بارہ جولائی 2013ء… اقوام متحدہ کے دفتر میں خاص چہل پہل ہے۔ آج یہاں یوتھ اسمبلی منعقدہونے جارہی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ دنیا کے 80 سے زائد ملکوں کے بچے اور نوجوان اس میں شرکت کریں گے۔ پاکستان کا اعزاز یہ ہے کہ ان بچوں سے خطاب کرنے کے لیے پاکستان کی بہادر بیٹی ملالہ یوسفزئی کا انتخاب کیا گیا ہے۔ تعلیم کے لیے اس کم سن مگر پرُاعتماد لڑکی کی جدوجہد کو پوری دنیا سلام کرتی ہے۔ پچھلے برس اکتوبر میں ملالہ پر طالبان نے حملہ کرکے اسے اور اس کی سہیلیوں شازیہ اور کائنات کو زخمی کردیا تھا۔ ملالہ کے دماغ پر شدید ضربیں آئیں۔ کئی مہینوں کے علاج کے بعد وہ اب روبصحت ہے۔ 12 جولائی ملالہ کا یوم پیدائش ہے۔ اس کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اب اسے عالمی سطح پر ملالہ ڈے کے طور پر منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مختلف ملکوں کے مندوبین بیٹھے ہیں۔ عالمی میڈیا کے چاق و چوبند نمائندے ملالہ کی آمد کے منتظر ہیں۔ ہلکے گلابی رنگ کے سوٹ میں ملبوس ملالہ یوسفزئی اپنی والدہ، والد اور بھائیوں کے ہمراہ اقوام متحدہ کے دفتر پہنچتی ہے۔ تعلیم کے لیے یو این کے خصوصی مشیر گورڈن برائون بڑی گرم جوشی سے ملالہ کا استقبال کرتے ہیں ور اسے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون کے دفتر میں لے جاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد ملالہ جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں شرکت کے لیے ہال میں داخل ہوتی ہے۔ سامعین، مندوبین کھڑے ہو کر بھرپور تالیوں سے ملالہ کا استقبال کرتے ہیں۔ پاکستان کا اعزاز ہے کہ ملالہ آج جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والی ہیں۔ ملالہ کی والدہ تورپپکے کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو ہیں۔ والد فخرو انبساط کی تصویر بنے اپنی قابل فخر بیٹی کاخطاب سننے کے منتظر ہیں۔ بان کی مون کا کہنا ہے کہ آج ملالہ کے ہمراہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت میرے لیے ایک اعزاز ہے۔ ملالہ آج کی نسل کی ہیرو ہے۔ ملالہ مائیک پر آ کر خطاب شروع کرتی ہے۔ ننھی سی لڑکی، پرعزم لہجہ، پراعتماد انداز بیان! ’’میرا ہتھیار قلم اور کتاب ہے۔ طالبان مجھے اپنے مقصد سے نہیں ہٹا سکتے۔ انہوں نے میری ساتھیوں اور مجھے گولی مار کر سمجھا کہ وہ مجھے خاموش کرا دیں گے لیکن میرے اندر اس واقعے کے بعد سے زیادہ بہادری اورزیادہ جذبہ پیدا ہوا ہے۔تعلیم حاصل کرنے کا ہر بچے کو حق ہے۔خاص طور پر ہمارے ہاں لڑکیوں کی تعلیم کا حصول مشکل ہوتا ہے۔ ملالہ ڈے میرا دن ہے۔ تمام بچے اور بچیوں کا دن ہے جو اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔‘‘ ملالہ کی پرُعزم آواز جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں گونجی اور وہاں بیٹھے ہوئے عالمی طاقتوں کے نمائندوں نے بھرپور تالیاں بجا کر اس کے عزم کی تائید کی کہ تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ تالیاں… تالیاں… دیر تک جنرل اسمبلی کا ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔ تالیوں کی آواز مدھم ہوئی تو ایک نو سالہ بچہ اسی جگہ مائیک پکڑے کھڑا تھا جہاں ملالہ یوسف زئی چند لمحے پہلے خطاب کرنے لیے موجود تھی۔ جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں موجود عالمی طاقتوں کے نمائندوں، مختلف ملکوں کے مندوبین، بان کی مون، گورڈن برائون اور میڈیا کے نمائندوں کے چہروں پر سوالیہ تاثرات تھے کہ وہ سرخ و سفید رنگ کا خوبصورت سا بچہ بول اٹھا۔ آپ سب حیران ہیں کہ میں کون ہوں اور یہاں بغیر اجازت کیسے آیا۔ میں آپ کو بتا دوں کہ میرا نام گل شیر ہے۔ میں وزیرستان کا رہائشی تھا، کبھی میں بھی آپ کی اس دنیا سے تعلق رکھتا تھا‘ مگر اب میرا تعلق اس دنیا سے ہے جسے آپ جیسے لوگ دیکھ نہیں سکتے۔ میں عالم ارواح سے اپنی بات کرنے یہاں آیا ہوں۔ میں ان ہزاروں بچوں کی نمائندگی کررہاہوں جو بے گناہ جنگوں کی آگ میں جھونک دیے گئے۔ ان جنگوں میں جن کے فیصلے وہ عالمی طاقتیں کرتی ہیں جن کی مٹھی میں اقوام متحدہ جیسے ادارے ہیں۔ انہی عالمی طاقتوں کے اشارے پر جنگی جہاز بے گناہ آبادیوں پر بم گراتے ہیں۔ بسے بسائے گھر اجڑ جاتے ہیں۔تتلی کے پیچھے بھاگتے، جگنو پکڑتے بچے جنگوں کی آگ میں جھلس جاتے ہیں۔ ان کی مائیں ننھی لاشوں سے لپٹ کر بین کرتی ہیں تو چاروں طرف کی سماعتیں بند کیوں ہوجاتی ہیں۔ سب کے لیے تعلیم کا نعرہ لگانے والے میرے جیسے بچوں کی جان لے کر انہیں زندگی کے حق سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ آہ! میں اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا، چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا، میرا غریب باپ گائوں کے اکلوتے سکول میں مجھے چھوڑنے خود جاتا۔ میری ماں سپنے دیکھتی کہ میرا شیرگل پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے گا۔ مجھے بھی سکول جانے کا شوق تھا۔ میرا بستہ، میری کتابیں سب کچھ وہیں دھرا رہ گیا۔ میں اس روز اپنے گھر کے باہر دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا جب ایک امریکی ڈرون گرا اور سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا۔ پاکستان میں ڈرون حملوں میں کتنے بے گناہ معصوم بچے مارے گئے ہیں‘ مگر کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اسرائیل جب معصوم فلسطینی بچوں کو گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں تو پھر تمہارے امن اور تعلیم سب کے لیے کے نعرے کہاں جاتے ہیں؟ تم وہی لوگ ہو جو اقوام متحدہ کے ایوان میں بیٹھ کر جنگوں کی حمایت کرتے ہو۔ قاتل ہتھیاروں کے معاہدوں پر دستخط کرتے ہو۔ جنگوں کے الائو بھڑکانے والے تم ہی ہو۔ افغانستان سے عراق تک اور فلسطین سے برما تک مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف احتجاج کی کوئی آواز اس ایوان میں بلند کیوں نہیں ہوتی؟ تم اپنی طاقت کے نشے میں میرے جیسے معصوم‘ بے گناہ بچوں کو جنگ کی آگ میں جھونک کر اپنی فتح کے شادیانے بجاتے ہو۔ تم آنکھیں چھین کر چراغ بانٹنے کا کاروبار کرتے ہو۔ گل شیر کی آواز آ رہی تھی… اور… ہال میں مکمل خاموشی تھی… موت جیسی گہری خاموشی!!