میں کرتا ہے۔ پھر اگر ہم دنیاوی تعلیم وتربیت کی بات کریں تو بھی اس کے حصول کا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان کی تربیت کی جائے۔ منفی ، اور نقصان دہ رویوں کو مثبت اور آسانیاں بانٹنے والے رویوں میں بدلا جائے۔ ہمارے ہاں دانشور عموماً یہ بات کرتے ہیں کہ معاشرے میں تبدیلی کے لیے ایک اخلاقی تحریک کو برپا کرنا ہوگا تاکہ انسان کو یاد دلایا جائے کہ انسانیت کا اعلیٰ ترین مقصد دوسرے انسانوں کی زندگیوں کو آسان اور آرام دہ بنانا ہے۔ ہمارے رویوں میں اجتماعی طورپر جوغصہ، جلدبازی اور چڑچڑاپن آچکا ہے، اس سے بہت سارے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ صرف ٹریفک بھی بلاک ہوجائے تو لوگ ایک دوسرے سبقت لے جانے کی کوشش میں ایک دوسرے کھودیتے ہیں ۔ سب سے پہلے خود ٹریفک کے ہجوم سے نکلنے کی خواہش ٹریفک کو زیادہ الجھا دیتی ہے۔ پھر ایک دوسرے سے تلخ کلامی اور لڑائی ہونا ایک عام سی بات ہے۔ ہمارے ہاں قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ سمجھا جاتا ہے، کہ قانون کی پاسداری کرنا غریب کا کام ہے۔ جبکہ پیسے والا، سٹیٹس اور رتبے والا قانون کو روند سکتا ہے اور بات صرف قانون تک ہی موقوف نہیں، یہاں تو پیسے اور عہدے والا انسان کو روندنے کا لائسنس بھی رکھتا ہے۔ افسوسناک صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس قسم کی حرکتیں وہ منتخب لوگ کرتے ہیں جنہیں ہمارے ہاں عوام کے نمائندے کہا جاتا ہے۔ جو اسمبلیوں جاکر آئین اور قانون سازی جیسے اہم امور سرانجام دیتے ہیں۔ زیادہ دیر کی بات نہیں ہے کہ ٹنڈو محمد خان سے پاکستان پیپلزپارٹی کی PS-53سے نمائندہ خاتون وحیدہ شاہ نے ضمنی الیکشن کے دوران روایتی جاگیردارانہ فرعونیت کا مظاہرہ کیا۔ اور یہ منظر ٹی وی کیمروں نے محفوظ کرلیا۔ وحیدہ شاہ الیکشن کے دوران پولنگ سٹیشن پہنچیں اور ووٹنگ کے عمل میں مداخلت کرنا شروع کردی۔ قانون کی اس خلاف ورزی پر وہاں کی خاتون اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسر نے اسے روکا۔ جواباً تلخ کلامی ہوئی اور وحیدہ شاہ نے تھپڑ خاتون آفیسر کو جڑ دیئے۔ پوری دنیا نے یہ بدنما منظر ٹی وی سکرینوں پر دیکھا۔ ابھی حال ہی میں، ن لیگ کی خاتون ایم پی اے نگہت شیخ نے بھی اسی زعم میں بس ہوسٹس کو محض پانی دیر سے لانے پر تھپڑ مارے اور اس کے بال بھی کھینچے۔ ایسے واقعات کو پڑھ کر افسوسناک حیرت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کی تربیت میں یقینا کوئی کمی اور کوتاہی ہوئی ہوگی جو انسانوں کو انسان نہیں سمجھتے۔ عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں، غریبوں کے حق میں تقریریں کرتے نہیں تھکتے لیکن ان کے اپنے چہرے بہت گھنائونے ہیں۔ دولت کا زعم انسانوں کو کس طرح غیرانسانی سلوک کرنے پر آمادہ کرتا ہے اس کی ایک تازہ ترین مثال ملتان میں پیش آنے والا ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ خبر کے مطابق، ملتان میں رہائش پذیر ایک خاتون نے اپنے10سالہ ملازم کو شیشے کا قیمتی جگ توڑنے پر اسی جگ کا ٹوٹا ہوا تیز دھار ٹکڑا دے مارا جس سے ملازم بچہ شدید زخمی ہوگیا۔ زخمی ہونے پر بھی اس کی مرہم پٹی نہیں کروائی گئی۔ خون زیادہ بہہ جانے سے بچہ بے کسی کی حالت میں وفات پا گیا۔ بچے کی لاش بھی تاخیر سے ورثا کے حوالے کی گئی اور اس واقعے پر منہ بند رکھنے کے لیے انہیں خطیر رقم دی گئی۔ ایک اور واقع میں مظفرگڑھ میں ایک زمیندار نے پیاز توڑنے کے جرم میں ایک معصوم 6سالہ بچی پر اپنا خونخوار کتا چھوڑ دیا۔ جس نے بچی کا منہ نوچ لیا۔ اس واقعے کو سن کر جھرجھری سی آجاتی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ انسان اتنا بھی گرسکتا ہے۔ یہ ایسا معاشرہ بنتا جارہا ہے جہاں انسان سے زیادہ قیمتی شیشے کا جگ اور ایک معصوم بچی سے زیادہ اہم ایک پیاز ہے ! رویوں میں اس قدر گراوٹ فکرانگیز ہے۔ اگر بااختیار‘ طاقتور اور دولت مند اسی طرح انسانوں کو یہ سمجھ کر روندتے رہے کہ ان سے سرزدہونے والا جرم کبھی قانون کی پکڑ میں نہیں آئے گا تو پھر اس زوال پذیر ہوتے معاشرے میں بہتری بھی نہیں آئے گی۔ ’’قانون سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے‘‘ بے تحاشا استعمال ہونے والا یہ ایک ایسا جملہ ہے جو اپنے معنی کھوچکا ہے اور یہ اس وقت تک بے معنی ہی رہے گا جب تک طاقتور مجرم قانون کو پیسے سے خاموش کرواتے رہیں گے۔ بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی طرح انہیں بے شک ’’بڑے سانحات‘‘ میں شمار نہ کریں لیکن معاشرے کی اصلاح اور اخلاقی قدروں کو بچانے کے لیے ایسے واقعات پر سخت اور فوری ایکشن ضرور لینا چاہیے۔ طاقتور کو سزادے کر دوسروں کے لیے عبرت کا نمونہ بنایا جائے تویقینا ایسے گھنائونے جرائم کرنے سے پہلے لوگ ضرور سوچیں گے۔ حیثیت اور انصاف پر مبنی رویے ہی معاشرے کو ایک مثبت رخ دیتے ہیں۔ ایسے ہی سماج میں بے وسیلہ افراد کو بھی جینے کا پورا پورا حق ملتا ہے۔ کیونکہ اگر اس کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو وہ قانون کا سہارا لے سکتا ہے اس خیال کے ساتھ کہ قانون اس کے حقوق کا تحفظ کرے گا۔ ورنہ ابھی تو اس معاشرے میں شیشے کا جگ اور پیاز، انسانی جان اور عزت سے زیادہ قیمتی نظر آتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں