"SQC" (space) message & send to 7575

انا کی جنگ

ایک لیڈر اور عام انسان میں بہت فرق ہوتا ہے۔ لیڈر قوم کی امنگوں کی ترجمانی صرف اپنے الفاظ اور تقاریر میں ہی نہیں کرتا بلکہ اس کا عمل، اس کی زندگی کے انداز واطوار بھی عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق ہوتے ہیں۔ ایک عام شخص اپنی زندگی گزارتا ہے جبکہ قوم کا رہنما، اپنے چاہنے والوں اور اپنے پیروکاروں کے دلوں میں رہتا ہے، ہزار زندگیاں جیتا ہے، اس کے کہے کو اس کے پیروکار، دل کی سماعتوں سے سنتے ہیں، اس کے منہ سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کی قیمت ہے، وہ مستقبل کی بات کرے تو لوگ اس کے الفاظ سے اپنے خوابوں کی تعبیر تراشتے ہیں۔ لوگوں کی توقعات اپنے رہنمائوں سے بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ اقبال کا ایک شعر ایسے میرکارواں کی مکمل ترجمانی کرتا ہے جس کا خاکہ ابھی بیان کیا گیا ہے۔ ایک رہنما کو کیسا ہونا چاہیے۔ اس شعر میں اس کی خوبصورتی سے وضاحت کی گئی ہے۔ نگہ بلند، سخن دلنواز‘ جاں پُرسوز یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے حقیقی رہنما کی نگاہ ہمیشہ بلند مقاصد پر ہوتی ہے، جدوجہد کا مطمح نظر ہمیشہ اس کے پیش نظر رہتا ہے۔ وہ کڑے حالات سے گزرتا ہے مگر اس کی بات اس کی زبان تک آتے آتے ایسے لفظوں میں ڈھلتی ہے جو دل میں اتر جائیں۔ نپے تلے الفاظ، پرمغز اور پرمعنی گفتگو۔ سخن دلنواز میں ڈھلتی ہوئی ہربات ۔ وہ جوکہتا ہے تاریخ کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ ایک لیڈر کو اپنے قول وفعل میں محتاط ہونا پڑتا ہے۔ لیڈر کبھی ایسی بات نہیں کرتا، جسے وہ آنے والے وقت میں Ownنہ کرسکے۔ وہ جھوٹے اور بے بنیاد وعدوں سے گریز کرتا ہے۔ نہ وہ زیب داستاں کے لیے کچھ بڑھاتا ہے‘ نہ ہی شعلہ بیانی میں ایسی بات کرتا ہے جس پر کوئی قدغن لگائے۔ وہ اصول‘ آئین اور قانون کو سمجھنے والا ہوتا ہے۔ اس کے دل کے ساتھ لاکھوں کروڑوں دل دھڑکتے ہیں۔ اس کی ایک آواز پر‘ جرس کارواں کی طرح رکے ہوئے‘ قافلے چل پڑتے ہیں۔ ایک لیڈر ایک ساحر کی طرح، بجھے ہوئے دلوں میں روح پھونک دیتا ہے۔ ایک کوزہ گر کی طرح تفرقات میں بٹے ہوئے لوگوں کی مٹی کو، اتحاد کے پانی سے گوندھ کر نئے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ اب کوئی ایسا رہنما، کوئی ایسا لیڈر دکھائی نہیں دیتا مگر، ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ایک ایسا بلند قامت ، باکردار رہنما نصیب ہوا تھا۔ جس کی نگہ بلند تھی، اور ہر ہرسخن دلنواز تھا۔ جواقبال کے اس شعر کی مکمل تفسیر تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ۔ وہ عظیم رہنما جس کے بارے میں ایک خوش نوا نے کہا۔ میں نے اسے دیکھا تھا اک شخص تھا دبلا سا! اس شخص کے سینے میں دل میرا دھڑکتا تھا قائداعظم محمد علی جناحؒ جیسے رہنما تو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں لوگ قائد کوآئیڈیل مان کر بعد میں آنے والے، پست قامت سیاستدانوں کو، اپنا رہنما سمجھتے رہے، ان کے الفاظ پر ایمان لائے مگر پھر حالات نے ان کے قول وفعل میں وہ تضاد دکھائے کہ خدا کی پناہ ! غربت کی بات کرنے والے، غریب کُش پالیسیوں پر عمل پیرا رہے۔ دوبڑی جماعتوں کی باریاں لگی رہیں۔ پاکستان کا نوجوان مایوس تھا کہ اسے عمران خان کی صورت میں ایک لیڈر نظرآیا۔ پاکستان کی یوتھ صحیح معنوں میں کپتان کی دیوانی ہوگئی۔ تحریک انصاف ایک پرزور آندھی کی طرح چھا گئی۔ لوگوں نے عمران خان کو ایسا رہنما سمجھنا شروع کردیاجو ہر بات حق کرنے والا ہے۔ جو سچ پر ڈٹ جانے والا ہے۔ جس کے قول وفعل میں تضاد کی شرح باقی سیاسی رہنمائوں کی نسبت بہت کم ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم شخصیت پرستی میں یہ بھول جاتے ہیں کہ لیڈر بھی ایک انسان ہے۔ انسان جسے قرآن پاک میں خطا کا پتلا ، ناشکرا اور جھگڑالو کہا گیا ہے۔ اگر قدرت نے انسان کی سرشت میں خوبیوں کے ساتھ کمیاں اور کوتاہیاں بھی رکھ دی ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں اس حقیقت سے انکار کرنے والے، عمران خان، خواہ کتنے ہی مقبول لیڈر کیوں نہ ہوں آخر کار وہ ایک انسان ہیں اور غلطی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ انہیں یہ بات تسلیم کرلینا چاہیے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے رہنما کی حیثیت سے انہیں اپنے الفاظ ہمیشہ سوچ سمجھ کر بولنا چاہئیں، وہ پہلے بھی سخت لہجے میں، سخت الفاظ استعمال کرتے رہے ہیں۔ تلخ ترین مؤقف بھی بہتر الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ زبان سے نکلی ہوئی بات کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح واپس نہیں آسکتی ۔ عدلیہ کے بارے میں عمران خان کے سخت الفاظ نے جوماحول پیدا کردیا ہے اس میں ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنی انا بھلا کر معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کریں اور بلاوجہ اس پر سیاست نہ کریں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور چار حلقوں میں گنتی دوبارہ کروانا چاہتے ہیں تو مؤقف کو بہتر انداز میں پیش کریں۔ یہ ان کا جمہوری حق ہے۔ عمران خان نیازی اکھڑ مزاج کے انا پرست انسان ہیں۔ سچائی اور دیانت پریقین رکھنے والے ہیں مگر پھر بھی قومی رہنما کی حیثیت سے ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ حلیم الطبع ، اور شائستہ رہیں۔ انہیں چاہیے کہ فصیل انا سے نیچے اتر کر، مفاہمت کے ساتھ، عوام کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں۔ نان ایشوز اگر ایشوز بن کر میڈیا ہائپ Media Hype پیدا کرتے رہے تو عوام ایک بار پھر مایوس ہوجائیں گے۔ عمران خان یادرکھیں کہ بطورایک قومی رہنما کے وہ انا کی جنگ نہیں لڑرہے بلکہ عوام کے حقوق کی جنگ میں شریک ہیں‘ جس میں عوام انہیں جیتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں وگرنہ انا کی جنگ میں تو انسان جیت کر بھی ہار جاتا ہے۔ انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن پھر اس کے بعد بہت دیرتک نڈھال رہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں