"SQC" (space) message & send to 7575

آواران کے زلزلہ زدگان کے لیے

طویل دورانیے کے موسم گرما کے بعد اکتوبر کا مہینہ خوشگوار تبدیلی لاتا ہے۔ اس کی ٹھنڈی میٹھی صُبح اور شام بہت بھلی لگتی ہے لیکن اسی اکتوبر کے ساتھ افسردہ کردینے والی یادیں بھی وابستہ ہیں۔ 2005ء میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ 8اکتوبر کو آیا، اور شمالی علاقوں میں بہت تباہی مچی۔اس زلزلے کے متاثرین آج تک نارمل زندگی کی طرف لوٹنے کی اذیت ناک جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اس قیامت خیز زلزلے نے ان سے گھر بار، عزیز اور پیارے چھین لیے تھے۔اسی ہزار کے قریب لوگ موت کی وادی میں اترے اور ہزاروں کی تعداد میںعمر بھر کے لیے معذور ہو گئے۔ اس بار جب اکتوبر نے دروازے پر دستک دی تو اس کی آواز میں 2005ء کے زلزلے کی بازگشت تو تھی ہی، ساتھ ہی آواران میں آنے والے تازہ ترین زلزلے کے ملبے سے اٹھنے والی آہ و بکا اور چیخ و پکار بھی شامل ہے۔ 24ستمبر 2013ء کو پاکستان میں 7.7 درجے کا شدید زلزلہ آیا اور بلوچستان کے پسماندہ ترین شہروں آواران، کیچ اور مشکے میں قیامت ڈھا گیا۔ ع خواب کو مرتے ہوئے، خاک میں ڈھلتے دیکھا شہر کا شہر کسی آگ میں جلتے دیکھا زلزلے کے ان دونوں سانحات میں کچھ عجیب طرح کی مماثلت بھی ہے اور تضادات بھی۔ 8اکتوبر 2005 ء کو آنے والا زلزلہ رمضان المبارک میں آیا اور اس کے پچیس چھبیس دن بعد 3نومبر کو عیدالفطر کا تہوار تھا؛ جبکہ آواران میں 24ستمبر 2013ء کو زلزلہ آیا اوراب 16 اکتوبرکو مسلمان عیدالاضحی کا تہوار منائیں گے، یعنی سانحہ کے صرف 22 دن بعد پاکستانی عیدالاضحی کی خوشیاں منائیں گے۔ عجیب بات ہے اور شاید قدرت کی طرف سے ایک آزمائش اور پیغام بھی کہ ہم لوگ اپنی خوشیوں میں ان بہن بھائیوں کو کیسے یاد رکھتے ہیں جو اس وقت اپنی زندگی کے المناک حادثے سے گزر رہے ہیں۔ ہزاروں روپیہ عید کی تیاریوں میں صرف کرنے والوں کے لیے یہ ایک تنبیہہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 2005ء کے زلزلے کے بعد عیدالفطر کا تہوار تھا لیکن لوگوں کا دل مصیبت زدہ زلزلہ زدگان کے ساتھ دھڑک رہا تھا۔ عید قریب آنے پر بھی بازاروں میں عید کی خریداری کا رش نہیں تھا۔ ایک سروے میں دکانداروں نے بتایا کہ لوگ اگر خریداری کے لیے آتے بھی ہیںتو وہ زلزلہ متاثرین کے لیے ہی خریداری کررہے ہیں۔ عید کی صبح بھی لوگوں نے سوّیاں پکا کر عیدگفٹ بنا کر ان اسپتالوں کا رخ کیا جہاں زلزلہ کے متاثرین زیرعلاج تھے۔ یوں ایک مسلمان کی حیثیت سے اخلاقی اور مالی طور پر زلزلہ متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا ۔ آواران میں زلزلے نے 25ہزار سے زائد خاندانوں کو متاثر کیا ہے، ایک لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے ہیں، ہزاروں زخمی خیموں میں پڑے ہیں۔ دورافتادہ ہونے کی وجہ سے میڈیا بھی ان کے مسائل کی بھرپور کوریج نہیں کرسکا اور اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ کہ آواران ضلع،بلوچ جنگجوئوں کا گڑھ ہے، ان کے گوریلا کمانڈر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا یہ آبائی شہر ہے ۔ گزشتہ دس برس سے حکومت کا اس ضلع میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ بلوچ جنگجو، سادہ لوح عوام کو ذتی اغراض و مقاصد کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سڑکیں، اسپتال اور دوسرا انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ غریب اور پسماندہ آبادی کو اپنے بنیادی حقوق تک کا علم نہیں۔ زلزلے کی قیامت گزرنے کے بعد بھی علیحدگی پسند بلوچ رہنمائوں کے دل میں زلزلہ زدگان کے لیے کوئی ہمدردی پیدا نہیں ہوئی۔ امدادی خیموں کو تحصیل مشکے میں جلا دیا گیا، اسی طرح آواران کے لیے بھیجی گئی امدادی ٹیموں پر حملے کیے گئے۔ ایسی انسانیت سوز حرکتوں پر سر شرمندگی سے جھک جاتا ہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو مصیبت زدگان کی مدد کرنے کی بجائے الٹا ان کی تکالیف میں اضافہ کررہے ہیں۔ اب جبکہ عیدالاضحی بھی قریب ہے اور زلزلہ زدگان ابھی تک کسمپرسی کی حالت میں ہیں، ایسے میں ہم سب کو مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ میڈیا کی مناسب کوریج نہ ہونے سے اس بار لوگوں میں 8اکتوبر والے زلزلے جیسا، جذبہ موجود نہیں ہے۔ ایسے میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی کوششوں کو سراہنا چاہیے جو بذات خود آواران تک گئے اور پنجاب حکومت کی طرف سے ہزاروں خیمے، خوراک کا سامان، آواران کے مصیبت زدگان کو پہنچا رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہاں امدادی ٹیموں پر حملے کیے جارہے ہیں۔ اگر کوئی اسے سیاست کہتا ہے تو بھلے کہتا رہے۔ ایسی سیاست جس میں انسان کا بھلا ہو بہتے آنسو خشک کیے جائیں، زخموں پر مرہم رکھا جائے وہ ہمیں قبول ہے۔ ایک طرف بلوچ علیحدگی پسند بھی سیاست ہی کررہے ہیں کہ اپنوں کے زخموں پر مرہم رکھنے والوں پر حملے کررہے ہیں۔!2005ء میں 8اکتوبر کو آنے والے زلزلے کی یادیں آج بھی حافظے پر نقش ہیں۔ لکھاریوں نے اپنی تحریروں، شاعروں نے اپنی نظموں اور مصور وںنے اپنی تصویروں میں زلزلہ زدگان کے دکھ کو بیان کیا۔’’اے شریک درد ٹھہر ذرا‘‘ میری ایک ایسی نظم ہے جو واقعی آنسوئوں سے لفظوں میں ڈھلی تھی اور آج یہی نظم آواران کے بدقسمت لوگوں کے نام جنہیں اس وقت چارہ گروں اور شریک درد لوگوں کی بہت اشد ضرورت ہے۔ اے شریک درد! میرے غم کدے میں تیرے قدم نئی زندگی کی علامتیں! میرے زخم زخم وجود پر یہ لمس ہے تیرے ہاتھ کا نئے خواب کی ہیں بشارتیں! یہ بجا سہی مگر اب تلک نہیں رک سکا میرے غم کا ایک بھی سلسلہ ذرا دل کی آنکھ سے دیکھ تو ابھی میرے شہر تباہ میں، وہی رزم گاہ جمی ہوتی، ابھی مرگ و زیست ہے دوبدو، ابھی غم کی کہر ہے چار سو! ابھی کم نصیبی کی یخ ہوا، یہاں سر پٹختی ہے کوبہ کو وہ جو بے گھری کا عذاب تھا، ابھی دیکھ شہر تباہ میں ہے جما ہوا، وہ جو ساعتیں تھیں قیامتوں میں ڈھلی ہوئیں انہی ساعتوں کے ملال کا، کوئی ایک ماتمی اشک ہے سردشتِ چشم رکا ہوا ابھی بے کفن سے وجود پر کسی خشک آنکھ کا بین ہے، میرے شہر میں کہ فراتِ غم کے کنار پر، میرا شہر جان اجاڑتی، ابھی کربلا کی وہ شام ہے میرے شہر میں وہ جو ایک صبح تباہ میں تھا سبک ہوا ابھی خواب کا وہی دام ہے میرے شہر میں ابھی کم نصیبی بھی عام ہے میرے شہر میں وہ جو موت نے میری لوح جاں پر رقم کیا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں