"SQC" (space) message & send to 7575

ٹشو پیپر

’’کارکن کسی بھی سیاسی جماعت کا سرمایہ ہوتے ہیں‘‘۔ سیاسی جماعت کی عمارت میں پُرعزم کارکن، اینٹ مٹی اور گارے کی سی اہمیت رکھتے ہیں۔ کارکنوں کی فورس ہی سیاسی جماعت کی اصل طاقت ہوتی ہے۔ سیاسی رہنما اپنے کارکنوں کے بل بوتے پر ہی کارزارِ سیاست کے مختلف مراحل طے کرتا ہے۔ یہ بے نام کارکن جیلیں کاٹتے ہیں، کوڑے کھاتے ہیں، لاٹھی چارج سہتے ہیں مگر اپنے رہنمائوں کے جلسے سجاتے ہیں‘ ان کی تقریروں پر تالیاں پیٹتے ہیں، ان کے وعدوں پردیوانہ وار رقص کرتے ہیں اور نعرے بلند کرتے ہوئے ان کے گلے بیٹھ جاتے ہیں۔ سیاسی رہنمائوں کی سیاست کی بساط دراصل ان کارکنوں کے دم سے ہی آراستہ رہتی ہے مگر سیاسی رہنمائوں کی سیاست کو چمکاتے چمکاتے خود ان کی اپنی زندگی گہنا جاتی ہے۔ جب ان کے لیڈر حکومت سے باہر ہوں تو ان کے لیے یہ بے نام سیاسی کارکن گولیاں بھی کھاتے ہیں اور جیلیں بھی بھرتے ہیں اور جب ان کے سیاسی رہنما حکومت میں آجائیں تو پھر یہ سیاسی کارکن ان کی نظر کرم کے متمنی ہی رہتے ہیں۔ حکمرانی کے رتھ پر سوار سیاسی شہسوار اس وقت غریب کارکنوں کے ہاتھ نہیں آتے‘ تاوقتیکہ پھر سے بُرا وقت ان پر آئے اور انہیں ٹشو کی طرح استعمال کرنے کے لیے پھر سیاسی کارکنوں کی ضرورت پڑے۔ اچھے وقتوں میں حکمران ان بے نام کارکنوں کو بھول جاتے ہیں‘ جن کی قربانیوں نے ان کے لیے اقتدار کے راستوں کو ہموار کیا۔ محسن بھوپالی کا یہ شعر شاید ایسے ہی کم نصیبوں کے لیے ہے جو قربانیاں دینے کے باوجود منزل کے ثمرات حاصل نہیں کر پاتے۔ کیا خوبصورت شعر ہے ؎ نیر نگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیے منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے سیاسی جماعتوں کے یہ گمنام سپاہی عجیب سی مخلوق ہوتے ہیں۔ ان کے خستہ حال گھروں میں غربت ناچ رہی ہوتی ہے، ان کے پیارے فاقے کاٹ رہے ہوتے ہیں اور وہ سیاسی جلسوں کے پُررونق ماحول میں انقلاب اور انصاف کے نعرے بلند کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے بچے دوا کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے علاج سے محروم، بے کسی کے عالم میں تڑپ رہے ہوتے ہیں اور وہ اپنے لیڈر کو رخصت کرنے کے لیے ائیرپورٹ پر موجود ہوتے ہیں‘ لیڈر جو بیرونِ ملک علاج کی غرض سے تشریف لے جا رہے ہوتے ہیں۔ یہ قابلِ رحم سیاسی کارکن طبقاتی تقسیم کی دو انتہائوں کو قریب سے دیکھتے ہیں۔ ایک طرف ان جیسے لاکھوں غریب ہیں جن کی زندگی میں محرومیاں، حسرتیں، بیماری اور خستہ حالی ہوتی ہے اور دوسری طرف صاحبِ اختیار اور صاحبِ اقتدار لوگوں کا ٹولہ، جن کے قدموں میں دنیا کی ہر آسائش ڈھیر ہوتی ہے‘ جو پانی سے لے کر لباس اور دوا تک امپورٹڈ استعمال کرتے ہیں‘ جن کے اربوں ڈالر بیرونی بینکوں میں پڑے ہوتے ہیں، جن کے محلّات دنیا کے محفوظ اور پُرآسائش خطّوں میں ان کے مبارک قدموں کے منتظر ہوتے ہیں۔ ان کی جماعت پر بُرا وقت آ بھی جائے تو یہ سیاسی رہنما خود ساختہ جلا وطنی اختیار فرما لیتے ہیں اور عیش کرتے ہیں‘ جبکہ ان کی عدم موجودگی میں یہ خانماں خراب اور تہی کیسہ سیاسی کارکن جلائو گھیرائو کر کے اور جیلیں بھر کے اپنے ناخدائوں کی سیاست کو زندہ رکھتے ہیں ۔کبھی جاں سے بھی گزر جاتے ہیں‘ مگر ان کی خبر تک نہیں آتی۔ آئے بھی تو بے نام۔ فلاں سیاسی جماعت کا ایک کارکن ہلاک اور بس۔ سیاسی رہنما اپنی قیمتی مصروفیات میں سے وقت نکال کر کارکن کے لواحقین سے غم بانٹنے جاتا ہے۔ چند لاکھ کا نذرانہ دیتا ہے۔ تا عمر بچوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری کا وعدہ کرتا ہے اور لوٹ آتا ہے ،مگر چند ہی دنوں میں کارکن کا خیال سیاسی رہنما کے ذہن سے نکل جاتا ہے اور اس کے وارث تمام عمر اس وعدے کے پورا ہونے کے انتظار میں گزار دیتے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ٹرک کی حفاظت کرتے ہوئے کتنے ہی جیالوں نے جان دی‘ کتنی زندگیوں کے چراغ گُل ہوئے ۔ آج بھی ان کے خستہ حال وارث متمنی ہیں کہ کوئی آئے اور ان کے دُکھوں کا مداوا کرے۔ سیاسی کارکنوں کی قسمت اگر زیادہ ہی خراب ہو تو پھر وہ سیاسی جماعت کے مسلح ونگز کا حصہ بن جاتے ہیں۔یہ وہ تاریک گڑھا ہے جس میں ان کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے غارت ہوجاتی ہیں۔ اگرچہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ ان کی پارٹی کے مسلح ونگز موجود ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ اس وقت جس سیاست گری نے کراچی جیسے میٹروپولٹین شہر کی گلی گلی کو مقتل بنا رکھا ہے‘ یہ انہی گروپوں کی کارستانی ہے۔ ان مسلح ونگز سے منسلک سیاسی کارکن مجرم، قاتل اور بھتہ خور بن جاتے ہیں۔ بے گناہوں پر گولیاں چلاتے ہیں اور سیاسی مخالفین کو بھی موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔ کبھی تشدد کرکے لاشوں کو بوریوں میں بند کرنے جیسے انتہائی وحشیانہ جُرم کرتے ہیں تو کبھی کاروبار میں مصروف مارکیٹس میں گولیاں چلا کر کاروبار بند کروا دیتے ہیں۔ شہر میں سیاست کے نام پر بلوا کرتے ہیں، خوف، وحشت اور دہشت پھیلاتے ہیںاور پھر خود بھی کسی گولی کا نشانہ بن کر نشان عبرت بن جاتے ہیں۔ گھر والے ان کی وجہ سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں اور جن سیاسی لیڈروں کے لیے یہ دنیا کا ہر بھیانک کام کر گزرتے ہیں وہ ان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں۔ سیاست کے نام پر قاتل اور دہشت گرد بن جانے والے سیاسی کارکن سیاست کے نام پر بدنما دھبہ ہیں؛ تاہم اصل مجرم وہ ہیں جو ایسے مسلح گروپوں کو باقاعدہ اپنی جماعت میں پنپنے کا موقع دیتے ہیں‘ کیونکہ ان کی سیاست نظریات اور ویژن کی سیاست نہیں۔کراچی اور اہلِ کراچی قابلِ رحم ہیں کہ ان کی خوشیاں، روشنیاں اور چین ان سیاسی رہنمائوں نے چھین لیا ہے‘ جو کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ مگر شاید اس سے زیادہ قابل رحم وہ سیاسی کارکن ہیں جو ان سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز میں شامل ہو کر اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرلیتے ہیں اور جن کو یہ سیاستدان ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے Dis own کر دیتے ہیں۔یہ کسی ایک سیاسی جماعت یا مذہبی تنظیم کا مسئلہ نہیں ہے۔اگر یہ کسی ایک سیاسی جماعت کا مسئلہ ہوتا تو بآسانی حل کرلیا جاتا۔کالی بھیڑیں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں میں چھپی ہوئی ہیں۔ان کے مقاصد کچھ اور ہیں اور یہ لوگ ہی سیاسی رہنمائوں کو بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں۔گزشتہ دس پندرہ برسوں میں کراچی جاکر ملک کے مختلف حصوں سے جو عسکریت پسندگروہ آباد ہوتے ہیں ان کی وجہ سے بھی حالات مزید خراب ہوئے ہیں،چنانچہ ہر سیاسی جماعت ، مذہبی تنظیم اور گروہوں کو ایسے لوگوں کے خلاف ایکشن لینا ہوگا جو ان کی چھتری تلے پرورش پاکر سیاسی جماعتوں کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں اور کراچی کا سکون چھیننے کے ذمہ دار ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں