ہر پل بھاگتی دوڑتی زندگی میں ہر دوسرا شخص وقت کی کمی کا شکوہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کہیں غمِ روزگار کی مصروفیات کے لمبے چوڑے سلسلے‘ میل ملاقاتوں اور دوست احباب سے ملنے کا وقت نہیں دیتے اور کبھی خاتونِ خانہ گھر کی چار دیواری ہی میں کاموں کے انبار تلے یوں دبی رہتی ہے کہ صبح سے شام ہو جاتی ہے مگر نہ تو گھر کے کونے کونے سے پکارتے کام مکمل ہو پاتے ہیں اور نہ ہی بے چاری خاتونِ خانہ اپنی تفریح اور آرام کا وقت نکال سکتی ہے۔ طالب علموں کو دیکھیں تو ہر وقت کی کمی کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں ۔ مضامین کی ایک لمبی فہرست ہے‘ اسائنمنٹس‘ ٹیسٹوں کا انبار ہے۔ صحت مند سرگرمیوں کے لیے آج کے نوجوان کے پاس وقت نہیں۔ بعض اوقات تو گھر کے تمام افراد اپنی اپنی مصروفیت کے دائرے میں یوں کولہو کے بیل کی طرح بندھے گھومتے رہتے ہیں کہ اتوار کی چھٹی کے روز ہی ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ پاتے ہیں۔ کہیں ورکنگ مدرز‘ ننھے بچوں کو آیا کے پاس چھوڑ کر دفتر کی فائلوں میں گم ہیں۔ ماں کے پاس بچے کے لیے وقت نہیں اور ننھا بچہ ہے کہ پہاڑ جیسا دن ماں کے انتظار میں گزارتا ہے اور کہیں بوڑھے والدین‘ روزگار کے جھمیلوں میں مصروف اپنے بچوں کی راہ تکتے رہتے ہیں لیکن اپنے اپنے پروفیشن میں ’’کامیاب‘‘ اولاد کے پاس بوڑھے والدین کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ وقت کہاں جاتا ہے؟ یہ وقت کیا ہے جو ریت کی طرح مٹھی سے لمحہ لمحہ گرتا ہے اور پھر ایک دن احساس ہوتا ہے کہ وقت گزر چکا؟ آج کی مصروف زندگی میں وقت کہیں اونچے اونچے دفتروں کے ٹھنڈے کمروں میں رکھی فائلوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ کہیں گھر سے دفتر کے راستے میں آتے جاتے۔ گم شدہ بچے کی طرح ہاتھ نہیں آتا‘ کہیں کمپیوٹر‘ موبائل فون پر بے چہرہ گفتگو کی نذر ہو جاتا ہے۔ انسانوں کا وقت انسانوں کے لیے نہیں ہے۔ کیا یہ آج کی مصروف زندگی کا المیہ نہیں! باپ اور بچے کی یہ کہانی ضرور آپ نے بھی سن رکھی ہوگی کہ ایک کامیاب کاروباری باپ دن رات اپنے کاروبار میں مصروف رہتا۔ ایک روز اس کے چھوٹے بیٹے نے باپ سے شکایت کی کہ صبح سے رات تک ہم آپ کی شکل نہیں دیکھ پاتے۔ رات گئے آپ گھر آتے ہیں تو ہم سو چکے ہوتے ہیں۔ صبح‘ سکول جاتے وقت بھی آپ سے ملاقات نہیں ہوتی۔ بابا… دن کا کچھ وقت تو میرے ساتھ گزارا کریں۔ باپ نے کہا بیٹا تم جانتے ہو کہ میرا ایک گھنٹہ کتنا قیمتی ہے۔ اگر یہ گھنٹہ ضائع ہو گیا تو کاروبار کو کتنا نقصان ہوگا۔ چند ہفتوں کے بعد یہ باپ دفتر جانے لگا تو ننھا بچہ اپنا منی باکس باپ کے پاس لایا اور بولا… بابا میں نے بہت سے روپے جمع کیے ہیں۔ یہ آپ لے لیں۔ باپ حیرت سے بولا‘ کیوں؟ بچے نے معصومیت سے جواب دیا آپ کا ایک گھنٹہ خریدنا چاہتا ہوں! لاجواب باپ نے بچے کا یہ حسن طلب دیکھ کر ارادہ کیا کہ وہ اپنی کاروباری مصروفیات کو کم کر کے اپنے بچے کو وقت ضرور دے گا! وقت میں کمی کا ا حساس تبھی ہوتا ہے جب زندگی عدم توازن کا شکار ہو جائے۔ وقت کی تقسیم ٹھیک نہ ہو تو ایک کام کی انجام دہی میں 24 گھنٹے بھی کم محسوس ہوتے ہیں۔ پروین شاکر کا دلچسپ سا شعر ہے کہ عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ اب… وہ مجھے یاد تو آتا ہے مگر کام کے بعد! کچھ لوگ وقت کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کے ہنر سے واقف ہوتے ہیں اور ایسے لوگ دن کے 24 گھنٹوں کو اڑتالیس گھنٹوں میں بدل دیتے ہیں کیونکہ گزرتے وقت کا احساس کر کے وہ وقت کا ایک ایک لمحہ قیمتی بناتے ہیں اور ہر پل کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے کامیاب لوگ کبھی وقت کی کمی کا شکوہ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی صبح جلدی اور رات دیر سے ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے وقت کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ وقت ان کے لیے الاسٹک کی طرح لچکدار ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ افراد ٹائم مینجمنٹ کے ہنر سے واقف ہوتے ہیں۔ آج کل کی ڈیجیٹل زندگی میں اب ٹائم مینجمنٹ بھی ایک آرٹ ہے۔ یہ باقاعدہ ایک مضمون ہے۔ مغرب میں تو لوگ اس کے کورسز کرتے ہیں۔ ٹائم مینجمنٹ پر ورکشاپس اور سیمینارز ہوتے ہیں جہاں مختلف شعبوں کے لوگوں کو اُن کے پیشے کے حساب سے وقت کی بہتر انداز میں تقسیم اور استعمال کا گُر سکھایا جاتا ہے۔ ایک خاتون خانہ کے لیے ٹائم مینجمنٹ کے اصول اور ہوں گے اور ایک لکھاری کے لیے اور… لیکن بنیادی بات اس میں ایک ہی ہوگی ۔کچھ عرصہ سے یہ موضوع میری دلچسپی کا مرکز ہے۔ خصوصاً جب یہ ا حساس ہوتا ہے کہ وقت تیزی سے گزرتا جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ادھورے کاموں کے ہمالیہ راہ میں کھڑے ہیں۔ بعض اوقات کسی نئے کام کے آغاز کرنے میں ادھورے اور نامکمل کام رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ بہرحال الجھائو جتنا بھی ہو‘ اس ریشم کو سلجھانے کا گُر بھی انسان کے اپنے ہی بس میں ہے۔ وقت کے بارے میں ایک خوب صورت بات پڑھی: The bad news is time flies; the good news is you are the pilot. یعنی وقت پر لگا کر اڑتا ضرور ہے لیکن اس کی اڑان کی سمت کا تعین ہم خود کر سکتے ہیں۔ ٹائم مینجمنٹ کے چند بنیادی گُر یہ ہیں۔: 1۔ دن کا آغاز صبح سویرے ہو۔ دن بھر میں کرنے والے کاموں کی فہرست پہلے سے تیار کر لی جائے۔ 2۔ کرنے والے کاموں (List to do) کی فہرست بنا کر پھر ان کاموں کو ترجیحات کی بنیاد پر نشان لگا لیے جائیں۔ ترجیحات کا تعین کرنا وقت کے صحیح استعمال کا بنیادی اصول ہے۔ بعض اوقات ہم کئی گھنٹے کسی ایسے کام میں صرف کر دیتے ہیں جو فوری اور بنیادی ضرورت کا نہیں ہوتا۔ اس طرح اپنا وقت ضائع کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ 3۔ ایک وقت میں ایک کام کو مکمل کریں۔ ہر شخص میں ملٹی ٹاسکنگ کا ہنر نہیں ہوتا کہ کئی کام بیک وقت کرنے لگ جائیں اس طرح کوئی بھی کام مکمل نہیں ہوتا۔ 4۔ کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے وقت کا تعین کریں اور پھر اسی دورانیے میں کام مکمل کرنے کی کوشش کریں۔ 5۔ موبائل فون ایس ایم ایس ہوں یا ای میل… ان کو پڑھنے اور جواب دینے کے لیے دن کا کوئی ایک وقت مقرر کریں۔ اگر ہر وقت یہی کام کرتے رہے تو پھر توجہ بٹے گی اور کوئی بھی کام مکمل نہیں ہوگا۔ 6۔ تمام دن کی مصروفیت سے ایک گھنٹہ اپنے لیے ضرور نکالیں۔ واک یا ایکسرسائز کو روٹین بنائیں۔ اس سے ذہن تازہ دم اور جسم صحت مند بھی رہے گا۔ 7۔ فون پر لمبی بے مقصد گفتگو سے گریز کریں۔ اگر وقت بچانا ہے تو؟ 8۔ شام تک To do list میں مکمل ہونے والے کاموں پر ٹک مار ک کردیں۔ کاموں کی تکمیل کامیابی کا احساس پیدا کرے گی۔ وقت زندگی ہے اور زندگی خدا کی عظیم نعمت ہے جسے ضائع کرنا گناہ بھی ہے اور اپنے ساتھ ناانصافی بھی۔ میاں محمد بخشؒ نے کیا خوب کہا: لوئے لوئے بھر لے کڑیے جے تدھ بھانڈا بھرنا شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا