"SQC" (space) message & send to 7575

نایاب ہیں ہم

پاکستان میں ٹیلی ویژن ساٹھ کی دہائی میں آیا۔ 1964ء میں پہلی بار، کراچی ریڈیو سٹیشن کے احاطے میں ہی ٹی وی کا آغاز ہوا۔ پھر پہلا ٹی وی سٹیشن لاہور تھا‘ جس کا باقاعدہ عمارت میں آغاز ہوا۔ شروع میں بہت پڑھے لکھے، ادبی مزاج رکھنے والے اور علم سے گہری وابستگی کے حامل افراد ٹی وی سے وابستہ ہوئے اور پاکستان ٹیلی ویژن کو ایک سنہری دور تک لانے میں ان کا کردار بلاشبہ اہم ہے۔ آغاز میں تفریح کے لیے بھی پروگرام ترتیب دیتے تو اس میں معلومات اور علم کا پہلو ضرور مدنظر رکھا جاتا تاکہ ناظرین تفریح کے ساتھ سیکھتے بھی جائیں۔ مقبول ترین پروگرام کسوٹی کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما تھی۔ 70ء میں کسوٹی کے نام سے پروگرام کا آغاز ہوا اور ایسے صاحبان علم اس پروگرام سے وابستہ ہوئے کہ آج تک جن کا ثانی نہ مل سکا۔ قریش پور اور عبیداللہ بیگ کی علمی جوڑی گویا اس پروگرام کی پہچان تھے۔ پچھلے برس میں 22نومبر کو عبیداللہ بیگ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ایسا لگا کہ قریش پور کی جوڑی ٹوٹ گئی ہے کیونکہ کسوٹی پروگرام کو دیکھنے والے جانتے ہیں کہ 1970ء سے لے کر اب تک یہ پروگرام جتنی بار بھی دوبارہ آن ائیر ہوا دونوں صاحبان علم اس پروگرام کا لازمی حصہ تھے۔ 2013ء یعنی عبیداللہ بیگ کی وفات کے ایک برس کے بعد اپنی طرز کے منفرد کمپیئر، قریش پور بھی اس جہانی فانی سے رخصت ہوئے۔ اگست کی پانچ تاریخ اور رمضان المبارک کی ستائیسویں شب، نستعلیق لہجے میں اردو بولنے والے قریش پور نے عالم فانی سے اپنا رخت سفر باندھا۔ ٹی وی چینلز کی بھرمار میں بھی اس خبر کو وہ اہمیت نہ مل سکی جو اس کا حق تھا۔ دہشت گردی اورقتل و غارت کی نہ ختم ہونے والی خبروں میں قریش پور کی وفات کی خبر کہیں گم ہوگئی۔ سچ تو ہے کہ عبیداللہ بیگ اور قریش پور کے جانے سے الیکٹرانک میڈیا میں ایک ایسے دور کا خاتمہ ہوگیا جس میں تہذیب اور شائستگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ایسی گفتگو جو سماعتوں میں رس بھی گھولے اور علم کی پیاس کو بھی سیراب کرے اب سننے میں کہاں آتی ہے۔ خوف صورت لب ولہجے کی اردو سننے والوں کے تلفظ کی اصلاح بھی ہوتی تھی اور حظّ اٹھانے والے اس پروگرام کے تفریحی پہلو سے بھی خوب لطف اندوز ہوئے۔ جب 1970ء میں کسوٹی کا آغاز ہوا تو قریش پور اس پروگرام کے میزبان ٹھہرے اور عبیداللہ بیگ کے ساتھ نامور شاعر افتخار عارف پروگرام میں شریک ہونے والے مہمان، مشکل سے مشکل سوال ڈھونڈ کر لاتے اور عبیداللہ بیگ قریش پور کی مدد سے چند سوالوں کے بعد ہی جواب تک پہنچ جاتے۔ دونوں حضرات کا علم قابل رشک تھا۔ ادب، سائنس، زبان و بیان، طب، جغرافیہ، اسلام، سیاسیات، سماجیات غرض ہر شعبہ زندگی کے بارے میں ان کی معلومات حیران کن ہوتیں۔ عبیداللہ بیگ کی وفات کے بعد یہ انکشاف سامنے آیا کہ انہوں نے باقاعدہ کسی ادارے سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ کسی سکول اور کالج میں نہیں گئے تھے۔ بس ابتدائی تعلیم، مدرسے سے لی اور اس کے بعد اپنے اندر کی پیاس بجھانے کے لیے تمام عمر، علم کے حصول کا سلسلہ جاری رہا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علم کی اگر لگن موجود ہو تو پھر کوئی رکاوٹ مسافر علم کا راستہ نہیں روک سکتی۔ عبیداللہ بیگ کے ساتھ بعد ازاں غازی صلاح الدین بھی اس پروگرام کا حصہ بنتے رہے۔ قریش پور کا منفرد نام ہی وجہ شہرت بنا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ ان کا قلمی نام تھا۔ ان کا اصل نام ذوالقرنین قریشی تھا۔ قریش پور نے ریڈیو پاکستان کراچی سے کیرئیر کی ابتدا کی اور پاکستان ٹیلیویژن کے آغاز سے اس ادارے سے وابستہ ہوگئے۔ بہت سے اہم مواقع پر قریش پور نے کمنٹری کی اور اہم پروگراموں کو اپنی کمپیئرنگ سے سجایا مگر اصل میں کسوٹی ہی ان کی وجہ شہرت بنا، کچھ عرصہ پہلے تک بھی وہ ایک نجی چینل پر کسوٹی کی میزبانی کرتے تھے مگر پچھلے برس، عبیداللہ بیگ کے انتقال کے بعد پروگرام کسوٹی کی بھی کلینکل ڈیتھ ہوگئی‘ جو قریش پور کی وفات کے ساتھ اپنے حتمی انجام کو پہنچی۔ اس لیے بہت سے دوسرے پروگراموں اور مقبول فلموں کا جس طرح ری میک تیار کیا جاتا ہے کسوٹی پروگرام کا ری میک بنانا بہت مشکل ہے کیونکہ آج کل ایسے صاحبان علم کا ملنا ہی بہت مشکل ہے جو ادب اور صحافت سے لے کر سائنس، طب، ثقافت، جغرافیہ جیسے متنوع موضوعات پر دسترس رکھتے ہوں۔ کہتے ہیں کہ عبیداللہ بیگ کی وفات نے قریش پور کو بے حد افسردہ کر دیا تھا اور نہایت غم کے لہجے میں وہ صرف ایک جملہ ہی ادا کرسکے کہ میرے دوست نے جو لفظ بھی بولا وہ دانش اور علم پر مبنی تھا۔ خود قریش پور کی اپنی شخصیت بھی اسی جملے کا عکس تھی۔ قریش پور نے تمام عمر شادی نہیں کی اور وہ اپنی ہمشیرہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے جہاں کتابیں ان کی ہمدم و ہمراز تھیں۔ تہذیب و شائستگی سے گندھی ہوئی شخصیت، عینک کے پیچھے آنکھوں سے جھلکتی ذہانت اور ہر لفظ سے چھلکتا ہوا علم، شہرت اور ستائش کی پرواہ کیے بغیر کام کرنے والے۔ یہ تھے قریش پور جو اب پاپوش نگر کراچی کے شہر خموشاں ہیں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ عبیداللہ بیگ اور قریش پور کی علمی جوڑی کے لیے ہی شاید کہا گیا ہے۔ ؎ ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں