"SQC" (space) message & send to 7575

ایک خوب صورت روایت !

ہم جس تیزی سے ترقی کا سفر طے کررہے ہیں پرانی روایتیں دم توڑتی جاری ہیں۔وقت کے اس بہتے ہوئے ریلے میں ہمیں اس نقصان کااحساس بھی کم ہی ہوتا ہے۔زندگی ہر لمحہ بدلتی ہے، پرانی چیزوں کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں۔پرانی روایتیں مدھم پڑجاتی ہیں اور نئے طور طریقے رواج پکڑلیتے ہیں۔ایسے ہی زندگی آگے بڑھتی رہتی ہے۔ مگر بعض ریت ، روایتیں بہت خوب صورت ہوتی ہیں کہ ہر برس جب رمضان المبارک دوسرے عشرے کا سفر طے کرکے تیسرے عشرے میں داخل ہوتا ہے ،عید کی تیاریاں زور پکڑتی ہیں تو عید کارڈز بھیجنے کی خوب صورت روایت مجھے ہمیشہ یاد آتی ہے۔ کم از کم نوے کی دہائی تک تو عید کے موقع پر عید کارڈز بھیجنے کا یہ سلسلہ قائم رہا ، مگر جونہی نیو میلینیم نے ہماری زندگیوں میں قدم رکھا ، کمپیوٹر اور موبائل فون کے کثرت استعمال نے اس روایت کو ختم کردیا۔دوستوں، سہیلیوں اور رشتہ داروں کے لیے عید کارڈز خریدنا ، عید کی تیاریوں کا لازمی حصہ تھا۔عید کارڈ لکھتے وقت پیش نظر رکھا جاتا کہ جس کے لیے عید کارڈ لکھا جارہا ہے اس سے تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔عید کارڈوں پر بنی ہوئی تصاویر اور اندر لکھے ہوئے پر خلوص جذبات ، بعض اوقات پوری کہانی بیان کردیتے ، مجھے یاد ہے ، میری والدہ مرحومہ کی بڑی ہمشیرہ زیب النساء خالہ کئی سال صاحبِ فراش رہیں۔چلنے پھرنے اور بولنے سے معذور ہوگئی تھیں۔ان کی جانب سے آنے والا عید کارڈ والدہ مرحومہ ہمیشہ آنسوئوں سے پڑھا کرتی تھیں اور خود بھی بڑے اہتمام سے ان کے لیے عید کارڈ منتخب کرتیں اور اس پر ہمیشہ ہر برس یہ شعر ضرور لکھواتیں ’’ دیکھا ہلال عید تو محسوس یہ ہوا۔لو ایک سال اور جدائی میں کٹ گیا‘‘۔پھر برسوں ہمارے پاس عید کارڈ محفوظ رہتے تھے ۔بچپن کا زمانہ تھا ۔ بہن بھائیوں میں یہ مقابلہ ہوتا کہ دیکھیں کس کے پاس اس بار زیادہ کارڈز جمع ہوں گے۔ عید کارڈز بھی پرانے خطوں کی طرح برسوں سنبھالے جاسکتے ہیں، آج بھی کچھ کارڈز میرے پاس محفوظ ہیں جنہیں کھول کر پڑھوں تو کئی سال پہلے کی خاموش دوپہریں پھر سے اپنی چہل پہل کے ساتھ آباد ہوجاتی ہیں ، جن کی خاموشی کو ڈاکیے کی دستک نے توڑا اور پرخلوص جذبوں سے بھرے ہوئے عید کارڈوں نے جن کو یادگار بنادیا۔گھر کا ہر فرد ڈاک سے آئے کارڈ کو بڑے اشتیاق سے پڑھتا اور پھر چند روز تک عید کارڈ کو گھر کے کسی کارنر پر سجا دیا جاتا۔عید کی تیاریوں کا ایک دلنشیں رنگ زندگیوں میں رشتوں کی مٹھاس گھول دیتا۔ آج یہ سب کچھ ماضی کاایک قصہ بن کر رہ گیا ہے۔عید کارڈ کی جگہ پہلے کمپیوٹر کے ای کارڈ (E-Card) نے لی اور پھر اس کا بھی تکلف ختم ہوا، اور تان آکر ٹیکسٹ میسجز پر ٹوٹی ۔اب عید مبارک کے ٹیکسٹ پیغامات کی ایسی بھرمار ہوتی ہے کہ موبائل فون کے موجد پر غصہ آنے لگتا ہے ۔’’Forwarded sms‘‘ کم ہی کوئی پڑھتا ہے سو عید کا دن عید پیغامات پڑھنے کی بجائے انہیں Delete کرنے میں گزر جاتا ہے۔ سماجی زندگی کے طور طریقے اور ادب کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔جب سماج میں تبدیلی آتی ہے تو اس کا اثر ادبی تحریروں پر بھی پڑھتا ہے ۔ عید کارڈز کی روایت موجود تھی ، عید کا چاند دیکھنے کی رسم موجود تھی تو شعرا کے اشعار میں بھی ان خوب صورتیوں کا تذکرہ چلتا تھا۔ احمد فرازؔ کا ایک خوب صورت شعر اسی موضوع کا احاطہ کس خوب صورتی سے کرتا ہے ۔ ہلال عید کو دیکھو تو روک لوآنسو جو ہوسکے تو محبت کا احترام کرو اب ہلال عید کو دیکھنے کا تکلف بھی ہم نے چھوڑ دیا ہے۔اب عید کے چاند کی بجائے رویت ہلال کمیٹی کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ٹی وی پر اعلان سن کر ہی چاند مبارک کہہ دیا جاتا ہے۔لیکن گئے وقتوں میں عید سے پہلے یہ بھی خوب صورت لمحات ہوا کرتے تھے۔سرمئی شام میں نازک بدن ہلال عید کی دید ۔اور پھر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا، بچھڑے چہروں کا عکس ، چاند میں ابھر آتا اور خالی ہتھیلیاں آنسوئوں سے بھر جاتیں۔چاند کو دیکھ کے یادآئے ہیں۔لوگ کچھ چاند سے چہروں والے…! خیر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی روایات بنتی، پرانی ختم ہوتی ہیں ، ابھی حال ہی میں ایک صدی کے بعد ٹیلی گرام سروس کا اختتام ہوا ، اور انڈیا کے شہر دہلی میں دنیا کی آخری تار بھیجی گئی۔ کمپیوٹر اور موبائل فون کے اسیر لوگ اس روز ٹیلی گرام دفتر کے باہر تار بھیجنے کو بے تاب تھے یہاں تک کہ دفتر کو آخری دن اپنے عملے کی تعداد کو دوگنا کرنا پڑا کیونکہ ہر شخص چاہتا تھا کہ وہ اپنے نام کاتار بھیجے ۔انسان کے اندر جہاں نئی چیزوں کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کی امنگ موجود رہتی ہے۔وہیں اسے ماضی سے جڑی ہوئی چیزیں زیادہ مسحور کرنے لگتی ہیں۔ایک انگریزی محاورے کا ترجمہ ہے کہ ماضی ہمیشہ خوب صورت ہوتا ہے۔ حقّے اور کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی چنگیروں کا کلچر ختم ہوا تو لوگوں نے انہیں اپنے ڈرائنگ روموں کی زینت بنالیا۔غالباً 2004ء میں ایک انٹرویو کے سلسلے میں اردو کے بے مثل ادیب انتظار حسین کے گھر جانا ہوا۔انتظار حسین ماضی کی فضائوں میں سانس لینے والے لکھاری ہیں۔ ان کا سارا ادب ہی نا سٹیلجیا پر مبنی ہے۔ان کے گھر کا ڈرائنگ روم پرانے وقتوں کی بیٹھک جیسا تھا۔ایسا لگا کہ ہم 60ء کی دہائی کی کسی فلم کا سیٹ لگا ہوا ہے۔ٹی وی پر خوب صورت کڑھائی والا غلاف پڑا تھا۔پرانی طرز کا صوفہ ۔ لکڑی کی میز پر موتیے کے پھولوں سے بھری ہوئی چنگیر رکھی تھی۔کمرے کی ہر شے سے ماضی سے جڑی ہوئی محبت چھلک رہی تھی۔اس کمرے میں چلتے پھرتے انتظار حسین بھی اپنی ہی کسی کہانی کا کردار معلوم ہورہے تھے ۔ بہرحال یہی انسانی سرشت ہے کہ وہ گزری ہوئی چیزوں سے محبت کرتا ہے اور یہ بھی زندگی کا قانون ہے کہ وقت ہر لمحہ بدلتا رہتا ہے اقبال کا یہ مصرع بہت خوب ہے کہ ؎ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ماضی سے وابستگی رومان پرور چیز ہے مگر ماضی میں زندہ رہنا ، ہرگز قابلِ تحسین نہیں۔نئے دور کے بدلتے ہوئے طور طریقوں میں آج بھی اگر آپ اپنے دوستوں کو ہاتھ سے لکھا ہوا سادہ سا عید مبارک کا کارڈ بھیجیں تو نہ صرف آپ کو اچھا لگے گا بلکہ عید کارڈ وصول کرنے والے کو بھی ایس ایم ایس کی بے ہنگم بھرمار میں یہ تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں