صدر آصف علی زرداری آج اپنے عہدے کی آئینی مدت پوری کر کے رخصت ہو رہے ہیں۔ اس باوقار رخصتی کی گونج ہمیں ہر جگہ سنائی دے رہی ہے۔ لفظ رخصتی بھی عجیب ہے۔ اس میں معنی کا ایک پورا جہان چھپا ہوا ہے۔ اس لفظ کو ادا کرتے ہی ذہن میں کسی بیٹی کی اپنے بابل کے گھر سے رخصتی کا منظر یاد آ جاتا ہے۔ رخصت ہونے کا لمحہ آتا ہے تو خوشیوں بھرے ماحول میں ایک اداسی گھل جاتی ہے۔ باپ کے ہاتھوں کی لرزش اور ماں کی آنکھوں کی نمی بتاتی ہے کہ رخصتی کتنا مشکل عمل ہے۔ خالد اقبال یاسر نے رخصتی کے موضوع پر ایک بہت خوب صورت طویل نظم لکھی ہے۔ کتاب کا نام بھی رخصتی ہے۔ اس میں بہت تفصیل کے ساتھ درج ہے کہ زندگی کے مختلف مرحلوں پر انسان رخصتی کے عمل سے گزرتا ہے۔ یہاں تک کہ زندگی کی شام ہو جاتی ہے اور پھر ایک دن اُس کا دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آ جاتا ہے۔ اس موقع پر رخصت ہونے والے کی تمام رسمیں کوئی اور ادا کرتا ہے۔ بہت گہرے معنوں میں لکھی ہوئی یہ طویل نظم‘ زندگی کی بے ثباتی کو خوب صورتی سے بیان کرتی ہے۔ اس نظم میں ایک باب اقتدار کے ایوانوں سے رخصتی کا بھی ہے۔ جب جاہ و جلال ،اختیارات‘ عہدے اور کرسی کو آخری سلام کر کے صاحبِ اقتدار رخصت ہوتا ہے۔ نظم رخصتی کی زبان‘ کرافٹ‘ بے حد خوب صورت ہے۔ خالد اقبال یاسر کا زندگی کے حوالے سے گہرا مشاہدہ جھلکتا ہے۔ جس باریک بینی سے زندگی کے مختلف مراحل میں ’’رخصتی‘‘ کو بیان کیا گیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آج یہ نظم مجھے اس رخصتی پر یاد آ رہی ہے جو آج ہونے جا رہی ہے۔ صدر آصف علی زرداری بطور صدر پاکستان آج ایوانِ صدر میں اپنا آخری دن گزاریں گے۔ اس صدارتی محل میں یوں تو بہت سے صدور آئے اور پھر رخصت ہوئے مگر آصف علی زرداری کا اعزاز یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی صدر نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی اور یہ بھی پہلی بار ہوا کہ ایک منتخب وزیراعظم جانے والے صدر کو الوداعی ظہرانہ دے۔ اُس کے لیے اچھے کلمات ادا کرے۔ وزیراعظم نوازشریف اور صدر زرداری دونوں نے ایک دوسرے کے لیے خوب صورت باتیں کیں۔ ایسا لگا کہ اپنی اپنی سیاسی وابستگیاں بھلا کر اور ماضی کی ساری تلخیاں بالائے طاق رکھ کر دونوں نے اپنے دل کی باتیں کیں۔ ایک الوداعی تقریب میں ماحول جیسا جذباتی ہونا چاہیے بالکل ویسا ہی ماحول لگا۔ اپنے اپنے عہدوں کے خول سے نکل کر‘ جب ایک عام انسان کی حیثیت سے اپنے جذبات کا اظہار کیا گیا تو سننے والوں کے دلوں میں بھی یہ باتیں اُتر گئیں۔ صدر زرداری نے کہا کہ انہیں ایوانِ وزیراعظم میں آنا اچھا نہیں لگتا ۔یہاں سے ان کی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ پھر انہوں نے کہا انسان یادیں نہیں بھلا سکتا۔ اس جذباتی گفتگو کے تناظر میں سوچیں اور تصور میں لائیں کہ صدر آصف علی زرداری صدارتی محل میں اپنا آخری دن کیسے گزاریں گے۔ اپنا سامان باندھتے ہوئے‘ یادوں کو کیسے سمیٹیں گے۔ یادوں کا ایک کمال یہ ہے کہ ایک یاد ذہن کی کھڑکی سے دل میں اترے تو اس کا دامن پکڑے ہوئے‘ کوئی دوسری بھولی بسری یاد بھی ساتھ ہی دھمکتی ہے اور پھر اس کا دامن پکڑ کر کوئی اور شرارتی سی یاد… کوئی اداس کر دینے والی یاد… کوئی آنکھوں کو نم کر دینے والی یاد بھی ایک دوسرے کا دامن پکڑے‘ قطار اندر قطار دل کے آنگن میں آ کر کیکلی ڈالنے لگتی ہیں۔ بندہ صدر پاکستان رہا ہو یا پھر ہجوم میں گم ہو جانے والا کوئی گمنام سا عام سا شخص ہو، یادیں سب پر ایک سا وار کرتی ہیں۔ سو چشمِ تصور سے میں دیکھتی ہوں کہ رخصت ہونے والے آصف علی زرداری کا چہرہ اداس ہے اور عینک کے پیچھے آنکھوں کے گوشے نم ہیں۔ بی بی کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے اور پھر ساتھ ہی بی بی کا رخصت ہو جانے والا قاتل لمحہ بھی یاد آ رہا ہے۔ مشکل اور کٹھن وقت میں حوصلے اور برداشت نے بکھرے ہوئے لمحوں کو سمیٹا۔ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑا۔ ’پاکستان کھپے ‘کے نعرے کو آج بھی تحسین ملتی ہے۔ بی بی کی قبر کے تازہ پھول بھی یاد آ رہے ہیں۔ ایک احساسِ زیاں دل کو کاٹ رہا ہے کہ پانچ سال کے بعد جب زرداری بی بی کی قبر پر جائیں گے تو شاید بی بی کی قبر پر پڑے پھول بھی یہ شکوہ ضرور کریں کہ صاحب پانچ سال حکومت میں رہے تو پھر بی بی کے قاتل گرفتار کیوں نہ ہوئے۔ اس اندھے قتل کا سراغ اگر آپ نہیں لگا سکے تو پھر کسی سے کیا توقع! اس خیال کے ساتھ ہی آصف علی زرداری کا چہرہ بہت اداس اور ویران سا دکھائی دیتا ہے۔ اس لمحے کو شاید انہیں مفاہمت کی سیاست اور جمہوریت کی خدمت بھی بے معنی سی لگے! صدارتی محل میں سامان سمیٹا جا رہا ہے۔ یادوں کے کتنے ہی ٹرنک ہیں جو آج آصف علی زرداری کے ہمراہ جائیں گے۔ تنہائی اور یادوں کی ہمراہی ہو تو بہت سارے سچ بھی انسان پر منکشف ہونے لگتے ہیں۔ ایسے تلخ سچ جو عام حالات میں اپنا چہرہ چھپائے رکھتے ہیں۔ زرداری صاحب پر سودوزیاں کا ایک ایسا ہی لمحہ منکشف ہو رہا ہے۔ ان کے زیر صدارت ان کے وزرائے ا عظم اور وزیروں کے کرپشن کی داستانیں‘ خود غرضی اور مفاد پرستی کی سیاست میں عوامی مسائل سے پہلو تہی، کروفر‘ جاہ جلال‘ اور اختیارات کے پانچ سال۔ پیپلز پارٹی کے جان نچھاور کرنے والے جیالوں سے دوری کے پانچ سال… الزامات اور دشنام طرازی کے پانچ سال اور اس کے مقابل برداشت اور مفاہمت کی سیاست کے پانچ سال…! صدارتی محل میں گزرے ان پانچ برسوں کے بہت سے عنوان ہیں۔ بہت سارے رُخ ہیں… ایک دوسرے سے متضاد زاویے ہیں… اگر رخصت کرنے کا لمحہ آئے تو ہمیشہ اچھی باتوں کو یاد کرنا چاہیے۔ بہترین اور مؤثر انداز میں ’گڈ بائے ‘کہنا بھی ایک آرٹ ہے اور نوازشریف حکومت اس آرٹ سے بخوبی واقف ہے۔ صدر زرداری نے اعلان کیا ہے کہ وہ پانچ سال کے بعد سیاست کریں گے۔ ایک چھوٹا سا مشورہ یہ ہے کہ انہیں یہ وقت اپنی خودنوشت تحریر کرنے پر صرف کرنا چاہیے۔ آصف علی زرداری اگر اپنی زندگی کی کہانی‘ اس میں آنے والے اتار چڑھائو اور ’’بی بی کے شوہر‘‘ سے صدر پاکستان بننے تک کے حیران کن مراحل کو دیانت داری سے تحریر کریں تو یہ کتاب پڑھنے کے لائق ہوگی۔ ایوانِ صدر کے سکیورٹی بنکر میں بیٹھ کر سیاست کرنے والے آصف علی زرداری نے پہلی بار ملکی سیاست میں ’’مفاہمت اور برداشت‘‘ کے عنصر کو فروغ دیا۔ اس سے پہلے یہ ا عزاز کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔ یہی ان کا بڑا کارنامہ بھی ہے اور پاکستان کی سیاست میں اہم کنٹری بیوشن بھی۔ صدارتی محل میں یادوں کے ہجوم میں گھرے ہوئے آصف علی زرداری زیر لب گنگنا رہے ہیں۔ ؎ ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن اب شہر میں تیرے، کوئی ہم سا بھی کہاں ہے