یکم نومبر 1979ء کو کوٹلی جنوبی وزیرستان میں پیدا ہونے والا جمشید محسود، جسے دنیا حکیم اللہ محسود کے نام سے جانتی ہے، ٹھیک 33برس بعد، یکم نومبر 2013ء کو امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔ اس 33سالہ زندگی میں حکیم اللہ محسود نے اسلام کے نفاذ اور شریعت کے نام پر ایسی جنگ لڑی جس میں اپنے ہی معصوم مسلمان بہن بھائیوں کو ،بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں، بلاوجہ موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا۔ مگر حکیم اللہ محسود کی ایک ایسے وقت میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت دراصل پاکستان میں امن و امان کی ہلاکت کے مترادف ہے۔ وار آن ٹیرر کے نام پر ہزاروں پاکستانی جاں بحق ہو چکے ہیں، اور پاکستان کے عوام خودکش حملوں اور بم دھماکوں کی وجہ سے مسلسل خوف اور موت کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں، اس بدامنی کو امن میں بدلنے کے لئے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لئے تیاریاں آخری مرحلے میں تھیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار کا کہنا ہے کہ ہفتہ یعنی 2نومبر کو 3ارکان پر مشتمل ثالثی ٹیم مذاکرات کی دعوت دینے کے لئے طالبان کی لیڈر شپ سے ملنے شمالی وزیرستان جانے والی تھی۔ مذاکرات کے اس مرحلے تک پہنچنا آسان نہیں تھا اور کئی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد نواز شریف حکومت مذاکرات کے مرحلے تک پہنچی تھی۔ امید کی جا رہی تھی کہ حکومت اور طالبان کے درمیان معاملات طے پا جائیں گے اور اس طرح ملک میں ہونے والے خودکش حملے اور بم دھماکے رک جائیں گے۔ نئی حکومت کے لئے یقینا یہ سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ دہشت گردی کے عذاب سے ملک کو کیسے نکالتی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے حالیہ دورہ امریکہ میں اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کے ڈرون حملوں کے ردعمل میں ہی طالبان پاکستان کے شہروں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں۔ڈرون حملوں میں صرف بے گناہ پاکستانی ہی نہیں مارے جاتے بلکہ پاکستان کے خود مختار ملک کے تشخص کو بھی شدید زک پہنچتی ہے ۔ لیکن امریکی نقار خانے میں پاکستان کا یہ موقف صدا بہ صحرا ثابت ہوا۔ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے بعد یہ دوسرا ڈرون حملہ ہے۔ اس حملے میں حکیم اللہ محسود کو اس کے ساتھیوں سمیت نشانہ بنایا گیا۔ امریکہ نے طالبان کی لیڈر شپ کو نشانہ بنا کر پاکستان کے امن کو تباہ کیا ہے ۔اب طالبان ردعمل میں پاکستان کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنائیں گے۔ 6اگست 2009ء کو جب تحریک طالبان کا سابقہ لیڈر بیت اللہ محسود بھی ایک ڈرون حملے میں مارا گیا تو نتیجتاً ،پاکستان میں دہشت گردی کی خوفناک لہر اٹھی۔جس میں دہشت گردی کا نشانہ مساجد، پرامن بازار اور گلی کوچے ہی نہیں تھے بلکہ جی ایچ کیو پر حملہ کیا گیا ۔10اور 11اکتوبر 2009ء کو پاک افواج کے سب سے اہم مرکز کو نشانہ بنا کر کم و بیش 22افراد کو شہید کر دیا گیا۔ اس حملے میں سپیشل سروسز گروپ کے 5آفیسرز بھی شہید ہوئے۔ دہشت گردی کے اتنے بڑے حملے کے اگلے ہی روز، یعنی 12اکتوبر 2009ء کو، ایک بار پھر شانگلہ ڈسٹرکٹ میں فوج کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا اور 41بے گناہوں کو شہید کیاگیا۔ ان حملوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔ امریکہ کون سا امن قائم کرنے کا خواہاں ہے ،کہ امریکی ڈرون پاک سرزمین پر گرائے جائیں تو اس کا ہولناک ردعمل بھی معصوم اور بے گناہ پاکستانی ہی سہیں؟ اندازہ لگائیے کہ 6اکتوبر 2009ء کو جب اس وقت کے طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود کو مارا گیا تو اس کے بعد دسمبر 2009ء تک پاکستان میں دہشت گردی کے چھوٹے بڑے 55واقعات ہوئے اوربیشتر میں پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے فرض شناس افسروں اور اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ۔امریکہ ایک وحشی بھیڑیے کی طرح طاقت کے نشے میں دھت ہے اور اس کی وحشت کی قیمت پاکستانی ادا کر رہے ہیں۔ ظلم اور بربریت کے اس کھیل کو ہر صورت بند کرنا ہو گا۔ اگر امریکہ طالبان اور پاکستان حکومت کے درمیان امن مذاکرات کی کامیابی کا ذرہ بھر بھی خواہاں ہوتا تو ایسے نازک وقت میں کبھی وحشت کا مظاہرہ نہ کرتا۔ امریکہ نے پاکستان کے امن اور پاکستانی عوام کی امن کی خواہش پر ڈرون حملہ کیا ہے اور اس ظلم کے خلاف پاکستان کی حکومت امریکی ایوانوں میں احتجاج کا حق بھی نہیں رکھتی۔ امریکی اداروں کے قرض تلے دبے ہوئے ملک کی صدائے احتجاج بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی شہ سرخیوں کے درمیان اخبارات میں ایک کالمی خبر یہ بھی ہے کہ ترجمان دفتر خارجہ نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس احتجاج کی جتنی اہمیت ہے اسی کے حساب سے اخبار میں خبر کو جگہ دی گئی۔ اس وقت پاکستانی عوام میں شدید بے چینی اور خوف کا عالم ہے کہ اب حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا ہولناک ردعمل معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کو سہنا ہو گا۔